شو ق کا پنچھی غارِحرا کی زیارت سے فیض یاب ہو تارہا مگر سیر ہی نہیں ہورہاتھا ،چاہتا یہ تھا کہ جبل ِنور کی تابانیوں کو صدیوں گھورتا رہے، پاک ومطہر بہاروںکو اپنی آنکھوں کے ہیے میںہمیشہ ہمیش کے لئے بساتارہے ، پاکیزہ فضاؤں کو اپنے حریم ِقلب میں اُتارتا رہے ۔جبل ِنور ہر روز ہزاروں زائرین کا استقبال کرتا ہے ،کوئی کوئی حرا کے اندر جاکر جلوہ گاہ ِ وحی کی عطر بیز جا ئے نماز پر سجدہ ریز ہے، کوئی دعاؤں میں مشغول ہے ، کوئی شوق ِ دیدار کا ہدیہ گرم گرم آنسوبہاکر نقد ِدل لٹا ئے، کوئی کپکپاتے ہونٹوں اور تھرتھراتے بدن سے عقیدتوں کا خراج پیش کرے۔ میں اورمیری اہلیہ بھی دامنِ کوہ ایستادہ ہوکر غار کی کشش و جاذبیت میں تا دیر کھو گئے۔ کیا پتہ ہمارے شانہ بشانہ کھڑے زائرین کے دلوں میں کتنے اَرمان تھے ، کتنی تمنائیں تھیں، کتنی امنگیں تھیں جو غار ِحرا میں ایک بارداخل ہوکر ربِ جلیل وجمیل کے حضور پیش کر نے تڑپ رہی تھیں ۔ایک زائر نے حسرت بھرے انداز میں مجھ سے کہا کاش مقدس غار تک جانے کے لئے سیڑھیاں ہوتیں۔ میں نے کہا سیڑھیوں سے بھی زیادہ آرام دہ گنڈولا رہتا لیکن اللہ کا منشاء یہی ہے کہ جبل نور ہمیشہ من وعن اسی حالت میں رہے جس حالت میں اس پہاڑ کے پیچ وخم نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا۔ میری ا ہلیہ اس سوچ میں پڑگئیں کہ آج ہم دامن ِ کوہ سے ہی اپنی عقیدت و محبت کی سوغاتیں پیش کر رہے ہیں مگر اُمت کی پیاری اَماں بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کس طرح پا پیادہ اس پہاڑ پر چڑھ کر اپنے سرتاج صلی ا للہ علیہ وسلم کے لئے آب وخور اک انتظام کرتی رہیں ہوں گی۔ میں نے کہا اُم المومنین ؓکے ایثار ومحبت کی چہک اور صدق و وفا کی مہک ان پہاڑی چوٹیوں اور پتھروں سے آج بھی آرہی ہے۔ میرا دامن ِخیال اس نقطے پر مر کوز ہو اکہ کیا عالم انسانیت آپ ؐ کے اسی ایک احسان کا بدلہ چکا سکتی ہے کہ حرا سے اُتر کر جو نسخہ ٔ کیمیاء آپ ؐنے قوم وملت کے سامنے رکھا اس سے لوگوں کو ظلمت ِجہل سے نجات ملی اور ان کاکلمہ ٔ وحدت سے الحاقِ ابدی ہوا ۔ آپ ؐ نے فرمایا:’’ میں معلم بناکر مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔ بالفاظ دیگر آپؐ علم کے نور سے مزئین ہو کرمعارف کا اُجالا کر نے منصب ِرسالت پر فائز ہوئے۔ آپ ؐ سرورکائنات ہیں، آقائے دوجہاں ہیں ، کون ومکان کے شہنشاہ ہیں مگر جب حرا سے مکہ لوٹے تو یہ نہ فرمایا لوگو! آج سے میں تمہارا بادشاہ ہوں ، فرماں روا ہوں ، آقاہوں، سر براہِ حکومت ہوں، تم میری ر عیت ہو ، میرے غلام ہو، میری زر خرید ہو ۔ حاشاء اللہ، فرمایا میں اللہ کا نبی ہوں، اس کا فرستادہ ہوں ، ہادی ہوں، معلم ہوں، مزکی ہوں، مربی ہوں، خادم ہوں، داعی الیٰ اللہ ہوں، امام ہوں اور تم میری اُمت ہو۔ نبی ٔ معلم ؐ کی حیثیت سے تئیس سال تک مسلسل اللہ تعالیٰ آپ ؐ تمام علوم و معارف سے بوساطت ِوحی مطلع ہوتے رہے کہ آسمان کی چھت کے نیچے سطح ِزمین پر آپ ؐ سے قبل کیا کچھ ہوا ، اب کیا کچھ ہورہاہے، آگے کیا کچھ ہوگا، اللہ اپنی قدرت کے عجائب وغرائب کا علم آپ ؐ کی ذاتِ اقدس پر نچھاور کرتارہا، اپنی بارگاہ ِ الوہیت اور دربارِبوبیت کے نور سے آپ ؐ کو بہرہ ور فرماتا رہا ۔نبی ٔ اُمیؐ کے دائرہ معلومات میں اولین وآخرین آتے رہے ۔ ارشاد باری ہے’’ اے محبوب ! ہم نے آپ کو سکھادیاوہ سب جو تم نہ جانتے تھے اور تم پرا للہ کا فضل عظیم ہے۔‘‘ آج بھی آپ ؐ کے عالمانہ فضل وکمال کا احاطہ کر نے سے عقلیں قاصر اور تعریف وتوصیف کے بیان سے زبانیں گونگی ہیں، جب کہ الفاظ تنگ دامن ہیں اور معانیوںتک کامل رسائی ناممکن ہے۔
بھلے ہی آج نابینا مغرب اور مشرق میں اس کے دُ م چھلے اور چیلے اُمت مسلمہ کو جہل ِمرکب کا رسیا ، ناخواندگی کی پروردہ، معارف دشمنی میں آگے ، تحقیقی وتخلیقی صلاحیتوںسے عاری انبوہ ِ آدم کے طور پیش کریں مگر قرآن کریم علم و معرفت کی شہکار خدائی کتاب ہونے کی حیثیت سے جگہ جگہ تعلیم وتعلم، تفکر، تعقل ، تدبر اورفہم وادرا ک کو ایمان کی شاہ کلید بتا نے والا صحیفہ ٔ آسمانی ہے۔ مثلاً ملاحطہ فرمائیں : (۱) آپ کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو ( کچھ بھی ) نہیں جانتے برا بر ہوسکتے ہیں ۔ نصیحت تو وہی حاصل کر تے ہیں جو سمجھ دار ہیں ( الزمر۔ ۹ )
(۲)اللہ تم میں سے ان لوگوں کے درجات بلند کر ے گا جو ایمان لائے اور جن کو علم عطا کیا گیا اور اللہ کو تمہارے اعمال کی ( پوری ) خبر ہے ( المجادلہ ۔۱۱)
علم کی عظمت پر قرآن ہی گواہ نہیں بلکہ جابجا حدیث میں علوم کے حصول کی ترغیب وتحریص دلائی گئی ہے۔ مثلاً: علم کی تلاش کرو ہر مسلمان عورت ، مرد پر فرض ہے ( ابن ماجہ ، دارمی) جو شخص طلب علم کے لئے سفر اختیار کر ے تو اللہ اسے بہشت کی راہ پر چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی رضا مندی کے لئے اپنے پروں کے سائے اس پر ڈالتے ہیں اور عالم کے لئے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے ،استغفار کرتی ہے، مچھلیاں پانی کے اندر سے مغفرت کی دعا کر تی ہیں ۔ ( احمد ، ترمذی ، ابوداؤد، دامی ،ابن ماجہ)
عالم کی فضیلت ایک عابد پر ایسی ہے جیسی کہ چودھو یں رات کے چاند کو ستاروں پر فضیلت ہے ( مشکوٰۃ)
عالم پیغمبروں ؑ کے وارث اور جانشین ہیں۔انبیاء ؑ کا ورثہ روپیہ پیسہ نہیں بلکہ علم ہے جس کا وارث عالم کو بنایا ہے۔ پس جس شخص نے علم حاصل کیا اس نے دین کا کامل حصہ پایا ( احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابوداؤد، دارمی) جو طلب علم میں نکلا وہ واپس ہونے تک جہاد میں ہے ( بخاری ، مسلم) جس نے طلب علم کیا ہواُس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوگیا (ترمذی ، دارمی) علم سکھاؤاور نرمی کرو، خوش خبری دو نفرت نہ دلاؤ، غصہ آئے تو سکوت اختیار کرو( مشکوٰۃ) جس شخص کو اس حال میں موت آئے کہ وہ ا س غرض سے علم حاصل کر رہا ہوکہ اس سے ا سلام کو تازہ زندگی بخشے تواس کے اور انبیاء ؑ کے درمیان جنت میںصرف ایک درجہ کا فرق ہوگا (ترمذی ،مشکوٰۃ) علم کے اندر زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے ( مشکوٰۃ ) دنیا ملعون ہے،اور ہر چیزاس میں ملعون ہے سوائے ذکر الہیٰ کے یاجواس کے قریب ہو، یامعلم ہو یا طالب علم ہو۔ (ترمذی ، ابن ماجہ ) علم ہرگز ایک دوسرے سے چھپا نے کی کوشش نہ کروکیونکہ خیانت ِعلم، خیانت ِمال سے زیادہ عظیم تر جرم اور گناہ ہے (احمد ، ترمذی ، ابن داؤد ، دارمی)۔ علماء کی تعظیم کرو کہ وہ انبیاء ؑ کے وارث ہیںاور جس نے اُن کی تعظیم کی وتکریم کی اس نے گویا اللہ اور اس کے رسول ؐ کی عزت کی ( احمد، ترمذی ،ا بوداؤد،دارمی) دو افراد پر رشک کرنا دُرست ہے :ایک تو اس شخص پر جسے اللہ نے مال دیا اور اسے راہ ِ حق میں خرچ کر نے کی تو فیق دی، دوسر اوہ شخص جسے خدا نے حکمت دی اور وہ اس حکمت کے موافق فیصلے کرتاہے اور اس کی تدریس کر تاہے ( بخاری ومسلم )
قرآن واحادیث کے یہ حوالے صاف طور پر بتاتے ہیں کہ حرا کی خلوت گاہ سے جس صدائے اقراء سے نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا آغاز ہوا، اس میںسرا سر ترویجِ علم کارازاور ترقی ٔفہم کا پیغام چھپا ہے، اس سے احساس کے بند کواڑ کھلتے ہیں ،اس سے آزادیٔ ضمیر کی شاہراہ کھل جاتی ہے ،یہ الہٰی پیغام راہ بھی ہے، منزل بھی ہے راہبر بھی ہے ، ا س میں کوئی جھول نہیں ، کوئی ذہول نہیں ، کوئی نسیاں نہیں، کوئی خطا نہیں، کوئی اشتباہ نہیں، کوئی ہیر پھیر نہیں، کوئی سینہ بہ سینہ راز نہیں، بلکہ یہ ببانگ ِ دہل حقائق ومعارف کی گرہ کشائی علم کی روشنی میں کر کے بندے کو سیدھے اللہ سے ملاتا ہے ۔ یہی و جہ ہے کہ مکہ کے جاہلی سماج نے قرآن کی ابتدائی دعوت کے ابھی چند ہی کلمات سماعت کئے تھے کہ اسے بہ ہوش و گوش اندازہ ہو اکہ اسلام محض عقیدے کی تبدیلی اور طریقِ عبادت میں تغیر کانام نہیں بلکہ اس کی زد میں آ کرجاہلی تہذیب کا سارا محل پاش پاش ہوتاہے ، جہالت پر مبنی نظامِ زندگی خاک آلودہ ہوتا ہے ، ناخوا ندگی کی شہ رَگ کٹ جاتی ہے ، توہمات کا جنازہ اٹھتا ہے، شرکیات وبدعات کا قلع قمع ہوتاہے ، اور علم حقیقی کی اساس پر ایک نئی تہذیب کی تعمیر آگہی ، بصیرت ،بصارت اور عرفان کے اینٹ گارے پر اُٹھتی ہے۔ اس امرواقع کا فہم و ادراک کر کے جہالت کے پرستار چیخ اُٹھے، لاعلمیت کے کارندے خشم گیں ہوئے، نفسانیت کے غلام لال پیلے پڑگئے، مخالفت کی آندھیاں اُٹھیں ، فتنوں کے طوفان بپا ہوئے ، سار ے عرب کی جہالت علم وآگہی کی اس خوشبودار تحریک پر پل پڑنے کے لئے مجتمع ہوگئی مگر آپ ؐ نے روشنیوں کا سفرعزیمت علم کی قندیلیں تھام کرسختیاں ، دباؤ ، زیادتیاںاور مظالم کے علی ا لرغم برا بر جاری رکھا او ر پیغمبرانہ عزم کے ساتھ جبل نور کی طرح اپنے پاک مشن پر جمے رہے تا وقتیکہ جہالت وجاہلیت کا سارا کر وفر ٹوٹ گیا،ا س کے غرور وتکبر کا باطل پرچم اپنے اآپ سرنگوں ہوا، علوم ومعارف کا پھریرا سرزمین عرب میں سر بلند ہوا ۔
قرآن کی گواہی ہے کہ نبیوں کو علم وبصائر اللہ کی درس گاہ سے بشکل وحی والہام موصول ہوتے جونہی اللہ انہیں نبوت کے منصب پر مبعوث فر ماتا ۔ اس منصب کے حصول کے لئے وہ کسی ادارے میں کوئی پیشگی درخواست نہیں دیتے ، کسی مقتدر شخص سے اپیل نہیں کرتے ، کسی دنیوی تربیت گاہ یا مدرسے میں داخلہ نہیں لیتے، حتیٰ کہ اللہ سے کوئی دعا ومناجات بھی نہیں کر تے، نہ کوئی آززو یا تمنا کر تے، یعنی اپنے عطائی منصب کے لئے اللہ انہیں ایسے کسی بھی مادی وسیلے کا رہین ِ منت نہیں بناتا جو دیگر بندگان ِ خدا (غیر نبی) کسی چیز کے حصول کے لئے لازماً اختیار کر تے ہیں ۔ نبوت کا مقامِ برتر اورمرتبۂ بلند تر ان پاک نفوس کو صرف اور صرف اللہ کی مرضی سے یک بہ یک مل جاتا۔ دوسرے لفظوں میںنبوت کسبی نہیں بلکہ وہبی معاملہ ہوتا۔ قرآن مجید میں بھی ہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنا پیغمبر کس کو بنائے۔ نبوت ورسالت کے مقام پر فائز ہو کر انبیائے کرام ؑ کا علم بھی معجزہ ہوتا ہے، عمل بھی معجزہ ہوتا ہے ، سیرت و کردا ر بھی معجزہ ہوتاہے ، کار ہائے نمایاں بھی معجزے ہوتے ہیں اور ان کی رسائی کا دائرہ عالم ِیقین و مشاہدات کی تہہ میں چھپی حقیقتوں تک پھیلا ہوتا ہے ۔ غیر نبیوں پر اللہ کس طرح کسبی علوم ومعارف کے ذریعے حقائق کی تہ تک پہنچاتا ہے اس کے لئے سورہ ٔ کہف میں موسی ٰ کلیم اللہ ؑ اور حضرت خضر ؑ کی ملاقات اور رُخصتی کی رُوداد ایک بہترین مثال ہے ۔ اللہ کے عطا کردہ علوم و معارف سے استفادہ کر نے والے خاص الخاص بندے اور باکمال ہستیاںبھی بسا اوقات ایسے محیرالعقول کرامتیں دکھاتے ہیںاور ایسے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں ۔ اس کے بین بین ساحرانِ فرعون کے کرتب اور مسمیرازم کادکھاوے بھی ہمارے سامنے ابلیسی علم کی وضاحت کر تے ہیں ۔
سیداحمد اکبر آبادیؒ علم کی پُراسرار پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ وہ مخصوص علوم وفنون سے بہر مند دو بندگانِ خدا کی چند مثالیں سپر د قلم کر تے ہیں جن سے باور ہوتا ہے کہ اللہ کس طرح اپنے مخصوص بندوں کو خصوصی صلاحیتیں عطاکر تا ہے ۔ اپنی مشہور کتاب ’’‘ وحی ٔ الہیٰ‘‘ میں موصوف ایک چشم دید واقعہ قلم بند کرتے ہیں ۔ لکھتے ہیں کہ پنجاب میں خدا بخش نامی ایک شخص کو حیارن کر دینے والا علم حاصل تھا جس کامظاہرہ انہوں نے ایک بار دہلی میں ایک مجمع میں کیا۔ اُس کی آنکھوں پر سید احمد اکبر آبادی ؒ ، عمائدین شہر اور اخبار ’’اسٹٹسمین‘‘ کے نامہ نگارکی موجودگی میں آنکھوں پر موٹی سی پٹی باندھ دی گئی جس کے بعد اس کا آنکھوں سے کوئی چیز دیکھنا قطعی ناممکن تھا۔اس کے بعد اس شخص کو ایک ایسے کمرے سے گزرنے کو کہا گیا جس میں کرسیاںا ور میزیں منتشر کر کے رکھ دی گئی تھیں لیکن پٹی بندھا ہواخدا بخش اسی حالت میں بالکل بینا انسان کی طرح کمرے سے کرسی میز سے ٹکرائے بغیر آرام سے باہر نکل آیا۔ اتناہی نہیں بلکہ خدا بخش کی اس دم بخود کر دینے والی صلاحیت کی ایک اور پر کھ ہوئی۔اس کی آنکھوں پر پٹی بدستور بندھی تھی اور اس کے سامنے اخبار کر کے اس سے کہا جاتا یہ تصویر بتاؤ،وہ مضمون پڑ ھو، یہ خبر سناؤ ، خدا بخش سے جو بھی کہا جاتا وہ فرفر انگریزی اور اردو کے ا خبارات میں ڈھونڈ کر پڑ ھ جاتا کہ دیکھنے والے حیرت زدہ رہ گئے ۔ یہ سارے کمالات دکھانے کے بعد اس نے اپنے فن پر تقریر کر کے خلاصہ کیاکہ یہ سارا چمتکار ہے کیا ۔ اس نے بتایا کہ دراصل انسان کے دماغ کے آگے کی جانب بعض ایسے غدود ہوتے ہیں جس سے اگر مشق و ممارست بہم پہنچائی جائے تو آنکھوں کاکام لیا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ بینائی اگر زائل بھی ہو جائے تو بھی انسان ان غدودوں کے ذریعے چیزوں کودیکھ سکتا ہے اور کتاب وغیرہ پڑھ سکتا ہے ۔ خدا بخش نے مزیدیہ بھی کہا میں نے مدتوں مشق کے بعد یہ کمال حاصل کیامگر محسوس یہ کر تاہوں کہ مجھے اس قوت میں اور اضافہ کر ناہے ۔ ایک اور مثال جید عالم دین ، مصنف ، محقق اور’’ قصص القرآن‘‘ کے مولف مرحوم ومغفور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رفیق ِاعلیٰ’’ ندوۃ المصنفین‘‘ کے بارے میں ہے کہ وہ سانپ کے کاٹے کا ایک محیر العقول عمل جانتے تھے۔اس عمل کا ان کے ا کابروا حباب نے بارہا مشاہدہ بھی کیا ۔ اس عمل کے لئے مار گزید کا مولانا کے سامنے ہونا شرط نہیں تھا بلکہ فرض کیجئے کہ وہ ہزاروں میل دوری پر ہو تو مولانا فوراًتھوڑا سا پانی منگا تے ، اس پر کچھ وظائف پڑھ کر دم مارتے اور اطلاع دینے والے کو پلاتے،ادھر مخبر پانی پی لیتا اُدھر سانپ کے کاٹے کا متاثرہ شخص کافوراً ٹھیک ہوجاتا۔ اس نوع کے خصوصی علوم بعض بندگانِ خدا ذاتی کا وشیں کر کے اورمشقتیں اٹھاکے حاصل کر تے ہیں اور یہ وہ دنیا ہے جہاں عقل وفہم اپنی نارسائی کا چارو ناچارا عتراف کر تے ہیں۔
اب ہم حرا سے رخصت لے کر اگلی زیارت یعنی غارِ ثور کی طرف روانہ ہوئے ۔
……………………………
( بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں، اِن شاء ا للہ)