بانہال // اپنی آنجہانی بیٹی کو انصاف دلانے کی کوشش میں رام بن کا ایک کنبہ پچھلے دس ماہ سے در در کی ٹھوکریں کھارہا ہے۔ چیف منسٹر گریوینس سیل سے لیکر مرکزی وزیر صحت ، چیف ویجلنس کمشنر، میڈیکل کونسل آف انڈیا تک رسائی کے باوجود انکی فریاد ان سنی کر دی گئی ہے۔ جموں کے ایک نجی ہسپتال میں 13 اکتوبر 2016 کو ایک چھوٹے سے اپریشن کے بعد ڈاکٹروں کی مبینہ لاپرواہی سے جاں بحق ہوئی29 سالہ آشا دیوی زوجہ امت کمار ساکنہ رام بن ایک پانچ سالہ بیٹے کی ماں تھی اور اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ پیشے سے ٹیچر تھی۔ اس کی ہلاکت کے دوسرے روز 14 اکتوبر 2016 کو ستواری پولیس تھانہ میں ایک کیس زیر دفعہ304-A درج کیا گیا لیکن دس ماہ کا طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود بھی اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور پولیس پوسٹ مارٹم رپورٹ اور چارج شیٹ کو پیش کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ آشا کماری کو ادھ مری حالت میں نجی ہسپتال سے میڈیکل کالج جموں منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ا±سے مردہ قرار دے دیاتھا ۔اپنی لڑکی کو انصاف کیلئے آشا کماری کا والد چرن سنگھ اپنی اہلیہ اور داماد کے ساتھ ملکرہر اس دروازے پر دستک دے چکا ہے جہاں سے اسے انصاف ملنے کی امید تھی لیکن اب اس کا پورے نظام سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے ۔اس سانحہ کو بیان کرتے ہوئے چرن سنگھ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ا±ن کی بیٹی کی بیضہ دانی میں ایک چھوٹی سی رسولی تھی اور ا±س کے معمول کا علاج اور ٹیسٹ وغیرہ نرنجن ہسپتال گاڈی گڑھ ، ستواری ضلع جموں سے ڈاکٹر جسویر کور کے زیر نگرانی چل رہا تھا اور انہیں ڈاکٹرنے آپریشن کرنے کا مشورہ دیا تھا اور اور اس کیلئے 25000 روپئے کی رقم طے ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اچانک 12 اکتوبر کو نرنجن ہسپتال جموں سے فون کال پر ہمیں فوری طورپر آپریشن کیلئے جموں بلایا گیا اور اپریشن سے پہلے کئے جانے والے ضروری اور اہم ٹیسٹوں کے بغیر ہی آشا کماری کا اپریشن 13 اکتوبر 2016 کو صبح نو بجے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اپریشن کے فورا بعد ہوش میں آئی آشا کماری سخت تکلیف سے کرارہی رہی تھی اور ڈاکٹروں نے اسے درد کو کم کرنے والے کئی انجکشن لگائے لیکن آشا دیوی کی حالت مزید ابتر ہوتی گئی۔ چرن سنگھ نے بتایا کہ آشا دیوی کی حالت جب مزید خراب ہوگئی تو نرنجن ہسپتال کی انتطامیہ نے میری بیٹی کو فوری طور پر میڈیکل کالج جموں لیجانے پر زور دینا شروع کیا ، لیکن وہ مرچکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نجی ہسپتال کے وینٹیلیٹر پر آشا دیوی کی آنکھیں مرنے کی بعد کھلی ہی رہ گئیں اور ڈاکٹروں نے آنکھوں کو بند کرنے کیلئے ٹیپ چپکا کر بند کرنے کی کوشش کی ، اس عجیب حرکت کے بارے میں جب وہاں موجود عملے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مریض کو دوائی دی گئی ہے اور وہ ٹھیک ہے ۔چرن سنگھ نے بتایا کہ آشا کی لاش کو نجی ہسپتال کی ایمبولینس میں ڈال کر میڈیکل کالج جموں روانہ کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ خاتون کم از کم ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے مر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالج جموں میں لڑکی کو مردہ قرار دینے کے بعد آشا کماری کے ساتھ ایا نرنجن ہسپتال کا عملہ لڑکی کا میڈیکل ریکارڈ وغیرہ لیکر فرار ہوگیا اور بعد میں میڈیکل ریکارڈ کے کاغذوں میں قلم زنی کی گئی جبکہ مریض کے ساتھ اس کے شوہر امیت کمار کی اپریشن کیلئے رضامندی کے فارم پر بھی جعلی دستخط کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گورنمنٹ میڈیکل کالج اور ہسپتال میں آشا کماری کے رشتہ داروں نے ہنگامہ آرائی کی اور اسی دباو کے تحت پولیس نے ستواری جموں میں اگلی صبح دس بجے کیس درج کیا۔اس کے دس دن بعدعینی شاہدین کے دفعہ 161 کے تحت قلمبند کئے گئے بیانات کے باوجود بھی جموں پولیس اس کیس میں مسلسل عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ملوث ڈاکٹر کو بچانے اور کیس کا چارج شیٹ عدالت میں داخل کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دس ماہ بعد بھی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی نہیں دی گئی، پولیس اور محکمہ صحت کے حکام سے کوئی توجہ نہ ملنے کے بعد انہوں نے اس کیس کی تحقیقات اور ڈاکٹروں اور ہسپتال کے خلاف کاروائی کرنے کی مانگ کو لیکر ریاستی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کی گریوینس سیل ، ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز جموں ، چیف ویجیلینس کمشنر، میڈیکل کونسل آف انڈیا ، مرکزی وزیر برائے صحت جے۔ پی نڈہ، ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ، وزیر اعظم نریندر مودی اور چیرمین سٹیٹ ہومین رائٹس کمیشن سے خط وکتابت کے ذریعے اپنی رودداد بیان کی ہے۔ اگر چہ وزیر اعلیٰ کے گریوینس سیل کی ہدایت پر ہمارے بیانات محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران کے پاس درج ہوئے لیکن کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ اس طرح ایک پانچ سالہ بچہ اپنی والدہ کے قتل عمد کےلئے قصور وار افراد کو سزا دلانے کا ہنوز منتظر ہے ۔