رئیس یاسین
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہے اور اساتذہ اس نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سےپرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک اور خود ساختہ قوانین ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ ادارے اپنی من مانی پالیسیاں لاگو کرتے ہیں، جو اکثر ملکی قوانین اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہیں۔
پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کو ملازمت کے حوالے سے کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ انتظامیہ جب چاہے کسی استاد کو برطرف کر سکتی ہے، بغیر کسی قانونی نوٹس یا وضاحت کے۔ ان سے طویل اوقات تک کام لیا جاتا ہےاور اکثر سردیوں اور گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی اسکول کے کاموں میں مصروف رکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی ذاتی زندگی اور صحت شدید متاثر ہوتی ہے۔ نہ انہیں مناسب تنخواہ دی جاتی ہے اور نہ ہی دیگر سہولیات جیسے طبی سہولت، پنشن یا دیگر حقوق جو ایک ملازم کا بنیادی حق ہوتے ہیں۔ پرائیویٹ سکول کے مالک استاد کو ایک مشین کی نظر سے دیکھتا ہے جو ایک روبوٹ کی طرح کام کرے لیکن اگر ادارے میں بچوں یا استادوں کے ساتھ کوئی ناانصافی ہو رہی ہو تو اس کے خلاف آواز نہ اٹھائے۔
اساتذہ کو بہت کم تنخواہ دی جاتی ہے، لیکن دوسری جانب سردیوں کی چھٹیوں میں بھی انہیں اسکول بلایا جاتا ہے اور اسکول کا وہ کام بھی ان سے لیا جاتا ہے جو ان کے شایانِ شان نہیں ہوتا، جیسے کلاس رومز میں سٹنگ ارینجمنٹ کرنا، اسکول کی صفائی وغیرہ۔ اگر کوئی استاد ان ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے اسکول سے نکال دیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ قوم کے بے روزگار نوجوانوں پر رحم کرے اور نجی سکولوں کے لیے ایک پالیسی مرتب کرے جس سے اساتذہ کی عزت اور حقوق کا تحفظ ہو سکے۔
پرائیویٹ اسکول صرف اساتذہ ہی نہیں بلکہ طلبہ اور ان کے والدین پر بھی بلاجواز مالی دباؤ ڈالتے ہیں۔ بہت سے اسکول بچوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ مخصوص دکانوں سے ہی کتابیں، یونیفارم اور دیگر تعلیمی سامان خریدیں، جو عام بازار کی نسبت مہنگے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف غیر ضروری فیسیں لگا کر والدین کو مالی مشکلات میں ڈال دیا جاتا ہےاور کسی بھی قسم کی شفافیت کا فقدان ہوتا ہے۔ نجی سکول اب ایک قسم کا کاروبار بن چکا ہے جہاں تعلیم کے علاوہ سب کچھ فروخت ہوتا ہے۔
اساتذہ کے استحصال کے ساتھ ساتھ، غریب والدین پر بھی ظلم ہو رہا ہے۔ نجی سکولوں نے کاروباری روش اختیار کر لی ہے جہاں کتابوں سے لے کر وردی تک سب کچھ اسکول سے خریدنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی طالب علم نے ایسا موزہ پہنا ہو، جس پر اسکول کا ٹیگ نہ ہو تو اسے اسکول میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ حکومت ان معاملات پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کی انتظامیہ اکثر ملکی قوانین اور تعلیمی ضوابط کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اساتذہ کے لیے ملازمت کے معاہدے واضح نہیں کیے جاتے، نہ ہی انہیں قانونی تحفظ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح والدین سے غیر ضروری فیسیں وصول کی جاتی ہیں اور ان پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ سرکاری اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ اسکول اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں، جس سے ہزاروں اساتذہ اور طلبہ متاثر ہو رہے ہیں۔
۱۔حکومت کو چاہیے کہ وہ پرائیویٹ اسکولوں کے معاملات کی سخت نگرانی کرے اور اساتذہ کو ملازمت کا تحفظ فراہم کرنے کے لیے قوانین نافذ کرے۔
۲۔ والدین اور اساتذہ کو مل کر ان ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تاکہ اسکولوں کی من مانی کو روکا جا سکے۔
۳۔ پرائیویٹ اسکولوں کو شفافیت کے اصولوں پر عمل کرنے کا پابند بنایا جائے، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ والدین اور طلبہ پر غیر ضروری مالی بوجھ نہ ڈالا جائے۔
۴۔ اساتذہ کو مناسب تنخواہ، طبی سہولیات، اور دیگر ملازمتی حقوق دیے جائیں تاکہ وہ بہتر طریقے سے تدریس کے فرائض انجام دے سکیں۔
۵۔ حکومت کو چاہیے کہ اسکولوں پر پابندی عائد کرے کہ وہ والدین کو مخصوص جگہوں سے خریداری کے لیے مجبور نہ کریں۔
تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کیا جائے۔ اگر پرائیویٹ اسکولوں کی خود ساختہ پالیسیوں پر قابو نہ پایا گیا تو یہ نہ صرف تعلیمی نظام بلکہ پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ حکومت، والدین اور سماجی تنظیموں کو مل کر اس غیر منصفانہ نظام کے خلاف عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ایک منصفانہ اور معیاری تعلیمی ماحول قائم ہو سکے۔
[email protected]