Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!۔۔قسط 81

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: October 6, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
17 Min Read
SHARE
 مکہ معظمہ کی رحمتوں اور سعادتوں سے وداع لے کر مدینہ منورہ کی  راحتوں اور فرحتوں میں منتقل ہونے کی گھڑیاں جوں جوں نزدیک آگئیں ،شادی اور غمی کا ایک عجیب سا احساس دل کی ہر دھڑکن اور دماغ کی ہر جنبش پر یکایک چھا گیا۔ یہ احساس ِدروں کبھی آنسو بن کر آنکھوں سے پگھلتا اور کبھی دل میں خوشی کی تاریں چھیڑ کر نغمۂ حیات بنتا ۔ کعبہ مشرفہ سے بچھڑنے کاغم روضۂ پاک سے گلے ملنے کی شادمانی ۔۔۔ میں سمجھتا ہوں یہ ہردو کیفیات ویسی ہی ہوتی ہیں جیسے ایک بچے کو اس کے دادیہال اور نانیہال کا لاڈ پیار بیک وقت اپنی جانب کھینچتا رہتاہے یا جیسے ایک دُلہن مائکے سے رخصت لیتے ہوئے جہاںاپنے پیاروں سے جدا ہونے کے رنج میں آنسوؤں اور ہچکیوں میں ڈوب جاتی ہے ، وہاں سسرال جانے کی خوشیاں اُس کے دل کے لئے تسلیت اورجگر کو فرحت کا سامان بنتی ہیں۔ بہ نظر غائر دیکھاجائے تو مومن کی زندگی کا سارا سفر ہی شیطان سے بچھڑنے اور رحمن سے ملنے کی ایک ہمہ وقت چلتی پھرتی فلم ہوتی ہے ۔اس بیچ اگرمومن اپنا ہرقدم ایمان واحتساب کی ڈگر پر سوچ سمجھ کراٹھائے تو یہ سفر ایک بہترین منزل پر منتج ہو نے میں دورائے نہیں۔ بہر کیف سفر محمود پر جاتے ہوئے ہر فردبشر جب بالفعل غلطیوں ، گمرہیوں اور بشری کمزوریوں سے ہمیشہ ہمیش کے لئے بچھڑ کر رہ جائے اور ایمان و صالحات کی شاہراہ پر رواں دواں قافلوں کا ہم قدم بن کے اس کا دائمی میل ملاپ اللہ ورسول ؐ سے ہوجائے تو سمجھئے کہ اس کی کشتی پار لگ گئی۔  
  مکہ و مدینہ کرہ ٔارض کی شان اور زینت ہیں ، ہمارے ایمان کی متاعِ عظیم اور عمل کا اثاث البیت ہیں ، ہماری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں، جو یہاں نوازا گیا وہ خوش نصیب وکامران ،جو یہاں کی رحمتوں اور برکتوں سے خدانخواستہ محروم وتہی دامن رہا،وہ اتنا کم نصیب کہ شاید الفاظ اس کی کوتاہ قسمتی کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ علمائے اسلام کہتے ہیں کہ حرمین شریفین اورحرم بیت المقدس سے کائنات میں کوئی فضلیت مآب جگہ دوسری ہو ہی نہیں سکتی۔ بایں ہمہ مومن کے لئے چونکہ پوری زمین مسجد بنائی گئی ہے ،اس لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے الفاظ میں ’’ہر شخص کے اعتبار سے افضل ترین دھرتی وہی ہے جہاں پر اللہ انسان اللہ اور اس کے رسول ؐ کا تابع دار بن کر رہے،اور یہ صورت حالات اور واقعات کے اعتبار سے ہر شخص کے لئے الگ الگ ہوتی ہے۔ ۔۔ جس جگہ پر انسان کا تقویٰ، اطاعت گزاری ، خشوع وخضوع اور حاضریٔ قلب جس قدر زیادہ ہوگی، وہیں پر انسان کے لئے رہنا افضل ہوگا ۔اسی لئے جب ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سلمان فارسی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کو لکھا تھا:’’ مقدس سرزمین کو واپس آجاؤ‘‘ تو اس کے جواب میں موخرالذکر نے لکھاتھا:زمین کسی کو مقدس نہیں بناتی، انسان کو اس کی کارکردگی ہی مقدس بناتی ہے ‘‘  (مجموع الفتاویٰ)
 ہمارے برگزیدہ صوفیائے اسلام، عارفین ِباکمال اور سخن وران ِ باصفا   مکہ اور مد ینہ کو محض دو جغرافیائی اکائیاں نہیں گردانتے بلکہ توحید و سنت کی دو ایسی ہمہ وقت فروزاں شمعیں بتاتے ہیں جو مومنوں کے واسطے شفائے قلوب اور صحت ِ ارواح کے مستشفیٰ یعنی شفاخانے ہیں۔ جو بندۂ مومن ان روشن ترین شمعوں کی زندگی بخش فضاؤں اور فرحت رساں ضیاپاشیوں کے زیر سایہ جذب وجنون اور وجد وشوق کے ساتھ اسلام کا پروانہ بن جائے، بیڑہ اُسی کا پار ہوگیا۔ جامیؒ ؔ سے لے کر اقبالؒ تک اقلیم ِدل کو دنیا آباد کرنے والے تمام سر برآوردہ سعیدروحیں اور عارفین وکاملین بلا شبہ اسلام کے ان دو مقدس شہروں کے عاشق ِبے بدل بنے رہے، لیکن ذرا دیکھئے اقبالؒؔ جیسا فنا فی الاسلام مردِ قلندر رب ِ کعبہ سے دعا کر تے ہوئے اپنی منفرد نیستی اور عجز وانکساری کے پیرائے میں کیا التجا کرتے ہیں    ؎
تو غنی از دوہر عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
وز حسابم راتوبینی ناگزیر
ازنگاہِ مصصطفیؐ پنہاں بگیر
  علامہ کی یہ رُباعی ایک ہمیں ایسے درویش خدا مست کا آئینہ دکھاتی ہے جس کے رَگ وریشے میں ہی نہیں بلکہ ہڈیوں کے گودے میں بھی  خدائی احتساب کا ڈر اور خوف رَچابسا ہوا تھا ۔ کہا جاتاہے کہ علامہ کے ایک خاص محب اور درویش منش مولانا محمد ابراہیم ناگی سب جج نے اپنے ایک قریبی دوست مخلص و مومن اور شاعر مشرق کے ایک مخلص مرید محمد رمضان عطائی (جو خود بھی علامہ کے ساتھ اُنس وقربت کی ڈور میں بندھے تھے اور شعر وشاعری سے بھی شغف تھا) کو اپنے معمول کی صباحی مجلس میں سب سے پہلے یہ رُباعی یاردوستوں کوسنانے کو کہا۔ عطائی نے اسے اپنے سحر انگیز ترنم میں پڑھ سنایا کہ مجلس میں عجب کیف وسرور چھا گیا ، سننے والے سب کے سب آبدیدہ ہوگئے، خاص کر عطائی کی تو ہچکیاں بندھ گئیں کیونکہ ان چار مصرعوں میں مومن کے لئے معانیوں کا خزینہ ہی پنہاں نہیں بلکہ ان کے لفظ لفظ میں احسا س ِ عبدیت ، ندامت خشیت ِالہیٰ اور حب ِنبی ؐ  جھلکتی ہے ۔ اتفاق سے اسی دوران عطائی حج کو چلے گئے تو وہاں اٹھتے بیٹھے اپنی گلوگیر آواز میں یہ رُباعی گنگناتے رہے۔ وہ اپنی رُوداد حج میں لکھتے ہیں کہ جب حجاج کرام تلاوت ، وظائف اور اورادمیں محو ہو جاتے تو میں باربار اسی رُباعی کا ہدیہ نم ناک آنکھوں سے اللہ کے حضور پیش کرتا۔ اس رباعی کی روشنی میں وہی مومن آقا ئے مدنی ؐسے صحیح تر الفاظ میں اپنا پیار ومحبت جتا سکتا ہے جس کے دل میں اللہ کے ہاں جوابدہی کا احساس کوٹ کوٹ کر بھرا ہو اور جو خدائی میزان کے دونوں پلڑوں کو متوازن رکھنے میں ہمیشہ لرازاں وترساں رہتا ہو۔ 
اب مولانا جامیؔؒ کی طرف آیئے۔ مولانا عبدا لرحمن جامی ؔ علم وفضل میں  لعل وگوہر، پچاس کتابوں کے مصنف، شعر وکلام میں یکتائے روزگار، کئی مثنویوں کے خالق ہیں مگر ان کی دوامی شہرت کی وجہ ہے محبت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اُن کا سراپا غرق ہونا ، مدحت ِ رسولؐ میں شب وروز مست ہونا، خُلق ِعظیم کا لامثال مصور ہونا۔ کس دل جمعی سے فرماتے ہیں    ؎
تنم فرسودہ وجاں پارہ زہجراں یا رسول اللہ ؐ
دلم پژمردہ وآوارہ زعصیاں یارسول اللہؐ
زکردہ خویش حیرانم، سیاہ شد روزِ عصیانم
پشیمانم پشیمانم پشیمانم یا رسول اللہؐ 
 یعنی یارسول اللہؐ آپ کی جدائی میں میرا بدن بے کار اورجان پارہ پارہ ہوگئی۔ گناہوں کی وجہ سے دل نیم مردہوآوارہ ہوگیا ہے۔
 میں اپنے اعمال پہ حیران وپریشان ہوںا ور گناہوں سے سیاہ ہوچکاہوں۔ پشیمانی اور شرمندگی سے پانی پانی ہورہاہوں، یارسول اللہ ؐ انہی جگر بریدہ احساسات، ندامت اور پچھتاوے کی زادِ راہ لے کر یہ عظیم المرتبت لوگ مکہ و مدینہ کا رخت سفر باندھتے۔ ان کو یہ احساس اندر ہی اندر گویا دیمک کی طرح چاٹ لیتا کہ حرم ِکعبہ میں غفور ورحیم رب ذوالجلال سے آمناسامناہے، معافی تلافی ہوسکتی ہے ، کوئی غلطی ہو تو دَم یعنی جرمانے کی ادائیگی سے اللہ کی پکڑ سے گلو خاصی مل سکتی ہے مگر ایک ناکارہ عمل ، رُوسیاہ اور مجرم اُمتی جب روضۂ پاک کے سامنے رسول رحمت صلی ا للہ علیہ وسلم کے روبرو بصد احترام کھڑا ہو جائے تو وہ کس منہ سے آپ ؐ کو سلام عرض کرے ؟ وہاں جب دَم کا بھی چلن نہیں تو وہ کیسے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کو سلام عرض کرسکے جنہوں نے اسلام کی راہ میں خوشی خوشی تن من دھن سب کچھ نچھاور اور قربان کیا تاکہ وہ بذاتِ خود اللہ کی عدالت اور احتساب میں کامران ہوں اور آنے والی نسلیں بھی اسلام کی لازوال نعمتوں سے متمتع ہوں ۔ ہمیں پہلے ہی سوچ کے رکھنا چاہیے کہ کیا ہم روضہ ٔ نبی ؐ کے پاس ایک پل بھی کھڑا رہنے کے قابل ہیں ۔
 ہماری روح پرور صوفی شاعری ، نعت گوئی اورمدحت ِرسولؐ میں مکہ اور مدینہ کا بتکرار ذکر محبتوں ، عقیدتوں، دل گدازیوں اور جاں سوزیوں  میں لپٹا ہوا ملتا ہے کہ ہم اس کی دُھول تک نہیں پہنچ سکتے ۔ غور فرمایئے کہ آج ماضی کے مقابلے میں ایک عام غریب کے پا س بھی اتنا مال وزر جمع ہوتا ہے کہ وہ حج اور عمرہ کر آئے۔ ا س دور میںایک چپراسی تک کی آمدنی بھی ا س فریضے کی ادائیگی کا بار اُٹھاسکتی ہے لیکن گزرے زمانے میں مادی خوش حالی کی بجائے تنگ دستی عام تھی۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیںکہ دنیائے سخن کے یہ نامور سر خیل جو اللہ کے گھر تک اور روضہ ٔپاک جانے سے مالی مشکلات کے سبب معذور ہوتے ، پھر بھی وہ اپنے ایمان واخلاص کے بے آمیز جذبوں کی سواری پر بیٹھے حرمین شریفین کی زیارت ودیدار کاحظ اُٹھاتے ہیں،  ان کی روحیںکعبہ اور مسجد نبوی ؐ کے گرد منڈلاتی ہیں، کہیں مقدس شہروں کی دُھول مٹی چومتی ہیں ، کہیں ان کی عاشقانہ زیارت میں دیدہ ودل فرش رہا کئے ہوئی ہیں، کہیں اللہ ا ور رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم کی جلوتوں میں مست ہیں، کہیں خلوتوں میں اشکوں کا نذرانہ اللہ اور رسول ؐ کو پیش کرتے ہیں ، کہیں سر بسجود ہیں کہیں دست بدعا ہیں ۔ شاید اللہ کو ان کی یہی تڑپ اور یہی ادائے عشق پسند ہوئی کہ انہیں اتنی مالی استطاعت نہ دی کہ وہ باطنی سفر محمود کے ساتھ ساتھ ظاہری طور بھی حرمین میں حاضری دے سکیں ۔ بہرکیف دل کی کسک اور جگر کی آروز ئے ناتمام کو لفظوں کے قالب میں ڈھال کر صوفیانہ شاعری کے بڑے بڑے دیدہ وروں اور نعت خوانوں نے ظاہراً بن دیکھے ہی حرمین کے محبت واحترام کا حق اداکیااور اپنی روح کی تشنگی دور کر نے کا وافر سامان کیا۔ ہمارے لئے سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں اس قدر مالی وسعت دی ہے کہ حرمین کا بلاوا آگیا ، جدید سفری سہولیات ہیں، آرام وآسائش کے سامان ہیں، خور دونوش کے لئے تمام نعمتیں دستیاب ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیاہم ان جملہ سہولیات سے فائدہ اُ ٹھاکر اصل مقصود یعنی اللہ سے اطاعت کے راستے یاری دوستی گا نٹھنے اور رسولؐ سے محبت کے راستے آپ ؐکی اتباع میں یکسو ہو گئے ہیں ؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو مان لیجئے ہمارا حج وعمرہ قبولیت کا شرف پاگیا ۔ شریعت اسلامی بھی یہی کہتی ہے کہ حرمین کی حاضری کی قبولیت کا آئینہ دیکھنا ہو تو یہ دیکھئے کہ حاجی ومعتمر نے اپنی ذاتی اصلاح کی ، اپنا کردار سنبھالا، اپنے گفتار پر سچائی کا پہرہ بٹھایا ، حق کو حق جانا اور باطل کو باطل سمجھا ، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہو ا، تجارت اور معاشی سرگرمی کو اخلاقی ضوابط اور شریعت کی ڈور سے باندھا، سود سے دامن بچایا، شادی کے وقت انہی زریں اصولوں کو اپنایا جو اسلام کے پیروکاروں کے سامنے حضرت علی ا لمرتضیٰ کرم ا للہ تعالیٰ وجہہ اور سیدہ حضرت فاطمۃ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی بیاہ کی مثال میں موجو دہیں ، غمی اور ماتم میں انہی ضوابط سے کام لیا جس کی تعلیم اللہ کے رسول ؐ نے وضاحتاً دی ہے، حب ِدنیا اور مادہ پرستی کی طمع ولالچ سے دل خالی کیا ، سب لوگوں کی خیرخواہی میں اپنی قابلیتیں صلاحیتیں کھپا دیں۔ شیطان چونکہ ایک مستقل بالذات حقیقت ہے اور نہ تھکنے ولا اور نہ جھکنے والا چور ڈاکو ہے ،اُ س کو پچھاڑنے میں رحما نی طاقت کا کماحقہ استعمال کیا۔ یہ سب جس نے کردکھایا وہ عنداللہ مقبول بندہ ٹھہراہے ۔ بالفاظ دیگر جو حاجی صاحب ایجابی طور پر بھی مسلمان ہو ا اور سلبی طور پر بھی اللہ وحدہ لاشریک کا بندۂ خالص بنا، اس کا حج اس کے لئے قبولیت کا سرنامہ ہے ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حرمین میں دل کے تارچھونے والی اذانوں ، نمازوں، اللہ کی یاد ، اچھی باتیں کہنے اور عمدہ باتیں سننے، سنجیدگی و متانت کاماحول آٹھوں پہر بر پا ہوتا ہے ، کمال تو تب جب حاجی ومعتمر گھر واپس لوٹے تو ان حوالوں سے حوصلہ شکن ماحول کے باوجود وہ ان چیزوں کا حتی الوسع اہتمام کرے، شرک و بدعت ، کذب و کتمان ِ حق، بغض وعداوت، ریا کاری، منافقت اور فریب کاری، بخل اور فضول خرچی سے کنارہ کش رہے ۔ یہ اسلام کا وہ لافانی حسن و جمال جو حج وعمرہ کے لئے سفر محمود پر آنے والے ہر شخص کو انعام کے طور حرمین سے  لازماًملتا ہے ، بشرطیکہ وہ اللہ کی اس ڈالی کودل وجان سے قبول کرے،ا س کی قدردانی کرے اور پھر اپنی باقیماندہ زندگی میں اللہ کا نمائندہ بن کر رہنے کو بصدقلب تیارہو کہ اپنے اور غیر اُسے دورسے ہی دیکھ کر  خوشی ، فخراور اپنائیت کے ساتھ کہیں حاجی صاحب آرہے ہیں، جب کہ خود حاجی صاحب کے لب پہ یہ دعا ہونی چاہیے:
 اے ہمارے رب ! ہمارے لئے نور کی تکمیل کر دے اور ہمیں لغزش وگناہ سے محفوظ رکھنا( سورہ التحریم، آیت ۸)
 
  نوٹ :بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ، ان شاء اللہ

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

نجی ہسپتال اس بات کو یقینی بنائیںکہ علاج عام شہری کی پہنچ سے باہر نہ ہو:وزیراعلیٰ نیشنل ہسپتال جموں میں خواتین کی جراحی کی دیکھ بھال پہل ’پروجیکٹ 13-13‘ کا آغا ز
جموں
آپریشنز جاری ،ایک ایک ملی ٹینٹ کو ختم کیاجائیگا بسنت گڑھ میںحال ہی میں4سال سے سرگرم ملی ٹینٹ کمانڈر مارا گیا:پولیس سربراہ
جموں
مشتبہ افراد کی نقل و حرکت | کٹھوعہ میں تلاشی آپریشن
جموں
نئی جموں۔ کٹرہ ریل لائن سروے کو منظوری د ی گئی
جموں

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?