اُردو ہی وہ واحد زبان ہے جس نے ہندوستانیوں میں بلا تفریق مذہب و ملت ایک سیاسی شعور پیدا کیا ،ا فرادو اجتماع کو بیدار کیا اور جدو جہد آزادی میں پیش رو کی حیثیت اختیار کرلی۔اسی زبان نے ہندوستانی قوم کو ترانہ ہندی دیا جو آج بھی سلوگن کے طور پر گلی کوچوں میں،جلسے جلوسوں میں ،کالجوں اور سکولوں میں گایا جاتا ہے اور ہرچھوٹی بڑی تقریب کا حصہ بنتا ہے ۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ وہ لوگ اُردو زبان کے دوست یا چاہنے والے کیسے بن سکتے ہیں ،جنہوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ برعکس اس کے انگریزوں کے حلیف بن کر مجاہدین آزادی کی مخبری کرکے اُن کو پھانسیاں ،قیدیں اور جیلیںدلوائیں؟
اب ایسا بھی نہیں کہ اُردو زبان بڑی آزادی کے ساتھ آزادانہ فضائوں میں سانس لے رہی ہے ۔ساون میں جھولے جھولتی ہے اور ہر پینگ پر میر ؔو غالبؔ و ذوقؔ کے ساتھ ساتھ داغؔ و جگرؔ و فراقؔ کے شعر گنگناتی ہے اور نوح و قمر و نقش و فیض کے نغمے گنگناتی گاتی ہے ۔نہیں ! بلکہ اس کو بے حد مشکلات اور تکالیف کے ساتھ بھی نبرو آزما ہونا پڑتا ہے ۔اپنی بقاء کے لئے اپنے ہی وطن مالوف میں ناکوں چنے چبانے پڑتے ہیں۔اب ذرا اسی بات کو لیجئے کہ مختلف تعلیمی اداروں خاص طور سے ابتدائی ،مڈل اور ہائی سکولوں میں جو بچے اپنی مادری زبان ہونے کے تعلق سے اُردو پڑھنا چاہتے ہیں اُن کی پذیرائی یا حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی بلکہ اُن کو اُردو کی بجائے کوئی علاقائی زبان یا سنسکرت لینے کے لئے آمادہ کیا جاتا ہے ،بصورت دیگر اُن کا داخلہ رد کردیا جاتا ہے ۔پڑھنے کے شوق میں مجبور ہوکر اُن کو ویسا ہی کرنا پڑتا ہے ۔
جہاں پہلے ہی سے اردو مضمون کے ساتھ بچے کلاسوں میں ہوتے ہیں تو اُن کو پڑھانے کے لئے اُستاد بھیجا جاتا ہے اور نہ درسی کتابیں مہیا کرائی جاتی ہیں ۔سارے بھارت میں مجوزہ قانون اور نافذ ہدایات کے مطابق اساتذہ کی بھرتی ہر سال ریاست میں ہوتی رہتی ہے مگر اُردو پڑھانے والے اساتذہ کی بھرتی جان بوجھ کر نہیں کی جاتی ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ سال دو سال سنسکرت یا ایسے ہی کسی مضمون جو اُس پر نہ چاہتے ہوئے زبردستی ٹھونسا جاتا ہے ،کے ساتھ سر کھپائی کرتا ہے اور اُس عمل میں فلاپ ہونے کے کارن وہ پڑھائی کو خیرباد کہہ دیتا ہے اور کسی روزگار والے کام سے جُڑ جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بشمول موٹر میکنک وادی میں ہر کام و حرفت سے تعلق رکھنے والے چھوٹی عمر کے بچے اور نوجوان لوگ اپنی رروزی روٹی کے چکر میں چلے آتے ہیں ۔اُن آنے والوں میں مسلمان بچوں کی باتیں سنئے داستان ِ حسرت یہی تعصب اور گھو رنفرت کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا ۔مرحوم رفعت سروش نے ایک بار یوں کہا تھا ؎
یہی زبان جسے اُردو زبان کہتے ہیں
اسے مٹانے کی سازش عجیب سیاست ہے
ہماری قوم کی یہ مجرمانہ غفلت ہے
زبان ہی نہیںیہ نغمہ ٔ اخوت ہے
ہزار سال کی تہذیب کی امانت ہے
کوئی بھی زبان اپنی ذات سے اچھی یا بُری نہیں ہوتی ۔یہ صرف اُس کے استعمال کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ زبان کی وساطت سے دلوں کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں یا توڑنے کا ۔اس بات میں ہرگز دورائے نہیں ہوسکتی کہ اُردو زبان کی برسہا برس پر مشتمل روایات میل جول ،بھائی چارہ ،اتحاد اور سیکولر مزاج کی رہی ہے ،تعصب ، تنگ نظری اور رجعت پسندی اور بغض و عناد کی نہیں ۔اس زبان کا پیغام ہمیشہ سے ہی محبت ،امن و آشتی اور انسانیت کا رہا ہے ۔
یہ بات بھی حق پر مبنی ہے کہ ہزار مشکلات ہونے کے باوصف بھی اُردو اپنی سادگی ،شرافت ،نغمگی اور مٹھاس کی وجہ سے نبر وآزما ہے اور اپنی حیات کو سنبھالے ہوئے ہے ۔اُس میں سب سے بڑا یوگ دان اُن شائقین اور محبان اُردو کا ہے جو مخالفانہ اور مخاصمانہ ماحول ہونے کی باوجود اس کو سینے سے لگاکر اس کی حیات کو احیائے نو کی جی توڑ کوششوں میں مصروف و مشغول ہیں ۔پنڈت امیر چند بہارؔ اپنی ایک رباعی میں کہتے ہیں ؎
اُردو کی کن الفاظ میں تو صیف کروں
کیوں حسن پہ اُس کے نہ فدا ہوجائوں
اُردو وہ زبان ہے جو تم بولتے ہو
اُردو وہ زبان ہے جو میں لکھتا ہوں
ہندی مسلمان خاص طور پر اُردو زبان سے منہ موڑ ہی نہیں سکتے کیونکہ اُن کا ساڑھے چودہ سو سالہ دینی سرمایہ سارا اسی زبان میں ترجمہ ہوکر تشریحات و توضیحات کے ساتھ موجود ہے۔یقینی طور پر عربی زبان سارے کے سارے مسلمان خاص طور پر ہندوستان کے اکثر و بیشتر مسلمان نہیں جانتے ،اس لئے اُن کے لئے دین سیکھنے کا واحد ذریعہ ٔ فقط اُردو زبان ہی ہے ۔جی ہاں ! اُردو زبان جس کے لئے ڈاکٹر نیاز سلطان پوری نے اس طرح سے سراہنا کی ہے ؎
مسلموں نے اسے سجایا ہے
ہندوئوں نے گلے لگایا ہے
صوفیوں نے اسے کھلایا ہے
دودھ سکھوں نے بھی پلایا ہے
کتنی پیاری زبان ہے اُردو
چلتے چلتے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ کشمیری زبان البتہ میٹھے انداز کے ساتھ روبہ زوال ہورہی ہے ۔اگلے کالم میں انشاء اللہ اُس پر بھی بات کریں گے ۔
(ختم شد)
……………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995