رئیس یاسین
کشمیر۔۔۔!یہ وادی صرف پہاڑوں، جھیلوں اور بہتے چشموں کی نہیں، یہ خواب دیکھنے والوں کی دھرتی ہے۔ لیکن آج ان خوابوں کے رکھوالے، وہ چراغ جو آنے والی نسلوں کا راستہ روشن کرتے ہیں،خود اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ہمارے اساتذہ! وہ جو صبح کی ٹھنڈی ہوا میں کتابوں کا بوجھ نہیں نسلوں کا مستقبل اٹھائے نکلتے ہیں۔ آج چند ہزار کی حقیر تنخواہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سات ہزار، آٹھ ہزار!یہ ان کی محنت کا صلہ ہے؟ وہ محنت جس میں ان کی جوانی، ان کی صحت اور ان کے خواب سب جل کر راکھ ہو گئے؟
کلاس روم میں وہ مسکراتے ہیں، بچوں کو علم دیتے ہیں، لیکن دل میں زخم لئےہوئے۔ اُن کے چہروں پر مسکراہٹ، اندر بھوک، فکر اور کل کا خوف۔ رات کو وہ کتاب نہیں، بجلی کا بل، کرایہ اور قرض کی پرچیاں پڑھتے ہیں۔
نجی اسکولوں میں استاد پر ہر قسم کا استحصال ہوتا ہے۔ وقت پر تنخواہ نہیں ملتی، بعض اوقات مہینوں کی محنت کے باوجود اجرت تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔ ان کو اپنے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، یہاں تک کہ سالانہ اضافہ، بیماری کی چھٹی یا نوکری کا تحفظ بھی خواب بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت ان کے لئے کوئی واضح پالیسی نہیں بناتی، اور نجی اسکول مالکان اپنی من مانی میں چلتے ہیں، جیسے ان پر کوئی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا، گورنمنٹ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
جب تعلیم ایک مقدس مشن کے بجائے صرف معاش کا ذریعہ بن جائے تو قوم میں تباہی پھیلتی ہے۔ والدین ہزاروں روپے فیس اور ٹیوشن فیس میں دیتے ہیں،ایک بچے پر تین سے چار ہزارروپے،لیکن جس استاد پر وہ نسل کا مستقبل چھوڑتے ہیں، اس کی تنخواہ محض سات ہزار! کیا یہ کھلا ظلم نہیں؟ اس پر ظلم کی انتہا یہ کہ ایک ہی استاد سے چھ چھ، سات سات کلاسز پڑھوائی جاتی ہیں، جیسے وہ انسان نہیں، ایک مشین ہو۔
یہ صرف استحصال نہیں، یہ اس مقدس پیشے کی بے حرمتی ہے جو پیغمبروں کا ورثہ ہے۔ استاد آج کا جدید غلام ہے،زنجیر نہیں، غربت اور مجبوری اس کو باندھ رہی ہے۔
والدین بھی سب جانتے ہیں، لیکن ڈرتے ہیں کہ کہیں آواز اٹھانے سے ان کے بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جس استاد کا پیٹ خالی ہو، اس کے الفاظ میں جان کہاں سے آئے گی؟ جس کے دل میں زخم ہوں، وہ دلوں میں محبت اور علم کے بیج کیسے بوئے گا؟
یہ معاشرہ اگر اپنے استاد کو روٹی کے لیے ترساتا ہے تو یہ اپنی آنے والی نسل کو جہالت کے حوالے کرتا ہے۔ یہ قوم اگر اپنے استاد کو عزت نہیں دیتی تو یہ اپنے زوال کی تاریخ خود لکھ رہی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ پرائیویٹ اسکول اساتذہ ایک آواز بنیں۔ایک مضبوط، بے خوف اور خودمختار اساتذہ یونین کے ذریعے اپنے حق کا مطالبہ کریں۔ مناسب تنخواہ، نوکری کا تحفظ اور قابلیت کی بنیاد پر بھرتی ،یہ کوئی احسان نہیں، یہ انصاف ہے۔قلم تلوار سے طاقتور ہے، لیکن جب ہاتھ بھوکے ہوں، قلم کانپتا ہے!اور جب قلم گر جائے، تو کتاب کا صفحہ خالی رہ جاتا ہے اور خالی صفحے کبھی تاریخ نہیں لکھتے۔