Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!قسط؛57

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: April 14, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
20 Min Read
SHARE
  تاریخ ِاسلام کا ہر سنہری ورق اصل میں محبت النبی صلی ا للہ علیہ وسلم کا آئینہ دار ہے، ایمان کا راس المال ہے ، نیک عملی کے لئے مہمیز ہے ، ایثار وخدمت کے لئے قوتِ نافذہ ہے ، مومنانہ زندگی کے لئے  سامان ِ آرائش ہے ۔ حُب رسول ؐ ایک بہت ہی نازک معاملہ ہے ، اس میں تھوڑے سے افراط وتفریط کی آمیزش ہوئی تو یکدم ایمان مشتبہ ، عقائد نادُرست ، اعمال بے نتیجہ اور یقین غارت ہوا ۔کوئی بھی حکیم ِحاذق اس آفت سے خطاکار کونہیںبچاسکتا بجز اس کے کہ خاطی خود اللہ کے حضور اشک اشک ہوکر توبہ و استغفار کرلے ۔ محمد عربی ؐ کی عظمت ِشان اور علویت ِ مقام کی ایک مبرہن دلیل یہ بھی ہے کہ انسان تو انسان عشق ِمحمدی ؐ میں جمادات و نباتات بھی سر شار ہیں ۔ چناںچہ جب آپ ؐ کا وصال ہو ا تو خلیفہ ٔ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حالت ِوجد وشوق میں رورو کر فرمایا : میرے ماں باپ آپ ؐ پر فدا ہوں ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! کھجور کی جس شاخ پر نشست فرماکر آپؐ خطبہ فرمایا کر تے ، جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپ ؐ نے منبر بنوایا تاکہ اس پر بیٹھ کر خطبہ دینے سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی آوازِ مبارک پہنچ سکے۔ آپ ؐ کی اس جدائی سے وہ شاخ رونے لگی حتیٰ کہ آپ نے جب اپنا دست ِمبارک اس پر شفقت  ومہربانی سے رکھا تب اُسے تسکین آگئی۔
  شوق کا پنچھی عشق ِرسولؐ کے مطالب ، مفاہیم، مطالبات ا ور اس سے متعلق ایمان افروز مناظر میں کھو یا ہواہے۔ اس پر گرہ کشائی ہورہی ہے کہ عشق ِ رسول ؐ دراصل اسلام پر قرآن وحدیث کے عین مطابق عمل پیرا ہونے کا فدائی جذبہ ہے، یہ اپنی زندگی کے گوشے گوشے کو سنتوں کے قالب میں ڈھالنے کی ادا ہے ، یہ پوری انسانیت کی خیرخواہی میں اپنی نیندیں حرام کر نے کا عنوان ہے ، یہ اپنے گردونواح کے لئے نفع بخش ثابت ہونے کا لائحہ عمل ہے، یہ صرف اللہ ورسولؐ کی خوشنودی کے لئے نیکیاں کمانے کا درس ہے ۔ اس لئے بہت بہت زیادتی ہو گی اگر ہم سنی سنائی باتوںسے بھٹک کر اس مغالطے میں پڑیں کہ دل میں محبت النبیؐ ہو نی چاہیے پھر بھلے ہی ہم نماز ، قرآن، نیک چلنی کے بجائے جھوٹ، رشوت ، چوری ، ڈنڈی ماری ، نشے کی لت ، بغض و عداوت جیسی غا رتِ گر ایمان گناہوں میں پڑیں، کوئی غم نہیں شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ و سلم ہماری شفاعت کریں گے ۔ یہ بڑی غلط فہمی ہے ۔ہم یہ سمجھیں کہ محبت النبی ؐ کا اظہار خاص مواقع پر وازہ وان کااہتمام ہے ، یہ کسی نمائشی جلسہ جلوس میں شرکت کانام ہے، یہ کسی قوال کا طبلے کی تھاپ اور سارنگی کے ساز پر تھرکنا ہے ، یہ نذر و نیاز بٹورنے کا کوئی شغل ہے ، یہ چراغاں ا ور آتش بازی کی ہنگامہ پرستی ہے ، یہ کوئی حلوہ بانٹنے کی تقریب ہے۔ نہیں قطعاً نہیں۔ معاف فرمایئے ہماری اس طرح کی ناقص سوچ اللہ اور رسول رحمت صلی ا للہ علیہ و سلم کے دین سے کوئی لگا نہیں کھاتی ۔اس کے برعکس اگر ہماری زندگی میں توحید وسنت کانور آیا، عقیدۂ رسالت کی ہمہ آفتاب بینائی پیدا ہوئی، آخرت کی باز پُرسی سے ڈر لگا، انسانیت کے ساتھ بھلائی کر نے کا ذوق وشوق اُمنڈ آیا، بُرائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کا ہنر دل کو بھایا، ریا کاری ، دھوکہ دہی ا ور فتنہ و فساد سے دامن بچانے کا فن آیا تو یقین مانئے واقعتاً عشق رسولؐ کی سرا ہم گناہ گاروں کے ہاتھ آیا ہے۔ تاریخِ اسلام شاہد عادل ہے کہ عشق رسولؐ صحابہ کی رگ ِ جان تھا،  اثاث البیت یہی تھا ، کا وربارِ زیست اسی کھونٹے سے بندھا تھا ، آٹھوں پہراسی کے سائے میں گزرتے، سانسوں میں اسی کی مہک تھی ، گفتارو کردار سے یہی جھلکتا تھا ، فکروعمل کا یہی قبلہ نما تھا۔ امر واقع یہ ہے عشق رسولؐا یک ٹھاٹیں مارتا ہوا بحر بیکراں ہے جس کی فلک بوس موجوں میں صحابہ کبار رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین پروانہ وار ڈبکیاں مار مار کر بھی سیر نہ ہو تے ، تابعینؒ اور تبع تابعین ؒروز وشب اسی بے حد وکنار سمندر میں دیوانہ وارغوطہ زن رہتے اور حیاتِ اسلامی کی آبیاری و شادابی کے لئے وقف داعیان ِ اسلام، علمائے رُبانین ، اولیائے کاملین ، صلحاء، اتقیاء ، صوفیاء ، مجاہدین فی سبیل اللہ عشق رسول ؐ کی انہی تقدیر ساز لہروں میں ڈوبے رہے ۔
 عشق عربی کا لفظ ہے جس کے معنی وفور ِ محبت اور شدید شوق ہیںاور یہ شدید جذباتی تعلق ِخاطر پر دلالت کرتا ہے۔ علمائے قرآن کہتے ہیں لفظ عشق کلام اللہ میں وارد نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک قرآن مجید اعتدال کی تلقین کر تاہے اور عشق اعتدال وتوازن کے بندھ توڑنے کا ہم معنی ہے ۔ قرآن کریم میں حُب اور اُنس کی فہمائش جابجاملتی ہے جو توازن وتعقل کی سر حد سے مقید ہے۔ بایں ہمہ اسلامیات میں لفظ عشق کو خاصی اہمیت حاصل ہے ، ہر زمانے کے عالم ، فقیہ ، فلسفی ، دانشور، ادیب ، شاعر اپنے اپنے ذوق اور فکر کے آئینے میں عشقِ پیغمبر ؐ کی تشریح کر تے رہے جس کا نچوڑ یہ ہے کہ عاشقِ رسول ؐ وارفتگی کے عالم میں وصل ِ معشوق کی راہ میں حصول ِ کمال کا متلاشی رہتاہے۔ قرآن وسنت کے رمز شناس صوفیاء اوراہل دل کے یہاں عشق کے معنی اللہ ورسول اللہ صلی علیہ وسلم کی مکمل متابعت میں تن من دھن سے قربان ہونا ہے۔ تاریخ کے زریں اوراق کھولئے تو نظر آئے گا کہ عشق رسول ؐ میںغلطاں وپیچاںبر گزیدہ صحابہ ؓ نے اسلام اور پیغمبرا سلام صلعم سے اپنا قلبی تعلق استوار کیا توکھلے اور چھپے میں، موافق اور ناموافق حالات میں آپؐ کی بلا چوں چرااطاعت کی ، اس عاشقانہ راہ میں مشکلات سے خائف ہوئے اورنہ ذاتی پسند وناپسند کو کوئی اہمیت دی ۔ شمعِ رسالتؐ کے یہ پروانے آپؐ کی ہر ہدایت، ہر فرمودے اور ہر حکم پر ہی نہیں بلکہ ابروئے چشم کے ہلکے اشاروں پر بھی اپنی جان نچھاور کر تے،آپ ؐ کی ہر سنت کو بخوشی عمل کا جامہ پہناتے، ایسا کر تے ہوئے تکلیفیں اور مصیبتیں پیش آتیںتو مصابرت کا دامن پکڑے رکھتے، خوشیاں نصیب ہوتیں تو حکم ِخدا حکم رسول خداؐ کو ایک لحظہ بھی فراموش نہ کر تے۔ یوں ان عاشقان رسول ؐ نے کامل ایمان ، صالح عمل ، تبلیغ ِ حق اور صبر وثبات کی وہ تابناک مثالیں قائم کیں جن سے اسلام کی مشعل آج تک فروزاں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صحابہ  ؓ کا اُنس و محبت کو ئی جامد شئے نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسا سدابہار وثمر بار شجر تھا جس سے صرف عبادات اور اذکار کی کونپلیں نکلتیں ، خدمات کے شگوفے پھوٹتے ، ایثار کی مہک آتی ، خلوص کی مٹھاس پھیلتی ۔ ایک عاشق ِ رسولؐ کا یہ واقعہ واضح کر تاہے کہ  زندگیوں میں اس انمول تحفے کی معنویت کیا ہے ۔ربیعہ بن کعبؓ ایک مقرب دربار صحابی فرماتے ہیں: میں رسول اللہ ؐ کی ہمہ وقت خدمت لگارہتا، آپ ؐ نماز عشاء سے فارغ ہوتے تو میں اس خیال سے درِ مصطفیٰؐ پر بیٹھا رہتا مبادا کسی کام کے لئے آں جناب ؐ کو میری حاجت ہو۔ آپؐ ذکر الہیٰ میں محو ہوجاتے اور میں بلاوے کے انتظار میں تھک جاتا تو تو بادل نخواستہ ہی گھر لوٹ جاتا ، بسا اوقات وہیں پر اونگتارہتا۔ آپ ؐ نے دیکھ لیا کہ میں آپ ؐ کی خدمت گزاری میں مستعدی کے ساتھ ڈٹا رہتا ہوں، ایک دن بے حد وحساب دادودہش کر نے والے پیغمبرؐ نے فرمایا: اے ربیعہ! مجھ سے کچھ مانگ، میں تمہیں وہ دوں گا۔ میں نے عرض کی اس بارے میں سوچ کر عرض داشت کر لوں گا۔ میں نے غور وخوض کیا کہ دنیوی زندگی چندروزہ ہے، جو رزق یہاں قسمت میں ہے ، وہ تو ملنا ہی ملنا ہے۔ اس لئے ارادہ کر لیا کہ آپ ؐ سے وہ شئے مانگ لوں جو آخرت میں میرے لئے فائدہ مند ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ ؐ کا مقام ومر تبہ بہت بلند ہے۔ میں دربار ِ رسالتؐ میں حاضر ہو ا۔ آقائے نامدار ؐ نے پوچھا : ربیعہ ؓ! اب آپ نے کیا فیصلہ لیا ہے ؟ میں نے عرضداشت کی:یارسول اللہؐ ! میں آپؐ سے ملتجی ہوں کہ آپؐ میر ے لئے اللہ سے جہنم کی آگ سے گلو خلاصی کی دعا مانگیں ۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ربیعہ ؓنے یہ التجاء کی: میں جنت میں آپ ؐ کے ہمراہ رہنا چاہتاہوں ۔ سرور کائنات ؐ نے سنا تو سوال کیا: ربیعہ ؓ! آپ کو کس نے یہ مانگنے کے لئے کہا ؟ ربیعہؓ نے جواباً عرض کیا : قسم اس ذات کی جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرما، یہ مانگنے کے لئے مجھے کسی نے نہیں کہامگر جب آپ ؐ نے فرمایا : مانگو اور میں تم کو دوں گااور میں جانتاہوں اللہ کے ہاں آپ ؐکا بہت ہی اعلیٰ مقام ہے۔ میں نے ایک لمحہ کے لئے سوچاتو محسوس کیا کہ حیات ِ دنیا عارضی اور فانی ہے اور قسمت میں جوکچھ لکھا ہے وہ تو مجھے مل کر ہی رہے گا، لہٰذا خود سے کہا کہ رسول اللہ صلعم سے وہ چیز مانگوں جو آخرت میں میرے کام آئے ۔یہ سن کر پیغمبر اعظم وآخر  ؐکچھ لمحات تک خاموشی اختیار کر گئے، بعدازاں فرمایا: میں ضرور ایسا کروں گا مگر یہ منزل مراد پانے کے لئے تمہیں زیادہ سے زیادہ اقامت الصلوٰۃ سے کام لینا ہوگا۔
 صحابہ کبارؓ نے حُب رسول ؐ کا یہ بے لوث اسلوب دل و جان سے اپنایا تو کامیابیاں ہر ڈگر پراُ ن کے قدم  کیوں نہ چوم لیتیں ؟ا لبتہ محبوبیت کا یہ مقامِ بلند پانا کوئی سہل اور آسان کام نہ تھا، یہ لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا ، اس کے لئے انہیں جان فشانیاں کر نا پڑیں ، بدنی و مالی عبادات کے پہلو بہ پہلو جانیں قربان کر نا پڑیں ، راتوں کا شب بیدار اور دن کا شہسوار بننا پڑا ، حق وصداقت کی راہ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جاہلیت سے دوبدو ہونا پڑا ۔ ہم نے سیدالتابعین حضرت اویس بن عامرالقرنی علیہ رحمہ کی عظمتوں کے با رے میں سناہے کہ آں حضرت صلعم نے خلیفہ رابعہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کو حکم دیا تھا کہ اویس قرنیؒ سے درخواست کریں کہ وہ اُمت کے لئے دعا کریں۔ اس سے بڑھ کر اس نامور عاشق رسول ؐکی عظمت ورفعت کی کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ یہ جناب کسی خانقاہ یا غار میں دنیا سے چل نہ بسے بلکہ ۳۷ھ میں جنگ ِ صفین میں حضرت علی ؓ کی طرف سے لڑتے لڑتے جام ِ شہادت نوش کر گئے۔
  صحابہ کرام ؓ کے غیر معمولی ایثار وقربانیوں کے باوجود آپ ؐ نے کن عاشقانِ اُمت کے سر فوقیت اور افضلیت کی دستار باندھی دی، یہ حدیث مبارک اس پر روشنی ڈالتی ہے اور دور ِ سعادت کے بعد آنے والے اہل عشق کو مژدۂ جانفزا سناتی ہے ۔ایک موقع پرآقائے دوجہاںؐ نے اپنے اصحاب ؓ باصفاسے سوال کیا : ایمان لانے کے اعتبار سے تمہارے نزدیک کون سی مخلوق زیادہ عجیب اور باعظمت ہے ۔صحابہؓ نے عرض کیا : ملائکہ سب سے زیادہ ہیں۔ ارشاد ہو ا: وہ توہر وقت اپنے رب کے سامنے رہتے ہیں ، کیسے ایمان نہ لاتے؟ صحابہ نے عرض کیا :پھر انبیائے کرام ؑ۔ ارشاد فرمایا: ان پر وحی نازل ہوتی ہے،وہ کیونکر ایمان نہ لاتے ؟ عرض کیا: پھر ہم لوگ ہیں ۔ ارشاد فرمایا: میں تمہارے درمیان بہ نفس ِ نفیس موجود ہوں، تم کیسے ایمان نہ لاتے؟ صحابہؓ نے سکوت فرمایا ،تو آپ ؐ نے اپنی زبان ِ حق بیان سے فرمایا: میرے نزدیک ساری مخلوق میں بھلاان لوگوں کا ایمان ہے جو میرے بعد ہوں گے ، وہ کتابوں میں لکھا ہوا دیکھ کر اس پر ایمان لے آئیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ اگرچہ اصحاب رسولؓ میں قوتِ ایمان حد درجہ زیادہ ہے ، اور شرف صحابیت اور وجوہ ِافضلیت میں وہ بدرجہ ٔ اتم ہیں مگر دورِ سعادت کے مابعد حقیقی عاشقان ِ اسلام میں افضلیت وخیریت کی وہ ساری صفات مجتمع ہیں جن کی بناپر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے ایمان اور عشق اسلام کو باوقعت قرار دیا ۔ اس دولت ِایمان سے متاخرین نے صالحات کا کتنا سرمایہ جمع کیا،ا س کا شمار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ چند ایمان افروز واقعات ملاحظہ ہوں : امام احمد بن حنبلؒ نے اسلام کے عاشقانہ دفاع میںزمانے کے فتنوں کا تن تنہا مقابلہ کیا ، جیل گئے، کوڑے کھائے ، تکالیف اٹھائیںمگر اپنے عشق ِاسلام پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ تقویٰ شعاری دیکھئے کہ ایک دن مکہ میں کسی سبزی فروش کے پاس تانبے کا برتن( سطل ) گروی رکھا۔ جب انہوں نے رقم اداکر کے ا سے چھڑانا چاہا تو سبزی فروش نے دوبرتن نکالے اور امامؒ سے کہا: جو نسا چاہے لو مگرامام صاحب ا پنا برتن نہ پہچان سکے اور اپنے درہم سبزی فروش کے ہاتھ تھماکر بولے : برتن بھی آپ کا اور یہ رقم بھی آپ کی ۔ سبزی فروش نے کہا: آپ کا برتن یہ ہے ، میں توصرف آپ کو آزمانا چاہتا تھا ۔ مام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: اب میںاس میں اسے واپس نہ لوں گااور یہ کہہ کر چل دئے۔ یہ تھا آپ کی تقویٰ شعاری اور حزم واحتیاط کا حال ۔ امام ابوحنیفہ علیہ رحمہ ایک آہنی عزائم والی شخصیت تھے ،انہوں نے اسلام کے تحفظ وترجمانی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا مگر شاہانِ وقت کی کاسہ لیسی کی نہ دربار کی جبہ سائی کی ، وقت کے حکمران نے ان کا منہ بند کر نے کے لئے انہیں عہدہ ٔ قضا کی پیش کش کی جسے آپ نے ٹھکرایا تاکہ اسلام کا یہ عاشق وقلندر اپنی راست گوئی سے سر مو انحراف کر نے پر مجبور نہ ہو۔ چنانچہ ملوکیت کا ناقد ہو نے کے سبب انہیںجیل میں ٹھونس دیا گیا جہاں اسلام کے ا س بطل جلیل کی زہر خوری کر کے ان کاکام تمام کیا گیا ۔ امام شافعی یمن الاصل تھے ، نسباًسادات سے تعلق تھا مگر عسرت وغربت وراثت میں ملی تھی ۔ والد صاحب کا سایہ بچپن میں ہی سر سے اُٹھا۔ والدہ ماجدہ مکہ مکرمہ میں علم دین کے حصول کے لئے لے آئیں۔ آپ کاعلمی تبحر اور تقویٰ حرم پاک کے زیر سایہ پروان چڑھا ۔ مدینہ شریف جاکر امام مالکؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا،پھر نجران میں ایک سرکاری عہدہ ملا، اسلامی اصول وضوابط کے تحت صداقت و امانت داری سے کام کیا تو حاکم ِنجران کو یہ دیانتدارانہ طرزعمل راس نہ آیا ۔ اسی کے ساتھ امام شافعی کی آزمائش کا ودر شروع ہوا۔ انہی دنوں خلیفہ ہارون رشید کے کان میں بھنک پڑگئی کہ بعض علوی النسب افراد بغداد کے خلاف بغاوت کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔نجران کے والی نے امام کو اپنی راہ کا روڑا سمجھ کر ان کے خلاف ہارون رشید کے کان بھر دئے ۔ امام صاحب کو فوراً گرفتار کیا گیا ۔ شکر ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے ایک شاگردِ رشید امام محمد شیبانیؒ کی جانب سے امام کے اچھے چال چلن اور علمی وجاہت کی بنا پر بادشاہ نے چھوڑ دیاجب کہ بغاوت کے الزام میں یمن سے گرفتار شدہ گان میں آپ واحد خوش نصیب تھے جو بچ گئے ۔
 بقیہ اگلے جمعہ کو ملاحظہ فرمائیں۔ ان شاء اللہ

 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پونچھ قصبہ میں پانی کی شدید قلت عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا ،انتظامیہ سے توجہ کی اپیل
پیر پنچال
کلائی پونچھ میں شدید بارش سے 2مکان منہدم
پیر پنچال
راجوری۔سرنکوٹ سڑک پر پسی کا قہر،نجی گاڑی ملبہ کی زد میں آگئی| جانیں معجزانہ طور پر بچ گئیں،تعمیراتی کمپنی اور گریف کے خلاف نعرے بازی
پیر پنچال
کوٹرنکہ بس سٹینڈ میں ہولناک آتشزدگی، تین منزلہ مکان خاکستر، نوجوانوں کا احتجاج فائر سروس کی غیر موجودگی پر حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ،یقین دہانی کے بعد احتجاج ختم
پیر پنچال

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

May 29, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

May 22, 2025
جمعہ ایڈیشن

توبہ و استغفارکی موجودہ حالات میں اہمیت فکر انگیز

May 22, 2025
جمعہ ایڈیشن

دُعا عبادت کی رُوح ہے فکر و فہم

May 22, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?