نذر عرش صہبائی

Kashmir Uzma News Desk
2 Min Read
ہوگیا ہے باغ صحرائی بہت
ہم بھی بھولے ہیں وہ لیلائی بہت 
زندگی بھر  آزماتا ہی رہا
 اپنے پن کی یہ سزا پائی بہت
بوالہوس ہر دور میں ہیں ذی وقار
 عشق نے پائی ہے رسوائی بہت
پھر بھی میں انساں کا انساں ہی رہا
خُو فرشتوں کی بھی گو پائی بہت
جس کا کوئی بھی نہ تھا ، اس کا ہوا
یہ ادا اُس کی ہمیں بھائی بہت
ہم سمجھتے تھے کہ ہم فارغ رہے
آخر ش ہم پر بھی بن آئی بہت
دوستی کی داد کچھ مت پوچھئیے 
بَرہمن سے شیخ نے پائی بہت
آدمی نکھرے ہے دکھ سے درد سے
رنگ پسنے پر حنا لائی بہت
پھر بھی اُترے زیست کے ویشو کے پار
 پتھروں پر تھی جمی کائی بہت
 کیا خبر ہم پر بھی ہو اُن کی نگہ
 بے رخی ہے ان کی ترسائی بہت
سادگی سے رہنے کا دیتے ہیں درس 
خود جو کرتے ہیں خود آرائی بہت
 بھائی نے دیکھا جو ہم کو خستہ حال
رونق اس کے چہرے پر آئی بہت 
تھا تصنع کا ملمع چھٹ گیا!
آئینہ نے شکل جھٹلائی بہت
جموں میں حاکم رہے خود مستِ عیش 
جھیلے ہیں دکھ ہم نے سرمائی بہت 
ایک اپنا پن جھلکتا دیکھ کر 
یاد آئے عرش صہبائیؔ بہت
 
سلطان الحق شہیدی
ستہ بونی لال بازار ، سرینگر ,9596307605
*جنوبی کشمیر سے بہنے والانالہ جس نے ستمبر 2014 میں تبادہ کن تاریخی سیلاب برپا کردیا۔
 
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *