نماز اور ناشتے سے فارغ ہوکر زائرین گاڑی میں سوار ہوئے اور گاڑی فوراً ہو امیں باتیں کر نے لگی ۔ شاہراہِ مدینہ دین اسلام کی طرح راست و ہموار ہے کہ چلتے ہوئے مسافر کو کہیںمعمولی سی جنبش بھی محسوس نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں اگرآپ کے ہاتھ میں چائے کی پالی ہو اور مدینہ جاتے ہوئے گاڑی طیارے جیسی تیز رفتار سے جارہی ہو،تو بھی آپ کی پیالی ہلکا سا بھی نہ ہلے ۔ شاہراؤں کا اگر کوئی عالمی مقابہ ہو تو مکہ و مدینہ کی ہموار و شاندار کشادہ سڑکیں اس میں سر فہر ست ہوں گی۔ ان شاہراؤں کا منظر منظر قابل دید اور ڈگر ڈگر قابل داد ہے۔ مدینہ منورہ جاتے ہوئے زائرین کی نگاہیں قدم قدم پہ جلّی حروف میں علاقے کے نیم پلیٹ اور ٹریفک سگنل کے علاوہ کلماتِ مسنونہ ۔۔۔سبحان اللہ،الحمد للہ ،اللہ اکبر، لا الہٰ الا اللہ ، لا حول ولا قوۃ الا باللہ، صلی علیٰ محمد، لاتنسو ذکراللہ( اللہ کا ذکر مت بھولئے ) وغیرہ ۔۔۔ سے ٹکراتی ہیں ۔ یہ اذکار وطائف جابجاکسی سائن بورڈ،کسی کتبے ، کسی پہاڑی، کسی چٹان ،کسی سنگ ِمیل یا کسی اور موزوںجگہ پر مختلف انداز میںلکھے ملتے ہیں ، لکھائی اتنی نمایاں ہوتی ہے کہ ضعف ِبصارت والوں کو بھی انہیں پڑھنے میں کوئی دِقت محسوس نہ ہو ۔ یہ کلماتِ مسنونہ حرم مدینہ کو جانے والے ہر زائر کے لوحِ قلب پر بھی مرتسم ہوں تو زبانیں خود بخود ان کا وِرد شروع کر تی ہیں ۔ میرے لئے یہ ایک نیا اور انوکھا تجربہ تھا کہ صارفیت کے اس زمانے میں جب مصروف شاہراہیں چہار جانب کمرشل اشتہار بازیوں کا اکھاڑہ ہوتی ہیں ، جب قد آدم تصاویر سے صارفین کی توجہ مہد تا لحد درکار آنے والی ہر فانی چیز کی جانب پھیر دی جاتی ہے، جب مبالغہ آمیز تشہیر ی سامان سے گاہکوں کو رجھایا جاتا ہے،جب کمپنیاں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی دوڑ میں اپنے پروڈکٹس کی پُرکشش اور بسا اوقات برہنہ تشہیر میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں ، جب صارف کی جیب خالی کرنے کی غرض سے ساہوکارانہ فن کی ر نگینیاں سائن بوڑوں پر نچھاور کی جاتی ہیں ، جب دوراہوں چوراہوں پر کسی سیاسی لیڈر یا حکمران کی تصویری نمائش سے اس کے کاروبارِ سیاست کے چار چاند لگائے جاتے ہیں ۔۔۔ اسی خود غرض تجارتی دنیا میں شاہراہِ مدینہ کے دونوں اطراف میںاورادو کلمات کو زبان ِ دل سے ادا کرنے کی دعوت دینے سے باور ہورہا تھا کہ بھلے ہی سارا جہاں کمرشیلائز ہو ، مادیت میں کھو یا ہو ، جنون کی حدتک ایڈورٹائزنگ کا رسیا ہو مگر اسی دنیا کے ایک گوشۂ عزیز میں اللہ کی نعمتوں کی انوکھی خرید وفروخت کا بازار اذکار واوراد کی صورت میں سجا ہے ۔ یہ منفرد تجارت اللہ سے لو لگانے سے شروع ہوکر ذاکر کے حصولِ جنت پر اختتام ہو جاتی ہے ۔ ہمیں اس بات کی داد دینی چاہیے کہ مادی سود وزیاں کے اسی مسابقتی دور میں جب اخلاقیات کی کوئی قدر وقیمت نہیں، شاہراہِ مدینہ کے یہ کتبے خالص ایک منافع بخش روحانی تجارت کو فروغ دے رہے تھے۔ کلماتِ مسنونہ پر مبنی یہ دورویہ جاذبِ نظر اشتہارات کسی پروڈکٹ کی نمائش کرر ہے تھے نہ کسی شخص کی ستائش بلکہ یہ اللہ کی یاد ہمارے غافل دلوں میں بسا کر ہمیں اپنی آخرت بنانے کی طرف متوجہ کر رہے تھے ۔ یہ ایک ایسا پاکیزہ سوداہے جس میں سیم وزر کا کوئی چلن نہیں ،یہ دل کے بازار میں ایمان وعمل صالح کی خریداری اور حسن ِعاقبت کی کمائی ہے۔ اس پر مجھے دفعتاً قرآن مجیدکی یہ آیت یاد آئی: اے ایمان والو ! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچائے، تم ا للہ اوراس کے رسول ؐ پر ایمان لاؤاور تم اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرو، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو ( سورہ صف ۔ آیت نمبر ۱۰)۔
آقائے نامدار صلی ا للہ علیہ و سلم نے انسانیت کو عذاب ِالیم کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے تعمیر ِدنیا و تزئین ِآخرت کی اس نبوی تجارت کی شروعات مکہ معظمہ کی منڈی سے کی۔ آپؐ کے پاس خالص نبوت و رسالت کا مال تھا، امین وصادق ہونے کے ناطے آپ ؐ اس کاروبار میں صرف اپنے بلند کردار اوراخلاق عالیہ کی سرمایہ کاری کر رہے تھے، آپؐ کی واحد پونجی ایمان با للہ اور ایمان بالآخرۃ تھی ۔ آپؐ کے خریدار مکہ کے قلیل التعداد پاک نفوس تھے مگر افسوس کہ دنیا کا حسنہ کمانے اور آخرت کے خسران سے بچنے کے اس نفع بخش کاروبار پر مکہ کے باطل پرست تلملا اُٹھے، اس صالح تجارت کے خلاف تمام غنڈے موالیوں کا ایکا ہو گیا تاکہ خیر وفلاح کا یہ دھندا بند کرایا جائے کیونکہ اس نرالے کاروبار سے جہلائے مکہ کے جعلی مال ( مشرکانہ اعمال ) کی ا صلیت لوگوں پر آشکارا ہونے لگی تھی ، اس پر مستزاد یہ کہ اس تجارت کو بڑھاوا ملنے سے مکہ کے تاجرانِ کفر وشرک کی دوکانیں ماند پڑ تی جارہی تھیں۔ حالانکہ آپ ؐ نے ان کو سمجھایا بجھایا تم اپنی راہ چلو ہم اپنی راہ چلیں مگر وہ ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹ گئے ، ایک بھی نہ سنی۔ آپؐ نے سوچا چلو طائف میں یہ آخرت ساز کام کاج چلاتے ہیں مگر اہل طائف نے بھی بڑی ڈھٹائی سے یہ کار وبارِ شوق ٹھکرادیا۔ا ٓخر کار مدینہ نے اس پر بصدقِ دل لبیک کہا تو اس شہر کی کایاپلٹ ہوگئی، اہل مدینہ کوآخرت کی کامیابیاں کمانے والی تجارت کا شوق اتنا زیادہ چرایا کہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ انہوں نے مکہ کی سرزمین سے شرک وکفرکا دھندا کر نے والوں کو کھدیڑ کر ہی دم لیا۔
اس عجیب وغریب تجارت کی ایک جھلک حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ کی سیرت میںملتی ہے:مدینہ کے مہاجر مسلمانوں کو پانی کی شدید قلت کا سامناہے۔ ایک یہودی کا کنواں ’’بئررومہ‘‘ کے نام سے موجود ہے مگر منافع خور یہودی پانی منہ مانگے داموں بیچتا ہے۔ مہاجرین کے پاس اتنی مالی وسعت کہاںکہ مہنگے داموں پانی خرید یں ۔ یہ لوگ اپنا دُکھڑا لے کر بنی اکرم ؐ کے پاس فریاد کرتے ہیں کہ ہم پانی کی قلت اور مذکورہ یہودی کی لالچ سے ازحدپریشان ہیں ۔ آپ ؐ اعلان فرماتے ہیں :کون ہے جو اس کنوئیں کو خریدے اور مسلمانوں کے لئے وقف کر دے۔ ایسا کر نے کے عوض اللہ تعالیٰ ا س کے لئے جنت میں چشمہ جاری کر ے گا ۔ حضرت عثمان ذی النورین ؓ کو جنت کی تجارت پسند آتی ہے ، وہ کنوئیں کے یہودی مالک کے پاس جاتے ہیں تاکہ یہ کنواں اس سے ایک معقول رقم کے عوض خریدیں۔یہودی یہ کہہ کر انکار کر تا ہے کہ یہ میری آمدن کا ذریعہ ہے ۔ حضرت عثمان ؓ تدبیر اً یہودی سے فرماتے ہیں چلو پورا نہ سہی آدھا ہی کنواں مجھے بیچ دو ۔ آدھا کنواں ہمیں فروخت کر نے پر ایک دن پانی مسلمانوں کا اور ایک دن خالص تمہارا ہوگا ۔ یہودی یہ سوچ کر پیش کش کو قبولتاہے کہ خطیر رقم بھی ملتی ہے ، کنوئیں کی ملکیت بھی اپنے پا س ہی رہتی ہے، وہ سودا پکاکر کے اپنا آدھاکنواں خلیفہ سوم کوفروخت کر ڈالتاہے ۔ آپ ؓ اپنی باری والے دن کو عام مسلمانوں کے نام وقف کردیتے ہیں۔ مسلمانوں کی ساری پریشانی کا یکسر ازالہ ہو جاتا ہے ۔ وہ اپنی باری پر کنوئیں سے پانی حاصل کر تے ہوئے اگلے روز کے لئے بھی پانی ذخیرہ کر کے رکھتے ہیں ۔ نوبت یہ آجاتی ہے کہ جس روز یہودی کی باری ہوتی ہے ، مسلمان خریدار اُس سے پانی خریدنا تو دور اس کے پاس پھٹکتے بھی نہیں۔ یہودی کو گھاٹا لگ جاتا ہے تو سیدھے حضرت عثمانؓ سے گزارش کر تا ہے کہ آپ آدھے کنوئیں کو بھی خریدیں۔ آپ ؓ راضی ہوجاتے ہیں اور اُسے متفقہ رقم ادا کر کے کنواں مسلمانوں کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ اسے حسن ِتدبیر کہیے یا آخرت ساز لین دین سمجھئے ،سارا مسئلہ بطریق ِاحسن حل ہو کر رہ جاتاہے ۔ یہ حال دیکھ کر ایک اور شخص حضرت عثمانؓ کے پاس آکر کنوئیں کی دوگنی قیمت ا دا کرنے کی پیش کش کر تاہے مگر حضرت عثمان بن عفانؓ یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ مجھے اس سے کئی گنا زیادہ کی پیش کش ہے ،مذکورہ شخص تین گنی قیمت کی پیش کش کر تاہے مگر آپؓ پہلا جملہ دہراتے ہیں کہ مجھے ا س سے زیادہ کی پیش کش کی گئی ہے ۔ یہ شخص چار گنی ، پانچ گنی ، چھ گنی قیمت دینے پر رضامند ہو کر اپنی رقم بڑھاتا جاتاہے مگر آپ مسلسل انکار فرماتے ہیں۔ آخر تھک ہارکر یہ آدمی آپ ؓسے سوال کرتا ہے :حضور وہ ہے کون جو آپ ؓ کو میری رقم سے زیادہ کی پیش کش کرتاہے ؟ حضرت عثمان غنی ؓ فرماتے ہیں: میرا رب مجھ سے ایک نیکی کے بدلے دس گنا اجر دینے کا وعدہ کر تا ہے ۔ اللہ اللہ آخرت کی سرخ روئی خرید نے والے یہ سعید روحیںاور برگزیدہ ہستیاں کس مٹی سے بنی تھیں جو دنیا میں رہ کر اپنا ابدی دھندا خوبی وکمال سے چلا نے کے کامیاب گُر جانتے تھے۔
مدینہ نے وہ سنہری دن بھی دیکھا جب احمد مصطفیٰ محمد مجتبٰی آخرت کی انسان دوست تجارت کا ایک نیا باب رقم کر گئے ۔ آپ ؐ مدینہ میں مہاجرت کی زندگی بسر فرماتے ہیں کہ مکہ شدید قحط سالی کا شکار ہوجاتاہے ۔ چونکہ وہاں زراعت نہیں ہوتی،اور غلہ کے لئے یہ جن دیگر علاقوں کا دست نگر ہے ، ا تفاق سے وہاں بھی قحط سالی کے اثرات پائے جاتے ہیں ۔ ان دنوںمکہ غلہ اور اشیائے خور دونوش زیادہ تر نجد سے در آمد کرتا۔وہاں کا ایک نامی گرامی سردار ثمامہ بن اثال اسلام کاکٹر مخالف ہے جو قبل ازہجرت مکہ آتاہے تو آپ ؐ حسب ِدستور اُسے اسلام کی دعوت دیتے ہیں مگر یہ دھمکی دے ڈالتا ہے : اے محمد ؐ! خاموش ہوجاؤ، ورنہ میں (العیاذ باللہ) قتل کروں گا۔ آگے گردشِ دوران کے چکر کاٹ کر یہ شخص مدینہ بہ حیثیت قیدی گرفتار کر کے لایاجاتا ہے۔شاہ ِ مدینہؐ اس کو پہچان جاتے ہیں، پوچھ بیٹھتے ہیں کیا اب بھی وقت نہیں آیا جب تم اپنی بے دینی اور بت پرستی سے باز آکراللہ کی بندگی میں آجاؤ؟ وہ جواب دیتا ہے :اگر آپ کو فدیہ کی ضرورت ہے تو جتناکہیے مال پیش کر وں گا، مالدار ہوں۔ا گر آپ مجھے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو میں ذُو دَم یعنی خون والاہوں۔ اس پر آپؐ گفت وشنید ختم کرتے ہوئے حکم صادر فرماتے ہیں کہ ثمامہ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دو تاکہ یہ دن بھر ہمارے معمولات کا مشاہدہ کر ے۔ قیدی کو یہ عجیب و غریب سزا دی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی زندگی کا نزدیک سے جائزہ لے ۔ اُس کی مہمان نوازی بھی خوب کی جاتی ہے ، حاجت بشری کے لئے وقفہ بھی دیا جاتاہے اور پھر دوبارہ ستون سے باندھے رکھاجاتاہے ۔ ہر نماز کے وقت آپ ؐ ثمامہ کے پاس سے گزر کر اس سے سوال کر تے ہیںاب کیا خیال ہے؟ مگر اس کے دل پر کفر کی برف پگھلنے کا نام لیتی ۔ یہ شخص فدیہ ادا کر نے یا قتل کئے جانے کی بات توکر تا ہے مگر اسلام کو قبولنے پر تیار نہیں ۔ کئی دن یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے تو رحمتہ اللعالمینؐ ایک موقع پر ثمامہ کی رہائی کا حکم دیتے ہیں اور اُ سے فرماتے :جاؤ میں مفت میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ اس لطف ومہربانی سے نجد کا قیدی جسمانی طور رہا توہوتا ہے مگر اس کی روح اسلام اور پیغمبر اسلام ؐکی غلامی کو تا حیات قبولتی ہے ۔ وہ قریب ایک کنوئیں پر جاکر غسل کر کے واپس مسجد نبوی میں آپؐ کے سامنے کلمہ ٔ شہادت پڑھتا ہے ۔ مشرف بہ اسلام ہو کر وہ دربار رسالت میں علانیہ کہتاہے کہ اب سے چند لمحہ پہلے دنیا کا و ہ شخص جس سے میں سب سے زیادہ نفرت کر تا تھا، آپ ؐ تھے لیکن اب دنیا کا وہ شخص جس سے میں سب سے زیادہ محبت کر تاہوں ،آپ ؐ ہیں ۔ ثمامہ آپ ؐ کے روبرور یہ عزم صمیم بھی ظاہر کر تا ہے کہ اب نجد سے مکہ کو ایک دانہ بھی غلہ نہیں جائے گا۔ اس فیصلہ سے مکہ کی قحط سالی مزید سنگین رُخ اختیار کر جاتی ہے ۔ لا چار ہوکر مکہ والے ذلت وندامت اور شر مساری کے ساتھ والی ٔ مدینہ صلعم سے اپنی اس درخواست کے ساتھ ایک وفد روانہ کرتے ہیں: اے محمد ؐ! آپ ہمیشہ نیکی، مہر وماہ اور اعتدال وتوازن کی تعلیم دیتے ہیں ، اپنے ہم وطن شہریوں پر رحم کیجئے، ہم فاقوں سے جان بلب ہیں ۔ آپ ؐ مکی وفد کی فریاد سنتے ہی نہ صرف ثمامہ بن اثال کو غلے کی رسد پر لگائی گئی بندش ہٹانے کی ہدایت دیتے ہیں بلکہ از راہ ِ کرم پانچ سو اشرفیاں مکے کے غرباء اور فقراء میں تقسیم کر نے کے لئے اپنے اُ س وقت کے جانی دشمن ابوسفیانؓکوبھجوادیتے ہیں ۔ بقول مولانا ظفر علی خان ؎
ہیں دوسروں کے واسطے لعل وزر وگر
اور اپنا یہ حال ہے کہ چولہا بجھا ہوا
ابو سفیان ؓ رقم دیکھ کرغصے کے عالم میں تو کہتے ہیں کہ محمد ؐ چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوںکو ورغلائیں مگر پھر بادل نخواستہ اس امدادی رقم کو لیتے ہیں۔ اس اقدام کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اہل مکہ کی خاموش اکثریت اسلام کے حسن و جمال والے کاروبارِ آخرت سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہتی۔
بلا شبہ دنیا میں رہ کرآخرت بنانے کی انوکھی تجارت بہت کم لوگ کر تے ہیں ۔ یہاں تو اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے کا چلن ہے ۔شاہ ِ مدینہ ؐ نے انفاق فی سبیل اللہ کرنے و الے مالداروں کی دریادلی پر ہی اللہ کی خوشنودی کو محدود کرنے کی کوئی سرحد نہ کھینچی بلکہ اس تجارت میں سرمایہ کاری کے لئے سب امیروغریب کو ترغیب دلائی کہ وہ ذکر اللہ سے اصلاح ِ نفس اور روحانی قوتوں کی جتنی چاہیں پونجی بڑھا دیں تاکہ سب دودو ہاتھوں دربار ِ الہٰیہ سے منافع لوٹ سکیں ۔
ذکر اللہ کے بارے میں حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ؐ نے مجھے ایک دُعا روزانہ دوہزار بار سونے سے پہلے وردِ زبان کر نے کی تاکید فرمائی۔ حضرت ابوہریرہؓ چونکہ بڑے ذہین وفطین تھے، ا نہوں نے ایک ڈور لی ا ور اس میں دوہزار گرہیں ڈال دیں۔ اس کے ذریعے وہ تسبیح پڑھ کر شمار کر تے تھے ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ کسی صحابیہؓ کے پا س سے گزرے جس نے ا پنے رُوبروکنکریوںکا ڈھیر رکھا تھا۔ وہ ایک کنکری اُٹھاتیںاوردرود پڑھ کر اسے بازو رکھتی تھیں۔ بعض علمائے اسلام تسبیحات کو انگلیوں کے پوروں پر گننے کی تاکید فرماتے ہیں کیونکہ قیامت کے دن انگلیوں کے پور اللہ کی عدالت میں گواہی دیں گے ۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ جب ہم پہلی بار عمرہ کر کے مدینہ پاک جارہے تھے تو نماز مغرب کا وقت ہونے کے باجود ڈرائیور نے نہ جانے کیوں کسی اور پڑاؤ پر نماز کی ادائیگی کا فیصلہ لیا ، دیکھتے ہی دیکھتے اندھیرا چھایا گیا ، ہم سب نماز مغرب کے لئے بے چین وبے قرار تھے کہ یکایک گاڑی بیٹھ گئی اور پتہ چلا ٹائر پنکچر ہے ۔
نوٹ: نقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ، ان شاء اللہ