مکتبۂ مکہ کے صدر روازے کے بائیں جانب ایک چھوٹے سے بُک سٹال پر مختلف زبانوں میں اسلامی موضوعات پرکتابچے اور سی ڈیززائرین میں مفت تقسیم کی جاتی ہیں ۔ میں نے بھی یہاں سے بعض کتابچے بلا معاوضہ حاصل کئے۔ ’’ا دارہ ٔ امر بالمعروف نہی عن المنکر‘‘کی ان مطبوعات میں ایک فولڈر’’کتب خانہ مکۂ مکر مہ ‘‘ کے زیر عنوان ہے جس میںاس مقدس جگہ کے بارے میں بالاختصار بعض اہم معلومات درج ہیں ۔ لکھا ہے: یہ کتب خانہ شعب ابی طالب کے آغاز میں مسعیٰ(صفا ومروہ کے مابین سعی کی جگہ ) کے مشرق کی جانب واقع ہے۔ اسے شیخ عباس قحطان نے سن ۱۹۵۰ء (بمطابق۱۳۷۰ھ ) میں بنایا تھا۔اس کی سرپرستی وزارتِ شئون اسلامیہ کے ذمے ہے۔ا س میں بہت سی کتب، مخطوطات اور تاریخی نوادرات ہیں۔ یہ دومنزلہ عمارت ہے جس کی کھڑکیاں لکڑی اور رنگ کلیجی ہے جو آغاز ہی سے مکہ کی عمارات کا معروف رنگ رہاہے۔ بعض مولفین ذکر کر تے ہیں کہ اس کتب خانے کی جگہ نبی ؐ کا گھر تھا جس میں آپ ؐ کی ولادت ہوئی۔ جب نبی صلی ا للہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے توعقیلؓ بن ابو طالب نے اسے اپنی تحویل میں لیا۔ یہ گھر اُن کے اور اُن کی اولاد کے پاس ہی رہاتاآنکہ حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف ثقفی نے اسے خرید کر اپنے گھر دار البیضاء میں شامل کر لیا ۔ سنہ ۷۱؍ہجری میں جب ہارون الرشید کی و الدہ خیزران نے حج کیا تو انہوں نے اسے جائے نماز (یعنی مسجد) بنایا لیکن اب یہاں مسجد نہیں صرف ایک کتب خانہ ہے ۔
بیت رسول صلی ا للہ علیہ و سلم کو مکتبہ مکہ موسوم کیا گیا ہے کیونکہ یہی نام اس کے شایان ِ شان ہے ۔ یہ نام آپ ؐ کی سیرت پاک کے ایک خاص ا لخاص شعبے ۔۔۔ علم اور عرفان۔۔۔ سے گہری مناسبت رکھتا ہے ۔ بیت النبیؐ اب عصررواں میںمکتبہ ٔ مکہ کہلاتا ہے لیکن اگر اسے مکتبہ ٔ عالم کہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔یہی وہ مقدس جگہ ہے جہاں عالمی تاریخ میں علم ومعرفت ، تعمیر انسانیت اور جادہ ٔ ہدایت کا منبع ومرکز متشکل ہوا۔یہاں کی چاردیواری میں ہاشمی خانوادے کا جو چشم وچراغ تولد ہو ا،وہ صرف اپنے گھر بار ، اپنے خاندان ، اپنے قبیلے،ا پنے وطن، اپنے زمانے یا اپنی دنیا کے رہبر ورہنما، معلم ومربی ہی نہیں بلکہ کل جہاں کے تمام گھروں میں ازل تاابد چمکنے والے علم کا اُجالا ، تمام اقوام کا ہادیٔ برحق، جملہ مسائل ِحیات کا حتمی حل ہیں۔ لافانی زیب و زینت والے اس گھر میںا للہ کا آخری پیغمبر ؐ جلوہ گر ہوئے تاکہ بندگانِ خدا کو علم وآگہی کے توسط سے صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ ملے، ان کارشتہ اللہ سے استوار ہو ،راہ بھٹکی روحیں راہ ِ راست پر آجائیں ، جہل و لاعلمیت کے بت پاش پاش ہوں اوردنیا عملاً جنت کا نمونہ اور آخرت کی کھیتی بن جائے ۔ اس قدر ومنزلت والے مقامِ سے اللہ نے نبوت ورسالت کی نورانی شعاعوں کا وہ سفر شروع کروایا جو آبِ زمزم کی مانند مسلسل پیاسی روحوں کی تشنگی دور کر رہاہے اور تاقیام قیامت کرتا رہے گا ۔ باوجودیکہ مرور ِزمانہ سے اس تقدس مآب گھر کا سارا حلیہ بدل چکا ہے ، اس کا گردونواح مکمل طور تبدیل ہو چکاہے، جس باسعادت محلے میں آپ ؐ کے انفاس ِ مبارک کی نشست و برخواست ہوئی وہ بھی اب کہیں نظر میں نہیں آتا، جن گلی کوچوں کو آپ ؐ کی عطر بیز جلوتوں کاشرف ِ عظیم حاصل ہوا ، اُن کا وجود بھی صرف تذکروں میں ہی ملتاہے بلکہ آس پاس کے وہ پہاڑیاں بھی نظروں سے اوجھل ہوکر یکے بعد دیگرے فلک بوس عمارات کا روپ دھارن کر رہی ہیں ،بایں ہمہ تمام انبیائے کرام علیہ السلام میں یہ اعزا واختصاص صرف اور صرف آپ ؐ کو حاصل ہے کہ نہ صرف ولادتِ باسعادت کا مقدس مقام اپنے انوارات بکھیرتے ہوئے کعبہ مشرفہ کے قرب وجوار میں موجود ہے بلکہ مدینہ شریف میں روضہ ٔ مطہرہ میں آپؐ بہ نفس نفیس آرام فرما ہیں۔
ذرا غور فرمایئے جب حضرت بی بی آمنہ پیغمبر آخر الزمان ؐ کو مکہ کی اس جھونپڑی میں جنم دیتی ہیں ،اس گھر کی خوشیوں کا کیا عالم رہاہوگا ،اس کی شادمانیوں کا کیا رنگ ہوگا ، عرش معلی کے ملائکہ کس قدر مسرتوں میں جھوم رہے ہوتے، ان پُر مسرت لمحات میں سو بر س کے بزرگ عبدالمطلب کو یہ خوش خبری ملتی ہے کہ اُن کے وفات یافتہ فرزند عبداللہ کا پیارا پیارا بیٹا ہوا تو یہ بزرگوار اپنے تابندہ پوتے کو دیکھ کرخوشی سے پھولے نہیںسماتے، زمین وآسمان اور زمان وزمن کے سب سے زیادہ چہیتے نوزائیدہ بچے کی بلائیاں لیتے ہیں ، آغوش ِ محبت میں اُٹھاکر شکرا نے کے طورخانہ کعبہ لے آتے ہیں ، اللہ کو اس عدیم ا لمثال انعام پر جھک جھک کر سلام کر تے ہیں، بچے کی صحت و سلامتی کی دعائیں وردِ زبان ہوجاتی ہیں اور بلا کسی توقف کے خلاصہ کائنات سروردوعالم کانام نامی محمد ؐ رکھتے ہیں ۔ یہ اسم مبارک عرب میں ناموس نام نہیں۔ دل تھام کر سنئے یہ اس گھر کا حال احوال ہے جہاں آپ ؐ فطرت کے اسلوب کے عین مطابق اپنی آمد کا مژدۂ جانفزا پہلی چیخ سے سناتے ہیں ۔۔۔اور پھر مدینے کے اُس حجرے کے حالات وکیفیات بھی دیکھئے کہ جہاں سے شہنشاہِ کون ومکان اپنے رفیق اعلیٰ ( اللہ) سے ابدی ملاقات کے لئے تشریف لینے جارہے ہیں ۔ یہ کونسا وقت ہے؟ جب سارا عرب آپ ؐ کا گرویدہ ہے، آپ ؐ دلوں پر راج کر رہے ہیں ، آپؐ کے ابروئے چشم کے اشارے پہ اقوام و ملل کی تقدیریں سنوررہی ہیں ، روم کا قیصرفارس کا کسریٰ آپ ؐ کے سامنے پر کاہِ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے،ایک وسیع وعریض مملکت آپ ؐ کے زیر نگین ہے مگر مدینہ کے اس حجرہ نما دارالسلطنت میں کوئی تخت وتاج نہیں، کوئی شاہی سازوسامان نہیں ، لعل وجواہر یا مال ومتاع نہیں، کوئی دربان پہرے دارنہیں ۔ آج شہنشاہ ِ دوعالم ؐ کے گھر میںرات کو جو دیا جل رہاہے اس کا تیل کسی مفلس ہمسایہ سے عاریتاً لیا گیا ہے، جو کٹی پھٹی سیاہ چادر دم ِواپسیں پر جسم ِنازنین کو ڈھانپ رہی ہے اس پر کئی پیوند لگے ہیں ، رسول کائناتؐؐ کی زرہ اس وقت بھی ایک یہودی ساہوکار کے یہاں تین صاع کے عوض گرو ہے۔ یہ کیسا شاہی گھرانہ ہے کہ منبر بھی یہی ہے محراب بھی، مدرسہ بھی یہی ہے خانقاہ بھی ، عدالت بھی یہی ہے سیاست،سفارت اور فوجی مہمات کا مر کزبھی ۔ اور یہیں سے آپؐ ابدی استراحت کے لئے رخت ِ سفر باندھ رہے ہیں۔
حرم پاک میں ایک روز اتفاقاً ’’مکتبہ مسجدالحرام‘‘ کے سائن بوڑد پر نگاہ پڑی ۔ معلوم کر نے پر پتہ چلا کہ بالائی منزل میں ایک بہت ہی عالی شان لائبریری ہے۔اس کتب خانے کے دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں مگر مرد و خواتین کے لئے الگ الگ اوقات مقرر ہیں۔ اگلے روز اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ہمراہ یہاں آنے کا ارادہ کیا۔ ہم نے کتب خانے میں داخل ہونے سے پہلے اپنا نام پتہ وزٹر بک میں درج کیا ۔ اندر قدم رکھتے ہی ایک بہت ہی جاذب نظر اور وسیع کتب خانہ نے استقبال کر کے ہماری آنکھوں کو طراوت بخشی ۔ نفاست ، حسن ِترتیب اور خاموشی کے پاکیزہ ماحول میں متلاشیان ِ علم وتحقیق کئی عرب نوجوان مطالعہ کتب میں منہمک نظر آئے۔غالباًیہ نورانی چہرے والے دینی طلبہ اور محققین تھے ۔ کتب خانے میںقرآن و حدیث، فقہ، تاریخ اسلام، مسالک ِاسلام اور دیگر اہم موضوعات پر گراں قدر محققانہ کتابیں موجود ہیں۔ لگ بھگ ساری کی ساری کتابیں عربی میں ہیں جنہیں بہت ہی قرینے سے الماریوں میں رکھا گیا ہے، دُھول گردے کا یہاں نام ونشان بھی نہیں ۔ چند الماریوں پر مشتمل ایک مختصر سا گوشہ اسلامی موضوعات پر مبنی اردو ؍ انگریزی کتابوں کے لئے مختص ہے ۔ یہاں مختلف موضوعات پر زیادہ تر عبدالمالک مجاہد کی اردو کتابیں نظر آئیںجو سب کی سب دارالسلام کی دیدہ زیب مطبوعات ہیں۔ انگریزی کے علاوہ دیگر بین الاقوامی زبانوں میں تھوڑا بہت اسلامی لٹریچر کتب خانے کی زینت بنا ہوا ہے ۔ ’’مجمع شاہ فہد برائے طباعت قرآن‘‘ مد ینہ منورہ کے پرچم تلے شائع وہ تفاسیر بھی یہاں موجود پائے جو سعودی حکومت کے زیر اہتمام مصحف ِقرآن اور ان کے تراجم وتفسیری حواشی کو زیورطباعت سے آراستہ کر نے پر مامور ادارہ ہے ۔ یہ ادارہ اپنی مطبوعات مسلم دنیا میں مفت تقسیم کر رہاہے ۔ میری نگاہیں یہاں بڑے اشتیاق اور تجسس کے ساتھ مہاجر ملت میرواعظ محمد یوسف شاہ علیہ رحمہ کی کشمیری تفسیر وترجمہ’’ بیان القرآن ‘‘ ڈھونڈنے لگیں مگر تفاسیر کے شیلف کھنگالتے ہوئے’’بیان القرآن ‘‘ کاسراغ کہیں نہ ملا۔ البتہ مدینہ پاک میں روضۂ پاک بالکل سامنے ’’بیان القرآن‘‘ کا ایک نسخہ دیگر تراجم وتفاسیر کے ساتھ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ یہ عنداللہ میرواعظ مرحوم کی حسنٔ سعی کی قبولیت کا اشارہ ہے۔ ’’بیان القرآن ‘‘ اگرچہ سری نگر کے ایک ناشر علی محمد اینڈ سنز نے بہت پہلے شائع کیا ہے مگر سعودی عرب کے متذکرہ بالا ادارے نے ا س کا نیا ایڈیشن مدینہ یونیورسٹی کے تین کشمیری محققین جناب عبدا لطیف الکندی ، جناب عبدالرشیداور جناب عبدالطیف غلام کشمیری کی نظر ثانی سے منصۂ شہود پر لایا ہے ۔ چونکہ لائبر یری میں شائقین وناظرین سے کتب خانے کے تعلق سے تحریری تجاویز اور شکایات وصول کر نے کی سہولت موجودہے،اس لئے میں نے مناسب یہی سمجھا کیوں نہ متعلقہ حکام کی توجہ ’’بیان القرآن‘‘ کے نسخہ جات مکتبہ میں رکھے جانے کی التجا تحریر کروں ۔ میں نے وہاں کے ایک مخصوص چٹ پر یہ گزارش انگریزی میں قلم بند کی اور موقع پر موجود انچارج کتب خانہ کے ہاتھ میں تھمادی ۔ا نہوں نے بڑی خندہ پیشانی اور انکسار سے یہ چٹ سنبھال کر رکھا۔ مکتبہ میں کئی نادر مخطوطات شیشے کے صندوق میں موجو د ہیں جن میں غالباً مصحف عثمانیؓ کی ایک نقل بھی شامل ہے ۔
مکتبہ مسجدالحرام کی شان وشوکت اور اس کے ذخیرہ ٔ کتب کی وسعت اور جامعیت دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ علم وعرفان کا ایک بے حد وکنار سمندر ہے۔اس کی موجوںمیں غوطہ زنی کے لئے رگ وپے میں اسلامی علوم کا شوق ، ذوقِ مطالعہ اورسب سے بڑھ کر عربی زبان پر دسترس ہو تو یہ گنج ہائے گرانمایہ اس خوش نصیب کے استقبال میں ڈھکن کھولے منتظر ہیں ۔ اسلام نے علم کا حصول ایمان کا جزو لاینفک قرار دیا ہے بلکہ علم ِنافع اور عمل ِ صالح کے حسین امتزاج کانام ہی دین اسلام پڑاہے ۔ جس مومن کے دل میںعلم ِحقیقی اور معرفت کی روشنی موجزن ہو، وہاں ایمان زندہ وتابندہ ہوگا ، روشن ضمیر یاور بصیرت ہوگی، عقل وفراست کی دائمی دولت گی ، سماعت وبصارت کے دریچے کھلے ہوں گے ، صدق وصفا کی حاکمیت ہوگی ، حساسیت کا مزاج ہوگا، حق آشنائی کی طبیعت ہوگی ، ہدایت طلبی کی پیاس ہوگی ، جہل اور شرک ، بدعت،اورگناہ،تکبر اور ریاجیسی آلائشوں سے اجتناب ہوگا ۔ دنیا کو اعتراف ہے کہ قرآن ہدایت کا نقش ِ راہ ہے، یہ ذکر وفکر کا داعی ہے ، یہ اصلاح کا دستوررالعمل ہے، یہ قدم قدم پر تفکر ، تدبر ، تعقل اور مکالمت کی دعوت دینے والا صحیفۂ آسمانی ہے مگر علم ، تجسس اور ہدایت کی تشنگی اس خزانے کی شاہ کلیدہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی اولین وحی خواندگی، علم اور قلم کے اسی سہ رُخی نقطے پر مرکوزہے ۔ یہی سورہ العلق کا مفہوم ہے ۔ سورۂ فاطر میں فرمایا گیا : اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں(آیت۲۸)۔ سورہ ٔ الزمر میں استفہامیہ انداز میں ارشاد باری ہے : بھلا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں ۔( آیت ۹) سورۂ المجادلہ میں فرمان ِخداوندی ہے : اللہ تم میں سے ایمان والوں کے درجے اور ان لوگوں کے جنہیں علم دیا گیا، درجے بلند فرمائے گا ۔( آیت ۱۱)۔ سورہ طہٰ میں دعا سکھائی گئی ہے: اے میرے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر ( آیت ۱۱۴)۔ حضرت معاذ بن جبل رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : علم حاصل کرو کیونکہ اللہ کی خوشنودی کے لئے تعلیم لازم وملزوم ہے،علم کی طلب عبادت ہے ، علم کی تلاش جہاد ہے ، بے علموں کو علم سکھانا صدقہ ہے ، علم حلال وحرام کا نشان ہے ، جنت کے راستوں پر روشنی کا ستون ہے ، راحت ومصیبت کا بتانے والا ہتھیار ہے ، دوستوں میں زینت ہے۔ علم والے کی مغفرت کے لئے ہر شئے حتیٰ کہ پانی کی مچھلیاں، زمین کے کیڑے مکوڑے اور خشکی کے درندے اور چرندے بھی دعا کر تے ہیں، علم کے ذریعے مر تبہ بلند ہوتا ہے( جامع بیان العلم ۔۔۔ ابن عبدالبرؒ) محمد عربی ؐ نے اپنی بعثت کا مقصد بھی معلمی قرارد یاہے ۔ علم ومعرفت کی روشنی میں سیرت مقدسہؐ کا مطالعہ کیجئے تو پاک زندگی کے ایک ایک مرحلے پر آپ ؐ کی علم پروری ، علماء کی قدردانی، مسلم معاشرے میںخواندگی بڑھانے کی تیر بہدف کاوشیں نظر آئیں گی ۔ غزوہ ٔ بدر میں جب اسلام اور کفر کی کشمکش ایک خون آشام محاربے کی صورت اختیار کر گئی ، مکہ کے کفار نے نو زائدہ مسلم ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے خلاف مدینے کی فوج کشی کی ۔ ح حق وباطل کا ایک فیصلہ کن معرکہ ہو اجس میں نہ صرف کفار کے بڑے بڑے سردار کام آگئے بلکہ بعض مکی کافر وںکولشکر اسلام نے قید ی بھی بنالیا ۔ زمانے کی روایت کے مطابق قید وبندسے رہائی کے عوض فدیہ اداکر کے آزادی پائی جاسکتی تھی ۔البتہ تاریخ میں پہلی بار نقد تاوان کے بجائے تعلیم یافتہ قیدیوں کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ چاہیں تو اسارت سے آزاد ہونے کے لئے انصار ِ مدینہ کے دس دس بچوں کے لئے اپنی تعلیمی وتدریسی خدمات انجام د یں ۔ اس اہم واقعہ پر سرسری نگاہ ڈال کر آگے نہ بڑھیں بلکہ ذر اسا غور وفکر کریں کہ جب مکہ کے قیدیوں کا مدینہ کی نوخیز کلیوں کی وساطت سے تعلیم وتعلم کا رشتہ استوار ہو ا تو انہوں نے جہاں دشمن کے بچوں کو پڑھنا لکھناسکھایا ہوگا، وہیں خود انہیں اسلامی معاشرت کے دل موہ لینے والے حرکات وسکنات کا قریب سے جائزہ لینے اور اخلاقیات سے متاثر ہونے کا موقع مل چکا ہو گا ۔ یہ ایک طرح سے دعوتِ دین کا بھی موثر وسیلہ تھا ۔
) بقیہ اگلے جمعہ کو ملاحظہ فرمائیں۔ ان شاء اللہ(