سرینگر//جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ وادی کے نجی تعلیمی اداروں میں مڈل کلاسز تک سرکاری نصاب کے جبری اطلاق کی جو کوششیں محکمہ تعلیم کی طرف سے کی جارہی ہیں‘ یہ عوام کے حق تعلیم کے بنیادی حق کی صریح پامالی ہے اور اُن کے ساتھ ایک بدترین امتیازی سلوک ہے۔ محکمہ تعلیم کے جس حکم نامے کو یہاں جبراً نافذ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘ جموں کے علاقے میں اس کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ نیز وادی کے مشینری اور دیگر بڑے بڑے اسکولوں مثلاً دہلی پبلک ، برن ہال، بسکو، کانونٹ نامی اسکولوں جیسے تعلیمی اداروں کو مستقل رجسٹریشن ملی ہوئی ہے جبکہ مقامی سطح کے پرائیویٹ اسکولوں کو سال دوسال سے زیادہ مدت کے لیے رجسٹریشن بھی نہیں دی جاتی ہے۔ یہ واضح طور پر ایک امتیازی سلوک ہے جو کہ ایک خاص مقصد کے تحت روا رکھا جارہا ہے ۔ مقامی نجی اسکولوں میں تعلیمی معیار یہاں کے سرکاری اسکولوں سے بہتر ہے اور وہاں مروجہ علوم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیتی تعلیم کا بھی اہتمام ہے۔ دراصل یہاں کی سرکاری انتظامیہ ان اداروں میں رائج اخلاقی تعلیم کو ختم کرانے کے درپے ہیں اور اپنی خفت مٹانے کی خاطر‘ سرکاری اسکولوں میں اصلاح احوال کے بجائے ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بربادی پر تلی ہوئی ہے۔ یہاں کے معروف بڑے بڑے اسکولوںمیں تعلیم دینے کے نام پر کشمیریوں کو لوٹا جارہا ہے جبکہ وہاں کا تعلیمی معیار کسی بھی صورت میں قابل تقلید نہیں ہے۔ وہاں زیر تعلیم بچوں کے اخلاق کو برباد کرنے کا ہرسامان مہیا ہے اور خیر و شر کے امتیاز کا وہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ یہاں کے سرکاری محکموں میں لوٹ مار اور رشوت ستانی کا جو بازار گرم ہے وہ ان جیسے اسکولوں کے تعلیمی نظام کی دین ہے۔جماعت اسلامی جموںوکشمیر‘ محکمہ تعلیم کے اس مذموم اور ناقابل قبول سرکیولر کو واپس لینے پر زور دیتی ہے جس کو وادی کے نجی تعلیمی اداروں میں جبری نفاذ کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ محکمہ تعلیم کے حکام اور دیگر عملہ کو نجی اداروں کو ہراساں کرنے کی کارروائیوں سے اجتناب کرنے اور سرکاری اسکولوں کی بدحالی کی طرف متوجہ ہونے کی تلقین کی جاتی ہے اگر وہ حقیقتاً یہاں کے تعلیمی معیار میں بہتری لانے میں مخلص ہیں۔