جس کا خدشہ تھا وہی ہوا۔نتیش کمار نے اپنا پالا بدل لیا اور بی جے پی کے ساتھ ہو لئے۔یہ سب انہوں نے اتنا آناً فاناً کیا کہ ایک بار پھر لوگ انہیں گھاگ سیاست داں سمجھنے لگے ہیں ۔اس دفعہ بی جے پی کی مرکزی حکومت اور گورنر نے بھی ان کی خوب مدد کی ۔گزشتہ ۱۲؍برسوں میں وہ ۶؍بار ایسا کر چکے ہیں اور ہر بار وہ ’’کامیاب و کامران‘‘ نکلے ہیں جس سے ان کی ہمت اور بڑھ گئی ہے لیکن اس دفعہ وہ اپنے اس گیم پلان میں کتنے کامیاب ہوں گے یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا ۔اگرچہ انہوں نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے اور بظاہر آج سب کچھ ٹھیک ٹھاک دکھائی دے رہا ہے لیکن آنے والے دنوں میں حالات کیا کروٹ لیںگے ،کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ لالو یادو اور کانگریس کے ووٹ جو اسمبلی میں اعتماد کے وقت پڑے ہیں ،وہ تمام کے تمام یک جٹ ہیںاور ۲۴۳؍ ممبران کی اسمبلی میں ۱۰۸؍ کی تعداد کوئی معمولی ہندسہ نہیں ہے۔ ایسے اشارے ملے تھے کہ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یونائٹیڈ کے چند ممبران نتیش کمار کے بی جے پی میں جانے سے ناراض ہیں اور وہ پارٹی چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں اپنے رائے دہندگان کا سامنا کیسے کریں گے؟ لیکن آج ایسا نہیں ہوا کیونکہ انہیں سوچنے کا موقع نہیں مل سکا اورایسا نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ووٹنگ کا نظام خفیہ نہیں تھا،اس لئے وہ اتنی ہمت نہیں کر سکے ۔شرد یادو اور علی انور دن بھر بغاوت کی پریکٹس کرتے رہے لیکن پارٹی کے اندر ان کی کیا حیثیت ہے ،انہیں ہی معلوم ہے۔البتہ جنتا دل کے چند مسلم اور یادو ممبرانِ اسمبلی اور سیکولرزم پر یقین رکھنے والے آج نہیں تو کل پارٹی سے ناطہ توڑ سکتے ہیں ۔
نتیش کمار کے اس قدم سے سیکولرزم کی تعریف مجروح ہوئی ہے اور ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا سیکولر کسے کہا جائے؟۴؍ برس پہلے تک نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ رہتے ہوئے مسلمانوں، دلتوں اور پچھڑوں کے ووٹ لیتے رہے لیکن اُس وقت بات دوسری تھی ۔ ساتھ رہتے ہوئے انہوں نے بی جے پی کے ساتھ ایک دوری بنائے رکھی تھی لیکن آج وہ بی جے پی کی گود میں بیٹھ گئے ہیں۔بی جے پی اب انہیں اپنے اشاروں پر نچائے گی اور ان کے پاس دوسرا کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔آگے چل کر بی جے پی وزیر اعلیٰ کی کرسی بھی مانگ سکتی ہے اور لا محالہ انہیں سجا کر دینا پڑ سکتا ہے،کلیدی وزارت کی بات تو اب کوئی معنی نہیں رکھتی یعنی کہ پوری طرح وہ بی جے پی کے جال کا شکار ہو چکے ہیں ۔انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ ۸؍ برسوں تک جب بی جے پی کے ہمراہ انہوں نے بہار پر حکومت کی تھی وہ دور واجپئی اور اڈوانی کا تھا اور اُس وقت کا ہندوستان کچھ اور تھا۔ہندو انتہا پسندی اتنے عروج پر نہیں تھی جس کا مشاہدہ آج پورا ہندوستان کر رہا ہے۔یہ بھی بات درست ہے کہ اُن برسوں میں کوئی فرقہ وارانہ فسادات بہار میں رونما نہیں ہوئے لیکن نتیش آج اس کی گارنٹی نہیں دے سکتے۔یوپی میں نظم و نسق کے جو حالات یوگی کی حکومت میں ہیں ،بہار میں بھی دُہرائے جائیں گے ،اس کا شدید خدشہ موجودہے ۔نتیش کمار کا استعفیٰ دینے کے بعد ایک بیان آیا کہ وہ کام نہیں کر پا رہے تھے یعنی کہ وہ گھٹن محسوس کر رہے تھے۔بدعنوانی کو وہ قطعی برداشت نہیں کر سکتے۔ بات درست ہے،کوئی بھی بھلا چنگا آدمی بظاہر بدعنوانی کی حمایت نہیں کر سکتا ، مگر کیا نتیش کے اختیار میں نہ تھا کہ وہ اپنے نائب(وزیر اعلیٰ)تیجسوی یادو کو برخواست کر دیتے ؟اُس کے بعدتیجسوی اور ان کے والد لالو یادو کا کیا ردعمل ہوتا ِوہ دیکھتے،پھر کوئی فیصلہ کرتے لیکن انہیں اُس اسکرپٹ پر کام کرنا تھا جو دہلی میں تیار ہوئی تھی۔پھر آگے پیچھے دیکھنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے اور اب’ ’سیاست‘ ‘اس مقولے میں اضافہ کیجئے یعنی سیاست میں بھی سب کچھ بھی جائز ہے ۔اسی کو اپناتے ہوئے شاید نتیش نے یہ چال چلی ہے۔
نتیش کمار کی یہ چال ملک کو کتنا نقصان پہنچائے گی ،اس کا اندازہ شاید انہیں نہ ہو۔ان کی مراد تو پوری نظر آرہی ہے لیکن اُن عوام کا کیا جنہوں نے ایک مخصوص نظرئیے کے خلاف ووٹ دے کر انہیں کامیاب کیا تھا۔یہ غلط نہیں کہ لالو کو بھی ضرورت تھی لیکن لالو سے زیادہ نتیش کو لالو کی ضرورت تھی کیونکہ نتیش ہی لالو کے پاس گئے تھے اور لالو نے ملک کے حالات کو سمجھتے ہوئے اپنے دیرینہ دشمن کو گلے لگا لیا تھا۔یہ لالو کی اعلیٰ ظرفی تھی ۔اس سے بڑی قربانی اُس وقت لالو نے پیش کی جب نتیش کی پارٹی سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے بعد انہیں ہی وزیر اعلیٰ رہنے دیا ۔وگرنہ وہ چاہتے تو اسی وقت اپنے بیٹے کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیتے اور نتیش اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ انکار یا بغاوت کر پاتے۔اس سے بھی بڑھ کرلالو پرساد یادو نے قربانی اُس وقت پیش کی تھی جب اسپیکر کا اہم عہدہ بھی نتیش کی پارٹی کے پاس رہنے دیا۔اگر لالو کے ذہن میں کوئی خرافات ہوتیں تو اسپیکر کا اہم عہدہ انہیں نہیں سونپتے کیونکہ ایسے وقتوں میں جب پارٹیوں میں توڑ پھوڑ مچتی ہے، اسپیکر کا رول اہم ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ جس پارٹی کا ہوتا ہے اُسی کی حمایت اور موافقت میں فیصلے کرتا ہے۔اس کی بے شمار مثالیں پڑی ہوئی ہیں ۔دراصل لالو جی سیاست میں اتنے تجربہ کار ہوتے ہوئے بھی بھولے بھالے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ نام کا اثر کسی کی شخصیت اور زندگی کے طور طریقوں اور قوتِ فیصلہ پر ضرور پڑتا ہے۔لالو کا یہ نام کوئی گھریلو نام نہیں ہے بلکہ صرف یہی ایک نام ہے جو اُن کی سرٹیفکٹ میں بھی درج ہے۔اس لئے دیہاتی بولی میں‘ یہ ہوئے تو ’للوا‘ ہی(لیکن یہی بات نتیش کمار کے لئے نہیں کہی جا سکتی )۔انہوں نے نتیش پر کامل یقین کیا اور کل تک یہ سمجھتے رہے کہ نتیش انہیں دھوکا نہیں دیں گے اور نہ ہی بہار کے عوام کو ٹھگیں گے۔نتیش نے اپنے عجلت پسندانہ قدم کاجو جواز پیش کیا وہ کسی کوہضم نہیں ہوتا کیونکہ ۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخابات میں جب انہوں نے لالو کے ساتھ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا تو اُس وقت لالو کوئی دودھ کے دُھلے نہیں تھے بلکہ چارہ گھوٹالے میں وہ ایک سزا یافتہ مجرم تھے اور اُس وقت ضمانت پر رہا ہوئے تھے ۔ دوسرے لفظوں میں اُس وقت کرپشن نتیش کمار کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا تو آج کیوں کر پیدا ہو گیا؟
غور کریں تو پتہ یہ چلے گا کہ کرپشن صرف روپے پیسوں یا زمین جائداد کا ہی نہیں ہوتا بلکہ نتیش کمار کے تناظر میں دیکھیں تو کرپشن ،پاور یعنی اقتدار کا بھی ہوتا ہے۔اسی’ ’پاور کرپشن ‘‘ کے تحت آج نتیش کمار اقتدار میں ہیں اور اُن کے نائب سشیل کمار مودی بھی اقتدار کا مزہ چکھنے لگے ہیں ۔ہندوستان کے عوام اگر کھلے اور تعصب سے پاک ذہن سے سوچیں تو کیا سشیل کمار مودی کو جو عہدہ ابھی ابھی ملا ہے، وہ عہدے کا کرپشن نہیں یا جو عہدے بی جے پی کے لوگوں کو جلد ہی ملیں گے کیا انہیں کرپشن نہیں کہا جائے گا؟ نتیش کمار کے لوگوں کو بھی جو عہدے دئے جائیں گے یا آزاد امیدواروں کو بھی جو وزارتیں دی جائیں گی،کیا وہ کرپشن کا حصہ نہیں ہوں گی؟دراصل نتیش کمار نے جمہوری نظام میں حزب اختلاف کو ختم کرنے کی سازش کی ہے ۔انہیں اس کا مجرم گردانا جانا چاہئے ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ عدالت عظمیٰ اس کا سخت نوٹس لے اور اس کو بھی کرپشن میں شمار کرے تاکہ آنے والی نسلیں اس کو دُہرا نہ سکیں۔کئی لوگوں کا خیال ہے کہ جواہر لال نہرو نے اسی ’’پاور کرپشن ‘‘ کے تحت ملک کی تقسیم کو ہری جھنڈی دے دی تھی اور آج یہی کام نتیش کما ر کر رہے ہیں ۔اِنہوں نے حزب اختلاف کو تقسیم بلکہ ختم کرنے کے لئے اس ’’پاور کرپشن‘ ‘کا سہارا لیا ہے۔بی جے پی یا یوں کہیں کہ مودی اورامیت شاہ کیا کر رہے ہیں، عوام خود ہی فیصلہ کر لیں۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883