عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اُردو زبان کئی ایک مسائل سے دوچار ہے اور علاوہ ازیں جہاں یہ زبان پیدا ہوئی ،پلی بڑھی اور جوان ہوئی بلکہ اپنے پائوں دور دور تک پھیلا دئے، وہاں کے اپنے لوگوں نے اپنے برتنے اور چاہنے والوں نے اس کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا ۔اس طرح کے منفی اثرات میںاگرچہ سچائی ہے مگر ساتھ میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایسے حالات میں اب اس زبان کا مستقبل کیسا ہے اور خاص طور پر اس کی پشت پناہی کس حد تک اور کتنی مضبوط و معتبر ہے ۔اُردو زبان جس طرح پوری دنیا میں مقبول ہے اور اس کی خوب پذیرائی اور آبیاری خاص طور سے یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا میں ہورہی ہے جب کہ وہاں بے شمار اردو کتابیں چھپتی ہیں اور جرائد و رسائل باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں ،اُس صورت سے تو اس کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی ہے۔اُردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک ثقافت ،ایک تہذیب اور ایک طرز زندگی کا نام ہے جو ہندوستان میں آباد مختلف طبقوں اور گروہوں کے میل ملاپ اور اشتراک سے وجود میں آئی ہے ۔یہ نہ صرف اندرون ِ ملک بلکہ دنیا بھر میں رابطے کی زبان ہے بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اس کا شمار تیسرے نمبر پر آتا ہے ۔یہ دنیا کے 70ملین لوگوں کی مادری زبان ہے یعنی دنیا کی آبادی میں 4.9فی صد انسان اس زبان کو بولتے ہیں جن میں بیشتر لکھتے اور پڑھتے بھی ہیں ۔بقول شاعر ؎
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اُردو آئے
جہاں تک اُردو کی پشت پناہی اور مدد و اعانت کا سوال ہے، اُس بارے میں میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ جب تک ہندوستان میں فلموں ،ڈراموں ،ٹی وی سیریلوں اور موسیقی خاص کر فلمی موسیقی زندہ ہے اور ان فنون کے ساتھ وابستہ کاروبار زندہ ہے، تب تک اُردو زبان کے زوال کے بارے میں سوچنا ہی گناہ ہے ۔موجودہ دور میں دوسری علاقائی زبانوں میں بننے والی فلموں جیسے پنجابی،بوجپوری ،مراٹھی ، گجراتی،تامل ،تیلگو وغیرہ سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہندی فلمیں بالی وڈ میں بنتی ہیں۔سابقہ دور میں سنسر بورڈ کی طرف سے کسی ایک آدھ فلم کا سرٹیفکیٹ (جیسے مرزا غالب ،چودھویں کا چاند ،شمع ،مغل اعظم ،پاکیزہ وغیرہ)اُردو دیا جاتا تھا، باقی ننانوے فیصد کا ہندی ملتا تھا جب کہ موجودہ دور میں سو فیصدفلموں کا سرٹیفکیٹ ہندی ہی ہوتا ہے ،اس کے باوجود بھی فلم کے جتنے گانے ہوتے ہیں وہ سب اُردو میں ہوتے ہیں اور اُردو شعراء کی ہی تخلیق ہوتے ہیں اور علاوہ ازیں ننانوے فی صد مکالمے (ڈائیلاگ) بھی ٹھیٹ اُردو زبان میں ہوتے ہیں ۔یہی حال اُن مدراسی فلموں کا بھی ہے جو کمرشل بنیادوں پر چلانے کی غرض سے ہندی میں ڈھب کی جاتی ہیں مگر اُن کے گانے اُردو شعراء کے لکھے ہوئے اُردو زبان میں ہی ہوتے ہیں اور مکالموں میں بھی ہندی الفاظ بہت کم سنائی دیتے ہیں۔
جہاں تک ٹی وی سیریلز کا تعلق ہے وہ گرچہ اکثر و بیشتر کیا بلکہ ننانوے فی صد ہندو گھرانوں اور خاندانوں کی سماجی زندگی کی کہانیوں پر مشتمل ہوتے ہیں مگر زبان کے بارے میں اُن میں کوئی کمپرومائز نہیں ہوتا۔اُن میں ہماری روز مرہ کی عام بول چال کی زبان ،رابطے کی زبان جسے دوسرے الفاظ میں اُردو کہا جاتا ہے ۔۔۔۔ہوتی ہے ، وہی زبان جو عوام الناس کو آسانی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے ،جس کو وہ بولتے،برتتے ہیں ،گھر میں ،گھر سے باہر،سوسایٹی میں ،جو آگے بھی مقبول تھی اور آج بھی مقبول ہے ۔ بقول حکیم یعقوب اسلم ؎
سب کی پسند ہے یہ ہر دل کی جستجو ہے
چرچا اسی زبان کا دنیا میں کوبہ کو ہے
پھولے پھلے ہمیشہ یہ سب کی آرزو ہے
ہندی زبان کی علامات یا ٹرمونولوجی (Termonology)بے حد مشکل ہے اور عام لوگوں کی سمجھ اور زبان پر بوجھ بن جاتی ہے ۔کیا ایک عام انسان کو یا ایک بچے کو ہوائی جہاز یا راکٹ کہنا یا سیکھنا آسان لگے گا یا وایویان یا انترکش یان ،ریل ،ریلوے سٹیشن ،سائیکل کہنا آسان ہوگا یا بھک بھک واہن ،بھک بھک منڈل اور دوئی چکربا ؟؟؟مجھے ذاتی طور پر کسی بھی زبان کے ساتھ کوئی تعصب یا نفرت نہیں البتہ سچ اور انصاف کی بات کہنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے ۔بقول پروفیسرغضنفر علی صاحب ؎
’’لفظ صدائے سحر ساز بھی ہے اور نوائے دل نواز بھی۔لفظ کی سحر سازی یہ ہے کہ لفظ کبھی تصویر بن جاتا ہے ،کبھی سُر میں ڈھل جاتا ہے ،کبھی تال میں تبدیل ہوجاتا ہے اور کبھی رقص کرنے لگتا ہے۔‘‘
اب اگر لفظ ہی گراں ہو،ثقیل ہو ،بولنے میں مشکل ،سمجھنے میں مشکل پھر کہنے میں بھی مشکل تو وہ کیسے عام بول چال یا لوگوں کی زبان کی زینت بن سکے گا۔ابھی کچھ ہی دن ہوئے مطلوبہ ٹی وی چینل کو کھوجتے وقت مجھے ایک جگہ رُکنا پڑا کیونکہ ایک ہندی ڈرامے (سیریل) کا ایک پاتر یعنی کردار دوسرے ساتھی سے کہہ رہا تھا:
’’ارے یار !یہ بہار کا موسم بڑی مستی اور دلکشی کا ہوتا ہے ،جسم کے اَنگ اَنگ سے خوشبوئیں پھوٹنی لگتی ہیں ۔خاکسار کو رمیش یادو کہتے ہیں ۔‘‘
میں سوچنے لگا ،کمال ہے ! اگر یہی ہندی زبان ہے تو پھر ہندی کو یقیناً قومی زبان ہونا ہی ہونا چاہئے ۔بہر حال چلتے چلتے سنتے جائیں کہ منشاء الرحمٰن خان منشاؔ اُردو زبان کے بارے میں کیا کہہ گئے ہیں ؎
ہر زبان پر اس کی نکہتوں کے چرچے ہیں
یہ بذات خود گل ہے اور گل فشاں بھی ہے
لفط لفظ میں اس کے اک عجیب حلاوت ہے
خود لذیذ ہوکر یہ لذتوں کی جان بھی ہے
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
……………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر