Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!قسط 65

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: June 9, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
19 Min Read
SHARE
  سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم حیاتِ طیبہ کے اُس پڑاؤ پر ہیں جہاں سے بالخصوص انبیائی شخصیات کا سن ِکمال شروع ہوتا ۔ ا ن میں اوصافِ ِحمیدہ مہ نیم روز کی طرح جلوتیںدکھانا شروع کرتے ہیں اور ظاہری حسن، باطنی وجاہت، فہم وفراست ،بالغ نظری، اخلاقِ فاضلہ، جذبات پر قابو ، خوب وناخوب کی پہچان ، دنیا کی بے ثباتی کا احساس ، اللہ سے لو لگانا ان کی فطرت ثانیہ بنتی ہے ۔انہی اوصاف کی تاثیرسے وہ ایک ہمہ گیر انقلاب بپاکر تے ہیں کہ تاریخ کا رُخ بدل جاتا، انسا نی زندگیوں کی کایا پلٹ ہوجاتی ہیں، بگڑی تقدیریں سنور جاتی ہیں ، زمانے کے رنگ ڈھنگ اُلٹ جاتے ہیں ، تہذیبوں کا بگاڑ کافور ہوجاتاہے،انسانیت کو حیاتِ نو مل جاتی ہے۔ ان کے دم قدم سے معاشرت ومعیشت،سیاست واخلاقیات، شجاعت و عدالت کا د ستور آسمانی ہدایت کے زیر سایہ ترتیب پائے تو ایک نیا انسان اور ایک نئی دنیا ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ سنت ِالہٰیہ کے مطابق ہر نبی مرسل ؑ کی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوتی رہی۔خدائے واحد نے شہنشاہِ کائنات صلی ا للہ علیہ وسلم کو عہد طفولیت سے ورودِ حرا تک قدم قدم انگلی پکڑ کر شاہراہِ حیات پر گامزن رکھا کہ نہ صرف آپؐ معصوم عن الخطاء ر ہے بلکہ واضح ہوا کہ اللہ کا محبوب پیغمبرؐ دنیوی اسباب ، مادی وسائل ، رشتہ و پیوندکا محتاج ہیں ہی نہیں۔ خدائی مشیت کے تحت تین سال تک آپؐ نے غار ِحرا میں چلہ کشی کر تے ہیں ، جب آپؐ  قمری حساب سے چالیس سال چھ ماہ بارہ دن (شمسی حساب سے اُنتالیس سال تین ماہ اور بائیس دن)کی سن مبارک پر پہنچتے ہیں تو مقام ِنبوت کی خلعت فاخرہ سے سرفرازکئے جاتے ہیں ۔ عرش وفرش کا مالک آپ ؐ کو بڑی محبتوں اور ناز ونعم سے نبوت کی پہلی سیڑھی رویائے صادقہ یعنی سچے خوابوں دکھاکے چڑھاتے ہیں ۔ آپ ؐ جو خواب رات کو دیکھتے ہیں، دن کے اُجالے میں اُس کی ہوبہو تصویر سامنے رقصاں پاتے ہیں۔ سچے خواب کو از روئے حدیث نبوت کا چھیالیسواں حصہ قراردیا گیاہے ۔ رُویائے صحیحہ کا یہ سلسلہ چھ ماہ تک چلتا ہے جس سے آپ ؐ کی پیغمبرانہ سیرت اورروحانی استعداد میں اضافہ دراضافہ ہوتا جارہاہے۔ حرا کا طویل چلہ اس استعداد کو مزید تقویت پہنچاتا جاتاہے۔
 محققین ِاسلام کہتے ہیں کہ آپ ؐ حرامیں مشغولِ استغراق وعبادت ہے اوریہ صیام کا اکیسواں دن( لیلتہ القدر) دوشنبہ ( ۱۰؍ اگست ۶۱۰ء) کی تاریخ ہے کہ یکایک رات میں اللہ کا معزز ومکرم قاصدفرشتہ جبرئیل امین علیہ السلام ( حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے الفاظ میں’’ حق‘‘ ) آپ ؐ کے سامنے دربارِ الہیٰ سے وحی ٔاول کی صورت میں فیضان ِ رحمت کی خوشبوئیں لئے جلوہ گر ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے اس اہم ترین واقعہ سے روئے زمین کی تقدیر یکسر بدل جاتی ہے ، دلوں کی شقاوتیں ہدایات ِو حی کی سعادتوںسے مات کھاجاتی ہیں ، تاریکیوں کا غلبہ نور کی جلوتوں سے ناپید ہوجاتاہے ، رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتاہے،حق بالادست ناحق بے دست وپا ہوجاتاہے ۔اس عظیم الشان واقعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ اللہ کی نگاہ ِ التفات انسانی دنیا کی تعمیر نو پر مر کوز ہے ۔ تعمیرت کے اس تاریخ ساز کام کو سر انجام دینے کا سہرا نبی ؐ آخرالزماں صلی ا للہ علیہ و سلم کی نبوت ورسالت کے سر بندھ جاتا ہے۔ عرش معلی کا فرستادہ جبرئیل ؑ حرا کی شہادت گہۂ اُلفت میں ادب واحترام کے ساتھ پیغمبراُمی ؐ کے روبرو دست بستہ کھڑے ہیں ۔آپ ؐ سے عرض کرتے ہیں پڑھئے۔ آپؐ بہ قائمی حواس فرماتے ہیں میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتہ آپؐ کا وجودِ مسعود پکڑ کر اتنا بھینچ لیتا ہے کہ نبی ٔ کائنات کی قوت ِبرداشت جواب دیتی ہے اور چھوڑ دیتے ہیں ، دوبارہ عرض گزار ہوتے ہیں پڑھئے ۔ آپ ؐ دہراتے ہیں میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرئیل ؑ آپ ؐ کو بھینچ لینے کا اعادہ کرتے ہیں ۔ تین بار اس عمل سے گزارنے کے بعد اب جبرئیل ؑسورہ العلق کی ابتدائی پانچ آیات پیش فرماتے ہیں اورآپ ؐ ان کا ورد کرتے ہیں: پڑھئے ( اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے ایک انسان کی تخلیق کی۔ پڑھئے ،اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا نہ تھا( سورہ العلق)۔ اس سلسلے میںحضرت شاہ عبدالقاد رؒ’’ موضح القرآن‘‘ میں نکتہ دانی کر کے لکھتے ہیں :اول جبرئیل ؑ وحی لائے تو یہی پانچ آیتیں، حضرت( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کبھی پڑھا لکھا نہ تھا،اس لئے (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کہ قلم سے بھی علم وہی( اللہ ) دیتا ہے،یوں بھی( اللہ بغیرکسی ظاہری وسیلے وہبی طور پر علم) دے گا۔   
  حرا میںسرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا شرفِ دیدار جبرئیل ؑ کو حاصل ہوجاتاہے، پہلی بار اُن سے ملاقی ہوکر آپ ؐ بار گاہ ِ الہٰی سے وحی کی پہلی قسط وصولتے ہیں۔ ان آیاتِ بینات کو دہراتے ہیں کہ یہ آپؐ کے ذہن نشین ہوجاتی ہیں ۔ اس غیر متوقع اور آنکھیں حیرہ کر نے والے پہلے روحانی تجربے کی شدت سے آپ ؐ کانپ اٹھتے ہیں، دل مبارک دھک دھک کرتاہے ، خدشات کا اژدھام، فکروں کا ہجوم، اندیشوں کا گھیراؤ ہے ، آپ ؐفوراً اپنی ہمراز ودمساز حضرت خدیجہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کے یہاں تیز قدموں سے پہنچ جاتے ہیں،کانپتے لرزتے اُن سے فرماتے ہیں: مجھ کو کپڑا اُڑھاؤ، مجھ کو کپڑا اُڑھاؤ۔ یہ خلاف ِ معمول منظر آپ ؐ کی خوف زدگی کا مظہر ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ اپنے سرتاج کے حکم کی تعمیل فرما کر آپ ؐ کو کپڑے سے ڈھانپتی ہیں۔ کچھ توقف کے بعد جب آپ ؐ کا سکونِ قلب لوٹ آتا ہے تو فرماتے ہیں :اے خدیجہ ؓ! یہ مجھے کیا ہوگیا ہے ؟ معاً بعد آپ ؐ حرا کی ساری سرگزشت اپنی شریک حیات کو سنا کر فرماتے ہیں : مجھے جان کا خوف ہے( یعنی میں شاید وحی کے بار کو برداشت نہ کرسکوں )۔ حضرت خدیجہ ؓ جب پیش آمدہ  واقعہ بہ ہوش وگوش سماعت فرماتی ہیں تو آپؐ کو تسکین و اطمینان دلاتے ہوئے آپ ؐ کے بلند کردار اوراعلیٰ پایہ سیرت کانچوڑ الفاظ میں ڈھالتی ہیں : قسم بخدا! آپ ؐ خوش ہوجایئے، خدا آپ ؐ کو ہرگز( خاکم بدہن ) رُسوا نہ کرے گا، آپ ؐ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، (ایک روایت میں ہے امانتیں ادا کر تے ہیں ) ،بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کر تے ہیں ، نادار لوگوں کو کماکر دیتے ہیں ، مہمان نواز ہیں ، بے چاروں کی چارہ گری کر تے ہیں، اور حق رسی کی کڑی سے کڑی مصیبت میں مددگار بنتے ہیں اور نیک کاموں میں اعانت کار ہیں۔۔۔ اُم المومنین ؐ بالمعنیٰ فرماتی ہیں کہ اللہ آپ ؐ کے اعلیٰ وبالا  اوصاف کے پیش نظر تحفظ و تکریم دے گا ۔ اپنی زبانی قبل از بعثت سیرت پاک کا یہ مختصر سا خاکہ کھینچ کر حضرت خدیجہ ؓ نبی ٔ رحمت کی ڈھارس ہی نہیں بندھاتیں ،نہ آپ ؐ کے صدق وصفا اور اخلاق کریمانہ کی تعریفوںمیںرطب اللسان ہوکر خاطر جمع رکھنے کی گزارش ہی کرتی ہیں بلکہ وہ آپ ؐ کو انسانیت کی واحد امید گردانتی ہیں ۔ یہاں نوٹ کیجئے کہ تسلی وطمانیت سے بھرے لفظوں میں دور دور بھی یہ اشارہ نہیں پایا جاتا کہ آپؐ نبوت کے منصب عالیہ پر فائز ہیں ۔ یہ راز واسرار کھولنے کے لئے تاریخ ایک اور شخصیت کو چن لیتی ہے ۔ یہ درویش صفت شخص اُم المومنینؓ کے چچازاد بھائی صفت ورقہ بن نوفل ہیں جو بت پرستی کوچھوڑ کر عیسائیت قبول کر چکا ہے، انجیل کا جید عالم ہے ، عمر انجیل قلم بند کر نے میں گزری ہے ، عربی کے علاوہ عبرانی پر دسترس رکھتا ہے ، سن خوردہ اورنابینا ضرورہے مگر نبی  ٔمعہود کے وردوِ مسعود کا دل کی آنکھوں سے منتظر ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ آقائے دوجہان  ؐ کو ورقہ کے پاس لے کر فرماتی ہیں: بھائی جان ذرا اپنے بھتیجے کا قصہ سنئے ۔رسولِ انور ؐ ورقہ کوغار حرا کے ساراماجرا سناتے ہیں ۔ ورقہ بلا تامل پیغمبر اعظم وآخر ؐ سے کہتا ہے: یہ وہی ناموس ِاکبر ( اللہ کا مقرب وحی بردارفرشتہ جبرئیل ؑ) ہے جو اللہ نے حضرت موسیٰ  ؑپر نازل فرمایا تھا۔ کاش کہ میں آپ ؐ کے زمانہ ٔ نبوت میں قوی وجو ان ہوتا ! کاش میں اُس وقت تک زندہ رہوں جب آپؐ کی قوم آپ ؐ کو وطن (مکہ) سے نکالے گی! آپؐ نے متعجب ہوکرسوال کیا : کیا میری قومؐ مجھے وطن سے بے وطن کر ے گی۔ ورقہ نے جواب دیا: ہاں ، بے شک اور جس پیغام کے لئے اللہ نے آپ ؐ کو رسول بناکر بھیجا ہے،اس خدمت پر جو بھی مامور ہو ا، کبھی ایسا نہ ہو اکہ ا س کے ساتھ دشمنی نہ کی گئی ہو ، اس کے ساتھ یہ صورت پیش نہ آئی ہو۔ پس اگر میں نے وہ وقت پایا تو میںپوری قوت کے ساتھ آپ ؐکی حمایت میں پیش پیش رہوں گا ۔ زیادہ مدت نہ گزری کہ ورقہ چل بسا۔
  حضرت خدیجہ ؓ آپ ؐ کے غیرمعمولی صفات وکمالات اور عظمت کا اعتراف سے آپ ؐ کو دلاسہ ملا مگر ورقہ نے غارِ حراکے تجربے سے بھانپ لیا کہ یہ آپ ؐ کے لئے منصب ِنبوت ورسالت کی بشارت ہے۔تاریخ کے اوراق میں یہ گفتگوئیں درج ہیں ۔پہلی گفتگو ازدواجی زندگی کے دوران آپ ؐ کے بارے میں اُم المومنین کے روح پرور مشاہدات کا احاطہ کر تی ہے ، دوسراتبصرہ ایک عیسائی عالم کے علم ومعرفت اور پیش بینی کی آئینہ داری کرتاہے مگر بین السطور ان سے ایک ہی مشترکہ گواہی جھلکتی ہے کہ فرش ِزمین پر چھائی ہمہ جہت گھٹاٹوپ ظلمتوں میں انسانیت کے لئے اگر کوئی اُمید کی کرن باقی ہیں تو وہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِاقدس ہیں ۔
 ٰ ابن جریر طبریؒ اپنی سندسے عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمد وحی کے بارے میں فرمایا: حضرت جبرئیل امین ؑمیرے پاس (غارحرا میں) تشریف لائے جب میں محو استراحت تھا۔ دیبا کا ایک کپڑا لے کر آئے جس میں ایک کتاب تھی۔ انہوں نے مجھ سے کہو پڑھو! میں نے کہامیں نہیں پڑھتا،توا نہوں نے مجھے زورسے بھینچایہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ میرادمِ واپسیں آگیا۔ پھر انہوں نے مجھے چھوڑدیا اور کہا:پڑھو! میں نے کہا ،کیا پڑھوں؟ یہ میں نے اس لئے کہا تاکہ فرشہ مجھے دوبارہ اس طرح نہ بھینچے جس طرح اس نے مجھے پہلے بھینچا تھا، تو فرشتے نہ کہااقراء ۔۔۔ مایعلم(پانچ آیات)۔ میں نے ان آیات کو پڑھ لیا۔اس کے بعد وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور میں ا پنی نیند سے بیدار ہوگیا۔ میں نے ایسا محسوس کیا گویاانہوںنے میرے دل میں ایک کتاب لکھ دی ہے۔ اللہ کی مخلوق میں مجھے سب سے زیادہ نفرت شاعر اور مجنون سے تھی،میں انہیں دیکھنے کی تاب بھی نہ لاسکتا تھا۔ میں نے کہا کہ قریش کے لوگ میرے بارے میں یہ چرچا کریں کہ میں شاعریا مجنون ہوں، یہ میں  برداشت نہیں کرسکتا۔ میں کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ جاؤں گااور وہاں سے خود کو گراکر اپنا کام تمام کر دوں گااور اس طرح سے میں مصیبت اور نجات سے راحت پالوں گا۔ میں اس ارادے سے نکلا، یہاں تک کہ جب میں پہاڑ کے درمیان تھا تو میں نے آسمان سے ایک آواز سنی: اے محمدؐ! تم اللہ کے رسولؐ ہو، اور میں جبرئیل ؑہوں۔ میں نے سر اٹھاکر دیکھا تو نظرآیا کہ جبرئیل ؑ ایک آدمی کی صورت میں آسمان کے اُفق میں قدم جمائے کھڑے ہیںاور کہہ رہے ہیں: آپ ؐ اللہ کے رسول ؐ ہیںاور میں جبرئیل ؑ ہوں۔ میں ٹھہر کر انہیں دیکھنے لگا اور جس ارادے سے آیا تھا، اس کے بجائے میں انہیں دیکھنے میں منہمک ہوگیا۔ میں نہ تو آگے بڑھ رہاتھااور نہ پیچھے لوٹ رہاتھا، البتہ اپنا چہرہ آسمان کے اُفق میں گھما رہاتھا اور جس کسی گوشے پر نظر پڑتی تھی جبرئیل اسی سمت میں نظر آتے تھے ، یہاں تک کہ خدیجہؓ نے میری تلاش میں قاصد بھیجے۔ وہ مکہ اُن کے پاس واپس پہنچ بھی گئے مگرمیں اپنی جگہ کھڑا رہا۔پھر جبرئیل ؑ واپس گئے اور میں اپنے گھروالوں کے پاس گیا ۔ خدیجہ ؓ کے پاس پہنچ کر ان کی ران پر ٹیک لگا کر نشست کی۔انہوں نے کمال مہربانی سے سوال کیا : اے ابولقاسم! آپ کہاں تھے؟ بخدا میں نے آپ ؐ کی تلا ش میں آدمی بھیجے اور وہ مکہ تک جاکرواپس بھی آگئے۔میں نے جو کچھ دیکھا تھا حضرت خدیجہ ؓکو سارابتلادیا۔ انہوں نے کہا: چچیرے بھائی ! آپ خوش ہوجایئے اور آپ ؐ ثابت قدم رہیے۔اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میںا مید کرتی ہوں کہ آپؐ اس اُمت کے نبی ہوں گے۔
 پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ وسلم کو غار حرا کے اس عظیم الشان واقعہ سے اپنی جان کا خوف کیوں لاحق ہو ا؟ مستشرقین نے جہاں اس سادہ سی بشری خصوصیت پر ظن وتخمین اور تعصب وکورنگاہی کاخناس ذہنوں میں جمع کیا، وہاں علمائے اسلام نے اس حقیقت کی توضیح وتشریح کرکے حقائق کا پردہ چاک کیا ۔ مشتے نمونے ازخروارے یہاں حکیم اُلامۃ شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کی معرکتہ الارء تصنیف ’’حجتہ اللہ بالغہ‘‘ کا یہ اقتباس پیش خدمت ہے ۔آپ ؒ فرماتے ہیں : پھر آپ ؐ پر غار ِ حرا میںحق ( وحی) کا نزول ہوا، جب فرشتہ اور آپ ؐ کے درمیان سلسلہ ٔ  کلام ختم ہوگیا توآپ ؐ پرایک خاص کیفیت طاری ہوئی جس کو ہم پنی زبان میں’’تشویش واضطراب ‘‘ سے تعبیر کر تے ہیں اور حقیقت میں یہ ایک نفسیاتی کیفیت تھی جس کاپیش آنا فطری تھا،اس لئے کہ جب نزول کی وجہ سے آپ ؐ کے بشری قویٰ پر ملکوتی صفات نے اثر کیا تو دومتضاد قوتوں کے درمیان تصادم ا ور پھر ملکوتی قوت کے غلبہ کی وجہ سے آپ ؐ کے ا ندتشویش پیدا ہوجانا یقینی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتداء نزول وحی کے بعد کچھ مدت تک وحی کاسلسلہ منقطع رہا کیونکہ انسان بشریت وملکوتیت دوجہات کے درمیان محصور ہے ، پس جس ہستی کی بشریت پر ملکوتی صفات غالب آکر اُس کو ظلمتوں سے نور کی جانب لیتی ہیں تو جس قوت کے ساتھ یہ غلبہ اپنا اثر کرتاہے ، انسان اپنے اندر اسی شدت کے ساتھ بشریت وملکیت کے درمیان تصادم اور تزاحم محسوس کرتاہے اور شدتِ تصادم کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ملکوتی قوت واستعداد کو اس درجہ کمال ومکمل کردے جو منصب ِنبوت ورسالت کے لئے ضروری ہے‘‘۔
( بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں، اِن شاء ا للہ)
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ہندوستان نے ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے امریکی فیصلے کا کیا خیر مقدم
برصغیر
امریکہ نے پہلگام حملے کے ذمہ دار ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا
برصغیر
مینڈھر پونچھ میں شدید بارشیں ،متعدد مکانات کانقصان
پیر پنچال
قاضی گنڈ میں ڈکیتی کی کوشش ناکام، مزاحمت پر نوجوان جاں بحق، ایک ملزم گرفتار
تازہ ترین

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 17, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?