Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

!نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: November 10, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
19 Min Read
SHARE
گزشتہ قسط میں عرض کیا تھا کہ پہلے عمرہ کے موقع پر ہماری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہونے سے کچھ دیر ہمارے سفر مدینہ کا تسلسل یکایک منقطع ہوا۔ انسان پر مشین کی غیر یقینی آقائیت کا کیا بھروسہ کب کیا گل کھلائے۔ یہ کبھی جھکی گردن سے انسان کا بوجھ اٹھائے اُ سے چاند تارے چھونے میں مددگار ثابت ہو اور کبھی معمولی نقص کے باعث خود انسان کے سر پرسوار ہو جائے۔ غرض ہماری گاڑی اب سڑک کنارے بے حس و حرکت پڑی تھی اور ہم نئی گاڑی کے انتظار میں کھڑے تھے ۔ ظاہر ہے قافلہ ٔ شوق سرراہ درماندہ ہو نے سے تھوڑی بہت بدمزگی محسوس ہونا فطری تھا۔ ٹو ر آپریٹر نے ہمارا موڈ ٹھیک رکھنے کے لئے اعلان کیا گھبرایئے نہیں، ابھی کچھ دیر میں نیا انتظام ہونے والا ہے۔ آپ گاڑی میں بیٹھیں رہیں تو بہتر ، نیچے آئیں تو مہربانی کرکے تھوڑی ہوشیاری برتیں کیونکہ شاہراہ پر برق رفتار گاڑیاں آجا رہی ہیں، حادثے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔
 بہر کیف تقریباً ہم سب لوگ گاڑی سے نیچے آگئے ۔ ہمارے ہمراہ جنوبی ہند کے رہنے والے ایک نورانی بزرگ بھی عمرے پر تھے۔وہ حجاز میں پنتیس سال تک بہ حیثیت انجینئر کام کر چکے تھے ، یہاں کے چپہ چپہ سے ہی واقف نہ تھے بلکہ عربی پر بھی خاصی دسترس تھی ۔ انہوں نے عربی زبان میں ڈرائیور سے بات کر کے ہم سے کہا کہ متبادل گاڑی فراہم ہونے میں کمپنی کو ابھی کچھ دیر لگ سکتی ہے۔
اُن کے منہ میں گھی شکر کہ ساتھ میں یہ مشورہ بھی دیا کیوں نہ ہم تب تک جمع بین الصلوٰ تین کر کے مغرب ا ور عشاء سے فارغ ہوجائیں ۔ سب نے حامی بھر لی ۔ زیادہ تر مسافر وضو سے تھے، بقیہ لوگوں نے تیمم سے کام چلایا۔ اسلام کا حسن ِ بیکراں ہی یہ ہے کہ یہ دین ِیُسر یعنی آسانی کا دین ہے اور ہر عُسر یعنی مشکلات وموانع اور ہنگامی حالات سے ڈرنے یا فرار لینے کی بجائے ان سے نمٹنے کی آسان راہ سجھا دیتا ہے ۔ بد قسمتی سے ہم لوگ ہی اُلٹی کھوپڑی والے ہیں کہ جہاں یُسر کی گنجائش ہے وہاں خود ساختہ تنگی سے اور جہاں ممنوعات کی دیواریں کھڑی ہیں، وہاں خلافِ شر ع کشادگی سے کام لیتے ہیں ۔ تریب کی اس اُلٹ پلٹ سے فائدے کے بجائے خسارے ہونے ہی ہونے ہیں، ساتھ میں ہم اللہ کی ناراضگی بھی مول لیتے ہیں۔ یہی عمومی رویہ فی زماننا عالمی سطح پر مسلمانوں کا رونا ہے۔ بہر کیف سب مردوزن نے سڑک کے کنارے ریت کے مصلیٰ پر مذکورہ بزرگوار کی اقتداء میں نماز مغرب اور نماز عشاء قصر سے پڑھ لی۔ واللہ ریت کا یہ بچھونا ہمیں نرم ونازک قالین سے بھی زیادہ ملائم اور آرام دہ لگا ،یہاں سر بسجود ہونے سے قافلے کو روحانی کیف و سرود کا وہ خزانہ میسر ہوا کہ میرا کم مایہ قلم اسے بیان کرنے سے قاصر ہے۔ میں نے سوچا چلو ریت پرسجدہ ریزی کے صدقے شاہراہِ مدینہ کی دُھول مٹی سے ہماری پیشانی اور ہمارے ملبوسات پر داغ ہائے دل منقش ہو ئے ہوں گے اور کتنی مبارک صورت ہوگی اگر یہی انمول سوغات لئے ہم نبی ٔ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی بستی ٔ نور میں وارد ہونے کا شرف پائیں مگر  ع
  اے بسا کہ آرزو خاک شد
  ایسا ایک بھی نقش ِداغ ہمارے کپڑوں یا پیشانی پر ثبت نہ تھا۔ لعل و گوہر سے بھی زیادہ انمول جس گردوغبار نے نبی ٔ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلہ ٔ ہجرت کے بوسہ لئے ہوں ،اس نے ہمیں اپنے اس شرف ومجد کے قابل ہی نہ سمجھا۔ بہر صورت یہاں صحراکی خنک ہواؤں کے جھونکے مسلسل ہم پر پنکھا جھلا تے رہے ۔ اسی جان گدازفضا میںتقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ گزار نے کے بعد نئی گاڑی  خراماں خراماں کیا نمودار ہوئی کہ ہماری جان میں جان آگئی ۔ زائرین نے جلدی جلدی پہلی گاڑی سے اپنا اپنا سامان اُتارکر دوسری گاڑی میں لادنا شروع کیا۔ حرمین کی آرام دہ مسافر گاڑیوں میں زائرین کا رخت ِ سفر نیچے کی ڈِکی میں لوڈ کیا جاتا ہے ۔ خیر ہم سب نے اپنی مدد آپ کر تے ہوئے اَن لوڈنگ اور لوڈنگ کا صبر آزماکام آدھ پون گھنٹے میں ختم کر ڈالا۔ یہ سب ہوچکا تو درماند ہ قافلہ از سر نو سوئے مدینہ روانہ ہو ا۔ علامہ نے شاید ہمارے لئے ہی فرمایا   ؎
 میں ظلمت ِشب میں نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس میرا شعلہ بار ہوگا
   شوق کا پنچھی پھولے نہ سمارہاتھا کہ درماندہ قافلہ سرنوپابہ رکاب ہوا لیکن وہ اس وقتی درماندگی کے آئینے میں اپنے انداز ِفکر سے موت کی حقیقت کا سراغ پا گیا اور اپنی توجیہات وتاویلات کی وسیع دنیا تعمیر کرتے ہوئے بولا: جناب! دیکھا آپ نے اللہ کی مرضی کسے کہتے ہیں؟ ذرا بصیرت کی آنکھ کھول کر دیکھئے تو اس واقعہ میں عبرت کا بہت ساراسامان پنہاں ہے ۔ واقعہ کے نفس ِمضمون پر غور کیجئے تو موت کی اصلیت سرحدادراک پر بے نقاب ہوجائے گی ۔ آپ پر قرآن کی اہم حقیقت منکشف ہو گی: اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے ( التکویر۔ آیت ۲۹ ) سو چئے ہماری پہلی گاڑی دیارِ حبیبؐ کی جانب رواں دواں تھی، بظاہر تیزگامی سے طویل مسافت کاٹے جا رہی تھی، ڈرائیور اپنی مستی میں نماز مغرب بھی موخر کر گیا، شاید عجلت میں تھا کہ قافلہ منزل ِمقصود سے ہمکنار ہو مگر اُس کے سان وگمان میں بھی نہ تھا کہ ٹائرپنکچر ہونے سے اس کی جلد بازی دھرے کی دھرے رہے گی ۔ چنانچہ اس کی توقعات کے عین برعکس گاڑی رب ذُوالجلال کی مشیت سے بیچ میں ہی اَٹک گئی ۔ کردہ ٔ الہٰی سے پہیوں کی گردش تھم گئی تو ڈرائیور چار وناچار سڑک کے بازو میں رُک گیا ۔ بیچ راستہ میں کوئی قافلہ درماندہ ہو تو کتنی تکلیف ہوتی ہے ، وہ بیان سے باہر ہے اور پھر جب قافلہ زائرین ِمدینہ پر مشتمل ہو جو نبیؐ کے شہر کو چومنے کے لئے بے تاب وبے قرار ہو تو صورت یہ بنتی ہے   ؎  
 عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب  
 دل کا کیا رنگ کروں خون ِ جگر ہونے تک 
سفر مدینہ میں یہ رُکاوٹ ہم سب زائرین کے لئے ذہنی کو فت کا باعث بنی ، کسی سے تو صبر کا دامن چھوٹ گیا، کوئی پریشانی کے عالم میں یاسیت کا پیکر بنا لیکن کوئی کوئی برداشت کے جوہر دکھاتا۔ مزاج اپنا اپنا۔ چلئے درماندگان نے صحرا میں نماز کھڑی کر کے وقت کا بہترین مصرف ڈھونڈ لیا مگر دعاؤں سے فراغت کے بعد بھی نئی بس کاکچھ اور انتظار کر نا لازمی تھا باوجود یکہ بیش ترزائرین محسوس کررہے تھے کہ یہ لمحات کا انتظار نہیںیگوں کی بے کلی ہے ۔ وجہ ایک ہی تھی کہ ہم سب زیارتِ مدینہ کے لئے اپنی اپنی جگہ بے قرار تھے ۔ ایسے میں جونہی نئی گاڑی آگئی، مایوسی کے بادل یک قلم چھٹ گئے ، ہر جبین سے ناگواری کے آثار غائب ہوئے بلکہ سب میں برقی حرکت کوندگئی، سب اپنااپنا سامان نئی گاڑی میں رکھنے میں مشغول ہوئے ۔ کاروان ِ مدینہ پھر ایک بار سُوئے حرم چل دیا۔ دوست ! یہی مثال سفر زندگی کی ہے۔ آپ شاہراہِ حیات پر اندھا دُھند کہیں جارہے ہیں، نگاہیں اپنی خواہشات، مرضیات ، منصوبہ جات پر مر کوز ہیں ۔ آپ اپنے اہداف اورمرادوں کی منزل کی جانب سرپٹ دوڑ رہے ہیں ، اسباب اوروسائل کا ساتھ بھی ہے ، حالات کی موافقت بھی ہے مگر آپ کے
 حاشیۂ خیال میں بھی نہیں کہ اللہ کی مرضی سے، اس کی حکمت ِبالغہ سے آپ کے بڑھتے قدم یک بہ یک کسی نامعلوم پڑاؤ پر رُک جانے ہیںکسی اَن چا ہی مصروفیت کی بناپر ، کسی لاعلاج بیماری کے سبب، کسی جانکاہ حادثے کی وجہ سے، سیلاب زلزلہ طوفان کی زد میں آنے سے ۔۔۔ اور یہ چاہے گھر ہو ، بازار ہو ، صحرا ہو، بیابان ہو ، سڑک ہو، شفاخانہ ہو ، آپ اپنوں کے سامنے ہو یاغیروں کے ہجوم میں، کہیں بھی کبھی بھی باذن اللہ سانسوں کی آمدورفت تھم گئی توپلک جھپکنے کی دیر میں آپ کی کاوشوں کااُڑن کھٹولہ پر بریدہ ہو کر گر جائے،خوابوں کا قافلہ راہ بھٹک جائے، زندگی کا پہیہ ٹھپ ہو جائے، اسباب جفاکریں، وسائل دغا دیں، حالات کی موافقت اپنادامن جھاڑ دیں، علاج ومعالجہ اَکارت جائے، دعائیں بے اثر ثابت ہوں اور زندگی روح کے بندھن توڑکر آپ کو یک بار مشت ِ خاک میں بدل دے۔ آپ کو اب پہلی گاڑی سے اُترکر نئی گاڑی (تابوت یا قبر) میں بیٹھنا ہوگا تاکہ ایک دوسرے جہاں کا اَن دیکھا سفر شروع ہو۔ دنیا اس نقل مکانی کو موت کہتی ہے مگر یہ سفر زندگانی کے پہلے پڑاؤ کی تکمیل ہے ۔ اب آگے کے نامعلوم پڑاؤ کا سفر آپ کو تن تنہا طے کرنا ہوگا، سگے سمبندھی چند قدم بھی ساتھ نہ آئیں گے ۔ آپ چارو ناچار پہلی گاڑی سے اُترگئے تو آپ کے ساتھ اپنے اعمال کی پوٹلی خود بخود اُتر کر آپ کے ساتھ اَٹوٹ رشتہ کے ناطے گلے پڑے گی، او ر نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو یہ پوٹلی اپنے کندھے پررکھ کرعالم ِ برزخ کی طرف کوچ کر نا ہوگا ، پھر وقت مقررہ پر قیامت بر پا ہوگی،خدائی عدالت کا ایوان سجے گا، قدقدم نفس نفس آپ کا ساتھ دینے والی اعمال نامے کی یہ پوٹلی  گھر کے بھیدی کی طرح عدالت ِالہٰیہ کے روبرو گواہی دے گی کہ دنیا کے سفر میں آپ نے سعید وں کے ثواب کمائے یا شقیوں کے گناہ سمیٹے، آپ ا نکار بھی کریں تو ناہنجار پوٹلی آپ کے ا عضاء وجوارح سے آپ کے کرتوتوں کی شہادت اور ثبوت پیش کر وا ے گی، سربستہ راز کھل جائیں گے ، چہرے بے نقاب ہوں گے ، پوشیدہ حقائق ایک ایک کر کے بول اُٹھیں گے اور پھر جب عدل کے ترازو میں آپ کے تمام نیک وبد اعمال تولیں جائیں گے تو اس پراجر یاسزا کا اَٹل فیصلہ خدا کی عدالت سنایا جائے گا ۔ آپ ہر دوسرے فرد بشر کی طرح شدید پیاس سے نیم جان ہوں گے ، اُمت محمدیؐ کے دیگروابستگان کی  طرح العطش العطش کر تے ہوئے جب غم خوارِ انسانیت ، شافع محشرساقی ٔ کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں پیاس بجھانے جائیں گے تو آپ ؐ کوآب ِ زُلال کاجام لئے سب کا منتظر پائیں گے لیکن خود اپنے ضمیر سے پوچھئے کیا آپ وہ خوش نصیب ہیں جو محشر کی اس قیامت خیز گھڑ ی میں آپ ؐ سے آمنا سامنا کر نے کی قابلیت اور جرأت رکھتے ہیں ؟ آپ ؐ سے آنکھیں چار کر نے کی ہمت کون کرے گا ؟وہ جو آپ ؐ کی اتباع میں جان وتن سے فدا ہو یا وہ جو آپ ؐ کی تعلیمات وہدایات سے باغی ہو ؟ 
  ہم جانتے ہیں کہ آپؐ کی ذات مقدس میں اللہ تعالیٰ نے خیر کثیر، بے انتہاسعادتیں اور اَن گنت بھلائیاں سمودیں جنہیں آپ ؐ نے بلا کسی تفریق وتمیز خلق اللہ میں تقسیم کیا لیکن آخرت میں یہ خوضِ کوثر کی صورت میں نعم ہائے بہشت آپؐصرف اپنی ا ُمت میں لٹا دیں گے۔ خوضِ کوثر میدان محشر اور نہر کوثر جنت کی وہ عزتیں و سعادتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام میں صرف اور صرف آپؐ کو سونپ دی ہیں۔ آپ کا فرمودہ ٔ گرامی ہے : کوثر ایک خوض ہے جس پر میری اُمت قیامت کے روزواردہوگی( مسلم کتاب الصلوٰۃ ) نیز فرمایا :میں تم سب سے پہلے وہاں پہنچا ہواہوں گا اور تم پر گواہی دوں گا اور خدا کی قسم میں اپنے خوض کو ا س وقت دیکھ رہاہوں( بخاری کتاب الرقاق)۔خوض کوثر کو بھرنے کے لئے جنت کے دو پرنالوں سے پانی لایا جائے گا( مسلم کتاب الفضائل )۔ اس خوض کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ، برف سے زیادہ ٹھنڈا ، شہد سے زیادہ  میٹھا ہوگا۔ اس کی تہہ کی مٹی مشک سے بھی زیادہ خوشبو دار ہوگی ،ا س پرا تنے کوزے رکھے ہوں گے جتنے آسمان میں تارے ہیں۔ جو اس کا پانی نوش کرے گا،ا سے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی سیراب نہ ہوگا۔ آپ ؐ نے یہ پیش گوئی بھی فرمائی کہ میرے بعد تم میں سے جولوگ بھی میرے طریقے کو بدلیں گے اُن کواس حوض سے ہٹادیا جائے گا اور اس پرا نہیں نہ آنے دیا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ میرے نام لیوا اُمتی ہیں تو مجھ سے کہاجائے گا کہ آپؐ کو نہیں معلوم کہ آپؐ کے بعد انہوں نے کیا کیا ہے ۔ پھر میں بھی اُن کو دفع کروں گا اور کہوں گا دورہو ۔ (بخاری ، مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ ) ۔ جسے پیغمبر رحمت  ؐ محشر کی صدمہ خیز گھڑی میں دُھتکاریں،اس کے لئے پھر کون سی جائے پناہ رہتی ہے ؟ ابن ماجہ نے تو اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ ایک حدیث میںنقل کئے ہیں کہ اگر’ گویم زبان سوزد‘ کے مصداق مجھ میں یارا نہیں کہ نوکِ زبان پر لا سکوں۔ میری زبان جل جائے، فرمایا ’فلا تسود وجھی‘ یعنی مرا منہ۔۔۔ نہ کروانا۔ استغفراللہ العظیم 
 شوق کے پنچھی نے مجھ سے سوال کیا :  دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے آپ میں ہمت ہے نبی ٔ رحمت ساقی ٔ کوثر  ؐ ؐکا سامنا حوضِ کوثر پر کرنے کی ؟ جواب اپنے ایمان ،اپنے ضمیر ،اپنے اعمال نامے کی باریک بینی سے جائزہ لے کر دیجئے گا ۔ علامہ اقبال اس کا یہ جواب دے گئے   ؎
تو غنی از ہر دوعالم من فقیر
 روز محشر عذر ہائے من فقیر
 ور حسابم را تُو بینی ناگزیر
 ازنگاہ مصطفیٰؐ پنہاں بگیر
 یعنی
 تو دوعالم کا غنی ہے ، میں گدا
 روز محشر کام اک کر نا میرا 
 ہاں چھپا کر دیجئے مالک مجھے
 مصطفے ٰ ؐ کے سامنے نامہ میرا
شوق کے پنچھی کا یہ تیکھا سوال میرے دل کے نہاں خانے میں نشتر بنے اُترکر میرے گناہ گارانہ وجود کو چھلنی کرگیا۔ میرے پاس سوائے بلک بلک کر رونے کے کوئی جواب نہ تھا،عافیت اسی میں سمجھی کہ نعت ِرسول مقبول صلعم کی حلاوت میں کھو جاؤں جیسے کچھ سناہی نہیں   ؎
مصطفیؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد دُرود
ختم دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اُس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام
اُس کی باتوں کی لذت پہ لاکھوں دُرود
اُس کے خطبے کی ہیبت پہ لاکھوں سلام
 اس کی پیاری فصاحت پہ لاکھوں دُرود
 اس کی دل کش بلاغت پہ لاکھوں سلام
جس طرف اُٹھ گئی دم میں دم آگیا
اس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں
اُس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
میٹھی میٹھی عبارت پہ شریں دُرود
اچھی اچھی اِشارت پہ لاکھوں سلام
 اور ہمارے قافلے کو مدینہ منورہ کی تقدس مآب عطربیزیاں اب قریب سے قریب تر محسوس ہورہی تھیں۔
 بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ،ان شاء اللہ 
�������
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

نجی ہسپتال اس بات کو یقینی بنائیںکہ علاج عام شہری کی پہنچ سے باہر نہ ہو:وزیراعلیٰ نیشنل ہسپتال جموں میں خواتین کی جراحی کی دیکھ بھال پہل ’پروجیکٹ 13-13‘ کا آغا ز
جموں
آپریشنز جاری ،ایک ایک ملی ٹینٹ کو ختم کیاجائیگا بسنت گڑھ میںحال ہی میں4سال سے سرگرم ملی ٹینٹ کمانڈر مارا گیا:پولیس سربراہ
جموں
مشتبہ افراد کی نقل و حرکت | کٹھوعہ میں تلاشی آپریشن
جموں
نئی جموں۔ کٹرہ ریل لائن سروے کو منظوری د ی گئی
جموں

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?