Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

نجیب! تُو کہاں ہے بھائی۔۔۔؟؟؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: November 9, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
14 Min Read
SHARE
  اور دیکھتے ہی دکھتے ایک سال کا عرصہ گذر گیاتھا۔ ادھر انعام کی رقم بھی بڑھتے بڑھتے دس لاکھ روپے ہو گئی ۔ گویا انتظامیہ نے اپنے طور پرہی صحیح لیکن یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اس کی زندگی کی کتاب میںبس اتنے ہی دن درج تھے۔ جبھی تو روز افزوں انعامی رقم میںایک صفر کا اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔انتظار کی گھڑیاں طویل تر ہوتی جا رہی تھیں۔دن مہینے اور مہینے سال میں تبدیل ہو رہے تھے لیکن کہیں سے بھی اس کی بازیابی کی کوئی خبر نہیں آ رہی تھی۔ کوئی سراغ اس تک نہیں پہنچ رہا تھا۔۔۔ ٹی وی چینلوںاوراخباروں کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے دیگر وسیلوں سے اس کے سلسلے میں بس عجیب و غریب خبریں ہی نشر ہورہی تھیں۔نہ جانے کہاں چلا گیا تھا ، کس حال میں یاکن لوگوں کی قید میں تھا؟؟؟۔۔۔کانوں کان کسی کو خبرتک نہیں تھی۔نوٹ بندی کے اس عالم میںانتظامیہ اپنی نا اہلی کو نوٹ کے پتوںسے ڈھانپ لینے کی مسلسل کوشش کر رہی تھی۔
ایسا کیوں ہوا۔۔۔؟ کیونکرآخر یہ حادثہ پیش آ یا ۔۔۔۔۔؟ کیسے ایک گوشت پوشت کا مکمل انسان منظرعام سے غائب ہو گیا۔۔۔ ۔۔؟کسی کے پاس کوئی جواب نہیںتھا۔۔۔ آیا دھرتی میں سما گیا یانیلے آکاش نے اُچک لیا تھا ۔۔۔۔۔؟نیلگوں چیزوں سے تو آزادی،اعلی ظرفی اور وسعت کے معانی لئے جاتے ہیں۔۔پھر بھلا نیلے آسمان نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔۔؟ خاموشی۔۔۔دور تلک پھیلی مجرمانہ خاموشی۔۔۔شکوک و شبہات۔۔ ناراضگی ۔۔بد دلی۔۔مایوسی۔۔۔پھر ایک اُمید۔۔۔۔۔!!!!
یوں تو جگہ جگہ ’’یو آر انڈر ا  سکینر،۔۔آپ کیمرے کی نگاہ میں ہیں ،۔۔ تیسری آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔۔۔یا اُوپر والا آپ کو دیکھ رہا ہے۔۔۔ جیسے جملوں سے سجی تختیاں آویزاں تھیں ۔ اس کے علاوہ جدید تکنیک کی مدد سے ایسے ایسے آلات تیار کر لینے کے دعوے کئے جا رہے تھے کہ جن کی مدد سے سطح ِزمین پلیٹوں کی چال اور گہرے سمندر میں آبی جانوروں کی حرکات و سکنات پر گہری نگاہ رکھی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ رائی کے ہزارویں ٹکڑے پر بھی نظر رکھنے کے واسطے نظر نہ آنے والے کیمرے ایجاد کر لئے گئے ہیں جو یقینا ہماری تکنیکی کامیابی کی دلیل ہیں لیکن کیا ان جدید ترین آلات کی مدد سے ہم نے اس کودریافت کر لیا ۔۔۔۔یاہم نے اپنی گمشدہ چیز کو برآمد کر لیا۔۔۔۔ جسم کی ہڈیاں گن لینے والی ان گدھ نگاہ آلات سے کچھ حاصل ہوا یا اب بھی سب لاحاصل ہے۔۔۔؟کچھ حاصل ہوا ہو یا نہ ہو لیکن سوال بدستور قائم ہے ،جوں کا توں ۔۔۔وہ کہاں ہے۔۔۔۔؟ ؟؟
سوال اور جواب تو لازم و ملزو م ہوتے ہیں۔۔۔۔جواب کے بغیر کوئی سوال کہاں مکمل ہوتا ہے۔۔۔اب کیا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ جن سوالوں کے جوابات تک ہماری رسائی نہ ہو پائے یا بزورِ طاقت جواب ہی نہ دیا جائے تو وہ دراصل سوال ہی نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔؟  یا یہ کہ مظلومین کوسِرے سے سوال کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔۔۔ ؟یا حکمرانوں کے یہاں سوال کرناہی کلمۂ کفر کے مصداق ہے۔۔۔۔۔۔؟ جہاںزبان کھلتی ہے تو بس ’جی ہا ں‘ ، جی اچھا، بہتر ہے ،یا جی آ پ جیسا مناسب خیال کریں، جناب آپ جو بھی کریں گے بھلا ہی کریں گے‘۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ کہنے کے لئے ہیں۔۔ بصورت دیگرگدی سے زبان ہی کھینچ لینے کی وعید ہے۔۔۔!!!
طاقت چاہے دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی جب یہ عروج پر آتی ہے تو عموماًمطلق العنان ہوجاتی ہے۔ سارے فطری و غیر فطری قاعدے قانون طاقِ زینت بن جاتے ہیں۔ہر طرف نرِاجیت اور لا قانونیت کا راج ہوجاتا ہے۔تاریخی شواہدپیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔بد عقلوں پر بھی آج اشارے واضح ہو چکے ہیں۔دوام کسی بھی چیز کو حاصل نہیں ہے۔نہ دولت کو قیام ہے نہ حکومت کو بقاء۔۔۔۔صورت حال ہمیشہ یکساں نہیں رہتی اور بدلائو کا عمل تو ازل سے جاری ہے۔ ۔۔۔۔اپنی تمام تر عیاریوں کے باوجود عروج کو بھی آخر کار زوال ہوتا ہے۔طاقت کے دم پر کسی چیز پر دبائو یقینا بنایا جا سکتا ہے لیکن ہمیں یہ نہیںبھولنا چاہئے کہ دبائوکے عمل سے جو اُبھار پیدا ہوتا ہے وہ دبائو سے کہیں زیادہ طاقت ور اور دیر پا ہوتا ہے۔’’اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائو گے‘‘۔۔۔
جابر حکمرانوں کے جواب نہ دینے سے کمزور عوام کے سوال دم نہیں توڑ تے ہیں ۔یہ کشمکش نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔تاریخ میں ایسے واقعات کی کمی نہیںہے جہاں اجداد کے اعمال ِبد کی بھرپائی ان کی آئندہ نسلوں نے کی ہے۔سوال اپنا جواب جب تک نہیں پا لیتا ہے بدستور قائم رہتا ہے۔یہاں بھی یہی صورتِحال تھی یعنی سوال اب بھی پھن کاڑھے کھڑا تھا ۔۔وہ کہاں ہے ۔۔۔۔۔؟؟؟  خاموشی، ہر طرف خاموشی، مجرمانہ خاموشی۔۔۔۔۔۔۔!!! سوال اب بھی قائم ہے ا گرچہ سوال کرنے والوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے لیکن سوال بذاتِ خود اپنے آپ میں قائم ہے ،اور قائم رہے گا۔۔۔۔۔سوال پر اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ اس کو قائم کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے۔۔۔۔میاںتعداد تو جمہوریت میں آنکی جاتی ہے اور سوال کرنے کے لئے تو سر بھی نہیں تولے جاتے ہیں۔یہ بات اگرچہ بڑی عجیب سی ہے کہ آج جمہوریت میں سوال کرنے بھی پہرے بٹھا دئے گئے ہیں۔اس جمہوریت میں جن لوگوں نے ایسی گستاخی کی ہے ہم نے ان کے سینوں کو گولیوں سے چاک ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔۔۔۔۔  
چونکہ نسیان ہماری سرشت میں شامل ہے ۔ہم بڑے سے بڑا واقعہ بھی چند ایام کے بعد بھول جاتے ہیں۔یہی نہیں ہم اپنی ذات سے وابستہ واقعات بھی چند ایام کے بعد بھول جاتے ہیں۔ ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں پیچھے کی ساری چیزیں بھولتے جاتے ہیں یایوں کہہ لیں کہ ہمارے شعور کے کسی حصے میں محفوظ ہوتے جاتے ہے۔ لیکن قدرت کوہمیشہ ہر چیز ازبر رہتی ہے۔جب ہم خاموش ہوتے ہیں تو قدرت بولنے کے واسطے کھڑی ہو جاتی ہے۔جب ہم جواب نہیں دیتے ہیں تو یہ قدرت خود ہم سے جواب طلب کر لیتی ہے اور جب قدرت انتقام پر آتی ہے تو ایسے غیر سما جی عناصر اگلوں کو لئے جائے عبرت بن جاتے ہیں۔
شاید اسی وجہ سے اس جننی نے بھی اپنے سارے معاملات کو قدرت کے حوالے کر دیا تھا۔ جبھی تو اس پرتکیہ کر کے خاموش بیٹھ گئی تھی۔(حالانکہ قدرت اس بات کو افضل سمجھتی ہے کہ انسان ظلم و جبر اور جابروں کے سامنے سینہ سِپر ہو جائے۔شیشہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔) اس کی زبان پر اپنے لعل کے لئے بس چندروایتی قسم کے جملے تھے۔۔۔’’ ہائے نہ جانے کہاں ہوگا ۔۔۔؟کس حال میں ہوگا۔۔۔ ؟کیا کھایا پیا ہوگا ۔۔۔؟رحم فرما مولا۔۔دو جہاں کے مالک، تو تو رحیم و کریم ہے۔۔۔تیرے یہاں تو چھوٹی سے چھوٹی چیز کابھی انصاف ہوتا ہے۔۔ ۔مجھ پر اپنا خاص رحم فرما ۔۔۔ میرے لعل کو اپنی خاص پناہ میں رکھ۔۔۔۔ انصاف مانگتے مانگتے میں تیرے اِن بندوں سے ہار چکی ہوں ۔۔۔۔یہ کیسے لوگ ہیں جنھیں اقتدار حاصل ہو گیا ہے ۔ یہ ہماری یا ہم جیسے لوگوں کی نہیں سنتے۔۔۔ان کے کانوں تک ہماری صدائیں نہیں پہنچتی ہیں۔۔ ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔۔ مالک ِارض و سما !آخر کیسے لوگوں کو تونے خلافت ارضی کے لئے منتخب فرما لیا ہے۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔؟ مولا ! یہ تیرے حقیقی وارث نہیں ہیں ۔یہ تیرے اقتدار کو زک پہنچا رہے ہیں ۔۔مولا ، ان کی ہدایت فرما یا انھیں ان کو مقام عبرت پرپہنچا۔۔۔۔۔!!!  
مذاہب اور دین دھرم انسانیت کے لئے محفوظ پناہ گاہ ہوں یا کسی کی ذاتی میراث اور گدی نشینی کا ذریعہ ۔۔۔لیکن واقعہ یہی ہے کہ اس مظلوم انسان نے بھی اسی محفوظ پناہ گاہ میں زندگی کا ذائقہ چکھ لیا تھا ۔جہاں کی ماری آخر یہا ں نہ آتی تو کہاں جاتی۔۔۔ ؟کس کے سامنے گُہار لگاتی۔۔۔ ؟کو ن سنتا۔۔۔؟کون اس کی مدد کو آگے آتا۔۔۔؟ عدلیہ،جو یقینا ایک آزاد ادارہ تھا اورشا ید ہو بھی۔۔۔ اس نے بھی آنکھوں پر کالی پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔خدا جانے اس کالی پٹی کے پیچھے کیا فلسفہ چھپا ہے۔۔۔۔؟خیر سے اگر عدلیہ نے گرفت بھی کی تو معاملے کی پیرو ی کو ن کرے گا۔۔۔؟معزز وکیل صاحبان کی فیس کہاں سے آ ئے ؟ اور وہ وکیل ہی کیسا جو فیس پہلے نہ اصول کر لے۔۔۔؟یوں بھی عدالتیں مقدمات سے پٹی پڑی ہیں ۔ پھر تاریخ پر تاریخ ۔۔۔۔۔۔ دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ مجرمین ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں یا علاج و معالجہ کی سند پیش کر کے ملکوں ملکوں منڈرا  ر ہے ہوتے ہیں اور ملزمین سلاخوں کے اس پار سے ہی اپنی قضا کو پہنچ جاتے ہیں۔۔۔۔ میرِ عدل کو کہنا پڑ جاتا ہے کہ ’’یہاں عدالتیں بس امراء کے معاملات ہی رفع دفع کرتی ہیں ۔فلموں میں اس طرح کے ڈائیلاگ ہم سنتے ہی رہتے ہیں کہ ’’ عدالتیں توامیروں کے ہاتھوں میں لا ٹھیاں اور غریبوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھماتی ہیں‘‘۔
سوال بدستور قائم ہے، وہ کہاں ہے۔۔۔؟؟؟کوئی بتا دے وہ کہاں ہے۔۔نیلے آسمان تو ہی بتا دے۔۔۔؟ بادِ صبا، تُو توبتا دے آخر کہا ں ہے میرا جگر پارہ۔۔۔۔۔؟ زمین تُو تو خود ایک ماں ہے۔۔۔تُو تو ایک ماں کی پیڑا سمجھتی ہے نا۔۔۔۔۔؟ تجھے ممتا کی قسم،کوکھ جلے  تیری جو تُونے اب کسی کو جنا۔۔۔۔۔!!!
میںاپنے لالے کویہاں سے لے کردور چلی جائوں گی۔۔۔میں ایسی کوئی تعلیم نہیں دلائوں گی جس سے یہ کل کو کوئی سوال قائم کرے۔۔۔ میں ایک ماں ہوں ۔۔۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں کسی کے خلاف کسی طرح کی کوئی چارہ جوئی نہیں کروں گی۔۔۔۔۔لیکن عوام سے لے کر حکمران اورافسران تک سبھی خاموش تھے۔ زمین بھی اور آسمان بھی سر جھکائے کھڑا تھا ۔ صرف سوال گونج رہا تھا ۔۔۔ وہ کہاں ہے۔۔؟؟؟ 
کبھی کبھی ایسا بھی لگتا تھا کہ سوال بھی کہیں اس بد نصیب کی طرح گم نہ ہو جائے۔۔۔اس اندیشہ کا جواز یہ تھا کہ جہاں لوگوں نے سوال کرنا بند کر دیا تھا وہیں اس جننی نے بھی سوال کو قدرت پر چھوڑ دیا تھا ۔۔۔لوگوں کے سوال نہ کرنے کے پیچھے کیا وجوہات تھیں ۔۔۔؟ مصلحت پسندی، روشن مستقبل کی فکر، زنداں کی بے مروت سلاخیں،اسٹیٹ پاور کا خوف،بادشاہِ وقت کی آواز میں آواز ملا کر چلنے کی حکمتِ عملی، انڈر ٹیبل لین دین،یا پھر پے در پے بدلتے منظرنامے ۔۔۔ !!!
خیر وجہ جو بھی رہی ہو لیکن اہلِ خانہ کی خاموشی کے پیچھے کی مصلحت سمجھ سے بالا تر نہیں تھی۔۔۔۔وہ اب یہ کہتی تھی کہ میرے دل کے تار براہِ راست میرے لعل سے جڑے ہوئے ہیں ۔میں جانتی ہوں کہ وہ زندہ ہے جبھی تو میں اب تک زندہ ہوں ۔۔۔۔۔!!!
ان دنیاوی خدائوں سے ہار کر اپنے معاملات کو عدلیہ ،مقننہ ،انتظامیہ اور میڈیا کی موجودگی کے باوجود ساتویں آسمان پر موجود اس قاضی القضاتہ کی عدالت میں پیش کیا تھا جس کی آنکھوں پر کسی قسم کی کوئی کالی،لال ،ہری،زرد یا نیلی پٹی نہیں بندھی ہوئی ہے۔کہتے ہیں جہاں نہ کسی وکیل کی کوئی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی تاریخ پر تاریخ ملتی ہے۔جہاں نہ دیر ہے نہ ہی اندھیر ،جہاں بس انصاف ہی انصاف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
رابطہ :جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی۔
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ٹرمپ کے ٹیرف کے سامنے مودی کا جھکنا یقینی: راہل
تازہ ترین
سری نگر پولیس نے ’یو اے پی اے ‘کے تحت 1.5 کروڑ روپے کی جائیداد ضبط کی
تازہ ترین
شری امرناتھ یاترا: بھگوتی نگر بیس کیمپ سے قریب 7 ہزار یاتریوں کا چوتھا قافلہ روانہ
تازہ ترین
گرمائی تعطیلات میں توسیع کی جائے ،پی ڈی پی لیڈر عارف لائیگوروکا مطالبہ
تازہ ترین

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?