محمد امین میر
ہمارے ملک میں سرکاری ملازمتوں کے محدود مواقع کے باعث تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نجی شعبوںکی طرف رُخ کرتی ہے۔جن میں نجی تعلیمی ادارے، خاص طور پر اسکول بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن یہ شعبہ، جو علم و روشنی کا دعویدار ہے، خود اندرونی طور پر شدید استحصال کا شکار ہے — اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ یعنی اساتذہ ہے جو تعلیمی نظام کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
جموں و کشمیر کے نجی اسکولوں کی حالت اس استحصالی نظام کی واضح عکاسی کرتی ہے۔ ہزاروں تعلیم یافتہ اور باصلاحیت اساتذہ ایسے حالات میں کام کر رہے ہیں جو انسانی وقار اور معاشی کفالت کے بنیادی معیار کو بھی پورا نہیں کرتے۔ ان اسکولوں کی طرف سے تقرری کے اشتہارات میں ڈِگریوں اور تجربے کی بڑی سخت شرائط رکھی جاتی ہیں، مگر جب بات تنخواہ کی آتی ہے تو الفاظ ہوتے ہیں،’’تنخواہ قابلِ گفت و شنید‘‘۔ — یہ ایک خوبصورت دھوکہ ہے، جس کے پیچھے بدترین تنخواہ اور غیر یقینی مالی حالات چھپے ہوتے ہیں۔
اساتذہ کو طویل ’’تجرباتی مدت‘‘ پر رکھا جاتا ہے، جہاں یا تو انہیں معمولی تنخواہ دی جاتی ہے یا کچھ بھی نہیں۔ ان کا مستقبل اسکول انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، جس میں نہ روزگار کی ضمانت ہے نہ شفافیت۔ بیشتر اساتذہ کو 3000 سے 5000 روپے ماہانہ جیسے حقیر معاوضے پر کام کرنا پڑتا ہے ۔ یہ رقم ایک غیر ہنر مند مزدور کی آمدنی سے بھی کم پانچ گنا کم ہے۔ ہنر مند مزدور اپنی مشینری کے ساتھ کئی گنا زیادہ کماتے ہیں۔ اساتذہ کے لئے یہ تنخواہی تفاوت تدریسی پیشے کی انتہائی توہین ہے۔حالانکہ ان اساتذہ صرف کلاس روم میں موجودگی کے لیے نہیں رکھے جاتے۔ ان سے جدید تدریسی طریقوں سے واقف رہنے، نئی ٹیکنالوجی اپنانے اور ذہین و چالاک طلبا کی ضروریات پوری کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ مگر ایک ایسا اُستاد، جواپنی کم آمدنی سے اپنے بنیادی اخراجات تک پورے کرنے سے قاصر ہو، وہ تعلیم و تدریس میں سرمایہ کاری کیسے کرے گا؟کووڈ۔19 کی وبا ءنے اس بحران کو اور شدید کر دیا۔ کئی اسکولوں نے تنخواہوں کی ادائیگی مہینوں تک روک دی۔ ایک اُستاد نے بتایا کہ سال 2024 میں اسے صرف دو ماہ کی تنخواہ ملی۔ ایک اور واقعہ میں، ایک استاد کو اسکول سے تنخواہ لینے کے بعد واپس جانے کے لیے کرایہ تک نہیں تھا، جس پر ایک ڈرائیور نے اسے لفٹ دی۔ یہ کہانیاں کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ پورے نظام کی عکاسی کرتی ہیں۔
یہ رویہ نہ صرف کم از کم اُجرت کے قانون کی خلاف ورزی ہے، بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی پامالی ہے۔ ہم معاشرہ کیسا بن رہا ہے، جہاں نسلِ نو کے معمار اپنےعلاج، اپنی خوراک،یہاں تک آمد و رفت جیسے بنیادی مسائل سے بھی دوچار ہوں؟ظاہر ہے کہ ہر اُستاد کے پیچھے ایک خاندان بھی توہوتا ہے، جس نے برسوں کی محنت اور پیسہ صرف یہ سوچ کر خرچ کیا ہوتا ہے کہ ان کا تعلیم یافتہ بچہ ،اُ ن کے کے لئے سہارا بن جائے گا۔ لیکن یہ اساتذہ نہ صرف اپنے آپ کو پال سکتے ہیںبلکہ دوسروں کے لئے بوجھ بن رہے ہیں،اور کسی بھی طرح سے اپنے والدین اور خاندان کی امیدوں پر بھی پورے نہیں اُتر پا رہےہیں۔ ان کی اس حقیرتنخواہ میں نہ سالانہ اضافہ کردیا جاتا ہے، نہان کی کارکردگی پر کوئی انعام یا حوصلہ افزائی ملتی ،گویا ان کی ملازمت کی ایسی کوئی گارنٹی ہی نہیں ہے،جو وہ اس ظلم کے خلاف کوئی آواز بلند کرسکے،اگر کوئی آواز اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے یا بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے۔
اب یہ استحصال بند ہونا چاہیے۔ حکومت کو فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے۔ محکمہ تعلیم اور محکمہ محنت کو مل کر اس مسئلے پر ایک واضح اور مؤثر پالیسی بنانی چاہیے، جو نجی اسکولوں میں کام کررہےاساتذہ کی بھرتی، تنخواہ اور دیگر مراعات کو منظم کرے۔ اس کے لئےایک تنخواہ تعیناتی کمیٹی بھی بنائی جائے جو اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کرانےمیں اپنا کردار ادا کرسکے، سالانہ اضافہ اور کارکردگی پر انعامات کا نظام متعارف کروایا جائےاور ساتھ ہی ایک شکایات سیل قائم کی جائے، جہاں اساتذہ بلا خوف و ڈرکے اپنی شکایات درج کروا سکیں۔اُمید کی کرن اب بھی باقی ہے۔ سرسید میموریل ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ، ڈورو (جنوبی کشمیر) جیسے ادارے اس بات کا بیں ثبوت ہے کہ اس جیسےنجی تعلیمی ادارے اپنے اساتذہ کو عزت اور بروقت تنخواہ دے سکتے ہیں۔ یہ ماڈل پورے علاقے میں نافذ کیا جانا چاہیے تاکہ تدریس کا پیشہ ایک باعزت اور محفوظ ذریعہ معاش بن سکے۔خاموشی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ نجی اسکولوں کے اساتذہ کا درد اب نجی مسئلہ نہیں رہا بلکہ — یہ ایک قومی سوال بن رہا ہے جو ہمارے تعلیمی نظام، ہمارے اداروں کی اخلاقیات اور ہمارے سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔
[email protected]