یواین آئی
نئی دہلی// مرکزی حکومت نے پیر کے روز سپریم کورٹ کو مطلع کیا کہ یمن میں ایک یمنی شہری کے قتل کے الزام میں سزائے موت پانے والی کیرالہ کی نرس نمیشا پریا کو بچانے کے لیے تمام ممکنہ راستے اختیار کیے جا چکے ہیں۔سپریم کورٹ میں نمیشا پریا کو سزائے موت سے بچانے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرنے کی ہدایت سے متعلق ایک عرضی کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس سندیپ مہتا کی بنچ کو بتایا کہ حکومت نے بات چیت سمیت تمام راستے اختیار کیے لیکن کوئی بھی طریقہ کامیاب نہیں ہوا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بات چیت کے ذرائع بھی استعمال کیے گئے۔ حکومت ہند جہاں تک جا سکتی تھی، جا چکی ہے۔ ہم نے وہاں کے پبلک پراسیکیوٹر سے بھی درخواست کی کہ سزائے موت کو معطل کر دیا جائے لیکن کچھ بھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔ یمن کی حکومت پر کسی بات کا اثر نہیں ہو رہا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس معاملے کو زیادہ عوامی نہیں بنایا۔ ہم نے وہاں ایک بااثر شیخ سے بھی رابطہ کیا لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہمیں غیر رسمی طور پر بتایا گیا کہ سزائے موت کو ملتوی کیا جا سکتا ہے لیکن واضح نہیں کہ واقعی ایسا ہوگا۔ یہ ایسا معاملہ ہے جہاں حکومت اپنی آئینی حدود سے باہر جا کر مداخلت نہیں کر سکتی۔جسٹس مہتا نے مشاہدہ کیا کہ عرضی گزار کا دعویٰ ہے کہ دیت کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ خاندان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ عزت کا معاملہ ہے اور وہ دیت قبول نہیں کرتے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اگر رقم زیادہ کی جائے تو ان کا رویہ بدلے گا یا نہیں۔ فی الحال معاملہ رکا ہوا ہے۔عرضی گزار کے وکیل نے کہا کہ اچھے لوگ بھی کچھ نہیں کر پا رہے کیونکہ معاملہ یمن سے متعلق ہے۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی ہاں، کچھ بھی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم یمن سے اتنا کہہ نہیں سکتے کہ ‘براہ کرم ایسا کریں’ اور وہ ہماری بات مان لیں۔عرضی گزار نے دیت کی رقم بڑھانے کی بھی پیشکش کی۔اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری بھی موجود ہیں اور مسلسل وضاحت کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ صبح 10.30 بجے بھی سزائے موت معطل کرنے کی درخواست کی گئی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یہ کوششیں الٹی بھی پڑ سکتی ہیں کیونکہ یہ نہایت حساس معاملات ہیں۔عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد کہا کہ ہم نے اٹارنی جنرل کی بات سنی۔ معاملے کی سماعت جمعہ کو ہوگی۔ فریقین ہمیں صورتحال سے آگاہ کریں۔