ڈاکٹر عریف جامعی
پیغمبران کرام علیہم السلام نے انسانیت کے سامنے توحید خالص کو پیش کرکے انسانیت کی جو فکری اور روحانی خدمت کی، انسان نے بالعموم اس کی قدر نہیں کی۔ یہی وجہ ہے خدا کی ان برگزیدہ ہستیوں کو ان کی حیات کے دوران طعن و تشنیع اور استہزاء کا نشانہ بنایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ کئی پیغمبروں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا اور کئی قتل بھی کئے گئے۔ اصل میں شرک اور توہمات کا عادی انسان یہ سمجھ نہیں پاتا تھا کہ ایک خدا کے تصور اور اس کے مطابق تشکیل پانے والے نظریۂ زندگی میں ہی انسانیت کی خیر پوشیدہ ہے۔
خدا کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی مشرکین اور منکرین حق نے، چند استثنائات کو چھوڑ کر، استہزاء کا نشانہ بنایا۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ سیدالانبیاءؐ کے ذریعے توحید کو بخشی گئی عالمگیریت اور ابدیت سے نہ صرف خفا ہیں، بلکہ خوفزدہ بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آئے روز نبی رحمتؐ کی شان میں گستاخیاں کرتے رہتے ہیں۔ تاہم منکرین کے اس رویے کا جواب یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ کو بیان کیا جائے، جنہیں دراصل رب تعالیٰ نے خود بیان فرمایا ہے۔ صحیح عقیدت مندوں نے ہمیشہ نبیؐ کی نعت کہہ کر ایسا کیا ہے۔ اس لئے ہم بھی آج نعت پر ہی بات کریں گے۔
دراصل توحید کے شجر طیبہ یا کلمۂ طیبہ نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک جدوجہد سے برگ و بار لائے۔ رسول اللہؐ نے نظریۂ توحید کے فروغ کے لئے جو محنت شاقہ انجام دی، انذار و تبشیر اس کے دو عنوانات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگزشت انذار و تبشیر ہے۔ یعنی آپؐ نے قرآنی تعلیمات کو عملی قالب عطا فرمایا۔ یہی معنی ہیں سیدہ عائشہ ؓ کے اس قول کا کہ ’’کان خلقہ القرآن۔‘‘ (مسند احمد) ام المؤمنینؓ کا یہ بیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری جدوجہد کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ بیان اس طرح آپؐ کی نعت ہے کیونکہ اس میں آپؐ کی ’’اچھی صفات ‘‘کا تعارف مختصر لیکن جامع الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سیدہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’تعریف ‘‘کی ’’جامع تفصیل‘‘ کو سامنے لایا ہے۔ یعنی قرآن عظیم (الحجر، ۸۷) سیدالانبیاء ؐ کے ’’خلق عظیم‘‘ (القلم، ۴) سے مؤمنین اور موحدین کو روشناس کراتا ہے۔
تاہم قرآن انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان کسی تفریق (البقرہ، ۲۸۵) کا روادار نہیں، اس لئے مختلف پیغمبروں کی نمایاں صفات کو قرآن میں جگہ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر حضرت ایوبؑ کو صابر (ص، ۴۴) اور حضرت ابراہیم ؑ کو اواہ، منیب (ہود، ۷۵) اور حنیف (الانعام، ۷۹) کہا گیا ہے۔ اسی طرح جہاں موسیٰ علیہ السلام کی صفت ’’تکلیم‘‘ (النساء، ۱۶۴) کا ذکر کیا گیا، وہیں عیسیٰ علیہ السلام کو ’’کلمہ ‘‘اور ’’روح‘‘ (النساء، ۱۷۱) کہا گیا۔ پیغمبران کرام علیہم السلام کو رب تعالیٰ نے ایسے القاب سے بھی نوازا ،جن سے ان کے تئیں خدا کے والہانہ اور مشفقانہ انداز کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت یونسؑ کے لئے ’’صاحب الحوت‘‘ (القلم، ۴۸) اور ’’ذا النون‘‘ (الانبیاء، ۸۷) کچھ اسی طرح کے القاب ہیں۔
تاہم رب تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کا ابدی انتظام آپؐ کے مبارک نام، ’’محمد‘‘صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی کیا۔ اس نام پاک کی بدولت آپؐ کو رب تعالیٰ نے لوگوں (قریش) کے سب و شتم سے محفوظ رکھا۔ چونکہ قریش اچھے خاصے زبان دان تھے، اس لئے اگر وہ آپؐ کی آپ ؐ کا نام لیکر برائی کرتے تو یہ اجتماع نقیضین ہوتا! اس لئے وہ ’’مذمم ‘‘کہہ کر آپ ؐ کی ہجو کرتے تھے۔ (نسائی) لیکن رب تعالی نے ’’عبس وتولی‘‘ (عبس، ۱-۱۱) کہہ کر بھی دراصل ان سرداران قریش کو تنبیہ کی کہ خدا کے نزدیک قدروقیمت متکبرین کی نہیں بلکہ ان مستضعفین کی ہے جو تزکیہ نفس اور آخرت کی جوابدہی کے بارے میں سنجیدہ ہوں۔
رب تعالیٰ نے سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ کس طرح متعین فرمایا، اس کا اندازہ لگانے کے لئے اس خطاب کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت کیا گیا جب آپ ؐ نے غزوۂ تبوک کے موقعے پر کئی لوگوں (منافقین) کو اپنے طبعی حلم کی وجہ سے رخصت دی تھی۔ اللہ تعالی نے اسی ’’نرمی ‘‘کے ساتھ رسول اللہؐ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی: ’’اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی۔‘‘(التوبہ، ۴۳) ظاہر ہے کہ خدا وند علیم و خبیر کو اس بات کا علم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی کا ہی یہ اثر ہے کہ لوگ آپؐ کی معیت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس ضمن میں خدا کا ارشاد ہے: ’’یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔‘‘ (آل عمران، ۱۵۹)
تاہم ’’ اصطلاح شعری میں نعت ایک مقدس، گراں مایہ، اہم اور کارآمد صنف سخن ہے جس میں شاعر کا محور فکر، محسن انسانیت، نبی آخر الزماں کی مقدس ذات گرامی اور اس ذات بابرکات کے متعلقات اور منسلکات ہیں۔‘‘ڈاکٹر جوہر قدوسی کے بقول ’’اس میں حب رسول کے ساتھ ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، توحید و رسالت کے فرق، عہد رسالت کے واقعات اور آیات قرآنی و احادیث نبوی سے مکمل واقفیت ضروری ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ واقعات رسالتمآب ؐ کی ولادت سے ہی شروع ہوتے ہیں۔ اس لئے نعت میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کو ہی موضوع بنایا جاتا ہے۔ ان محافل اور مجالس کے لئے جو ’’مولود شریف‘‘ لکھے جاتے ہیں، ان کا تقابل، این مری شمئل نے ’’کرسمس نغموں‘‘کے ساتھ کیا ہے۔ اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے ہمارے لئے جان ملٹن کی مسیح ؑکی پیدائش پر لکھی ہوئی غزل (نیٹوٹی اوڈ) کے تئیسویں بند کو دیکھنا پڑے گا، جس میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح مسیح ؑ کی آمد سے ’’ڈلفی کے ہاتف غیبی ‘‘کی آواز گنگ ہوگئی، جو قدیم یونان کے قانون دانوں، استعماری سالاروں اور مختلف مسالک کے بانیوں کو رہنمائی فراہم کرتی تھی۔ یہی نہیں بلکہ اپالو خود بھی بے بسی کی ایک چیخ مار کر اپنا مقدس (مندر) چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اسی طرح کا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اہل عرب خاص کر قریش “ہبل” کے ساتھ کرتے تھے، یعنی وہ کوئی بھی معاملہ ہبل کے نام پر کی گئی فال گیری سے ہی طے کرتے تھے۔ شاعر نے نہایت سادہ الفاظ میں نبی ؐ کی آمد کو اس صورتحال کا خاتمہ قرار دیا ہے:
لائے تشریف دنیا میں جب مصطفیٰ
بت گرے منہ کے بل قل ھواللہ پڑھا
’’فاستبقوا الخیرات‘‘(البقرہ، ۱۴۸) کے قرآنی اصول پر عمل کرتے ہوئے ہمارے ہاں خواتین نے اس کار خیر میں سبقت حاصل کی۔ زینت بی بی، جو دراصل زینب بی بی بنت سید محمد انور شاہ، ساکنہ بجبہاڑہ، ہیں، نے اپنا نعتیہ مجموعہ ’’گلبن نعت‘‘ مرتب کرکے نعت گو شاعرات میں اولیت حاصل کی۔ زینب بی بی محجوب نے اس مجموعے میں قرآنی اصطلاحات کو خوب برتا ہے:
عیاں والیل سے ہے وصف گیسوئے معنبر کا
سراسر والضحیٰ تعریف رخسار منور ہے
ترا وصف مقدس ہے الم نشرح لک صدرک
تری مدح و ثناء میں سورۂ والنجم و کوثر ہے
شاعرہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہونا اور بارگاہ رسالت میں یوں عرض کرنا:
ہوا ہے شوق بیماری میں تری نعت گوئی کا
تعالی اللہ کہ سیدھا آج کل میرا مقدر ہے
یا رسول عربی شاہسوار مدنی
دیکھ لے آکر مری خستگی و دل شکنی
انہیں ذات رسالتمآب ؐ کے ساتھ عقیدت میں علامہ اقبال کا پیش رو ثابت کرتا ہے، کیونکہ علامہ نے اپنی طویل جان لیوا علالت میں ’’پس چہ باید کرد‘‘ کی ایک طویل نظم میں ملتجیانہ انداز اختیار کرتے ہوئے لکھا تھا:
قم باذن اللہ گوئے او را زندہ کن
در دلش اللہ ھو را زندہ کن
کئی نعت گو شعراء نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب مساوات انسانیت کو بھی موضوع بنایا ہے۔ چودھری خوشی محمد ناظر کا یہ شعراس کی مثال پیش کرتا ہے:
کیا انسان کا ہمسر تو نے انسان
برابر کر دیا سب پست و بالا
امت مسلمہ کو بالعموم اور ملت اسلامیہ کشمیر کو بالخصوص درپیش معاشرتی اور سیاسی مسائل پر غلام احمد مہجور کا یہ شعر روشنی ڈالتا نظر آتا ہے:
پہنچئے گا داد کو، بے داد ہے بیداد ہے
لے رہا ہے کفر اسلامیوں سے انتقام
ملت کی بے عملی اور اس پر چھائے جمود کو غ۔ م۔ طاؤس نے اپنے ان اشعار کا موضوع بنایا ہے:
کہوں کیا داستاں اپنی کلیجہ منہ کو آتا ہے
مسلمان ویسے ہم بھی ہیں مگر ننگ مسلمانی
ہوئے محکوم کھو بیٹھے متاع آبرو مندی
گئی ہمت، گئی غیرت، گئی وہ شعلہ سامانی
قاری سیف الدین نے ایک دلنشیں شعر میں نبی ؐ کے نور ہدایت اور ختم نبوت کی بات کی ہے:
سلام اس روئے زیبا پر جو نور حق کا مطلع تھا
سلام اس پاک گوہر پر نبوت کا جو مقطع تھا
مرزا غلام حسن بیگ عارف نے بھی کئی نعتیں لکھی ہیں۔ ان کا یہ شعر رسول اللہؐ کے پیغام اخوت پر روشنی ڈالتا ہے:
وہ نور لم یزل جو رحمتہ للعٰلمین بھی ہے
اخوت کے اٹھایا جس نے پرچم کو محمد ہے
ڈاکٹر حیات عامر حسینی کے مجموعۂ کلام ’’شاخ طوبیٰ‘‘ میں کئی نعتیں شامل ہیں، جن میں ملت کی پامال صورتحال کو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
ہر گلی دہشت زدہ ٹھٹھری ہوئی
اک نگاہ پر کرم اے والضحىٰ
ڈاکٹر جوہر قدوسی نے بھی ملت کی زبوں حالی کو اپنی نعتوں کا موضوع بنایا ہے:
چھلنی ہے جگر، قلب ہے اپنا لہو لہو
زخمی ہیں پھول اور چمن خستہ حال بھی
میر غلام رسول نازکی، جن کا شمار وادی کے کہنہ مشق شعراء میں ہوتا ہے، کے نعتیہ مجموعہ ’’چراغ راہ‘‘ میں رسول اللہؐ کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کو قلبی واردات، وجدانی مشاہدات اور روحانی تجربات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے لئے یہ شعر کافی ہوگا:
میرا فردوس بریں کوئے رسول ہاشمی
شاخ طوبیٰ عکس گیسوئے رسول ہاشمی
چونکہ وجود و عدم کا راز بھی سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے کھولا، اس لئے وجود و عدم کی بات پر ہی بات ختم کریں گے۔ اس کے لئے حسن انظر صاحب کا یہ نعتیہ شعر مناسب رہے گا:
ہوئی وجود و عدم کی خلیج بھی روشن
دل و نظر کو عرب کا مہ تمام ملا
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج، سوگام میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
(رابطہ9858471965)
[email protected]