نذیر الحسن تبسم
خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں
خیال رزق ہے ، رزاق کا خیال نہیں (اقبال)
خالق کائنات نے فرش برین سے مشت خاکی لے کر بنی نوع انسان کو تخلیق کر کے یہ دستور مقرر کر رکھا ہے کہ اس خا کی کو واپس اسی زمین کے سپرد کرنا ہے ۔ اس کے رہنے سہنے ، کھانے پینے کا نظام اسی کرہ ارض میں چھُپا رکھا ہے اور بنی آدم نے محنت و مشقت کر کے اس زمین سے اپنا غذا حاصل کرنے کو اپنا مشغلہ بنا رکھا ہے ۔اصل میں کھلانے پلانے کی ذمہ داری خودخالق کائنات کی ہے ۔ دنیا میں جتنی بھی مخلوقات ہیں ،ان تمام مخلوقات کے کھلانے پلانے کی قدرت اللہ پاک رکھتے ہیں اور انہیں کھلاتے بھی ہیں ۔ لیکن ان میں صرف اور صرف ایک انسان ہے ۔جس نے کھانے پینے اور غلہ وغیرہ کو حاصل کرنے وذخیره کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اپنے آپ کو صرف دو وقت کی روٹی حاصل کرنے میں پوری زندگی صرف کرنے کو مقصد حیات بنا رکھا ہے ۔جبکہ قرآن پاک میں واضح ہے، ’’وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون ‘‘۔سورہ ذاریات میں ارشاد باری ہے کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی
عبادت کےلئے پیدا کیا ہے ۔
نہ تو زمین کیلئے ہے نہ آسمان کیلئے
جہاں ہے تیرے لئےتو نہیں جہاں کیلئے
امسال وادی کشمیر میں چلہ کلان میں نہ بارشیں ہوئی اور نہ برفباری ہوئی ، لوگ پریشان ہوئے، عجیب کیفیت محسوس ہوئی، الحمداللہ دعاوں کا اہتمام کیا گیا،نماز استسقاء جگہ جگہ پرادا کی گئی اور لوگ اللہ کے حضور سربسجود ہوئے، جو بہت ہی بہترین فعل ہے۔حقیت بھی یہی ہے کہ ہم نے خالق کائنات کو ناراض کیا ہے ۔ ہم اپنے اپنے گریباں میں جھانکیں ۔ ہمارا کردار ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے قول وفعل میں تضاد ہے،ہم مطلبی ہیں صرف اپنے آپ کو فائدہ پہچانے اور باقی پوری کائنات حتی کہ انسان کو بھی نقصان پہچانے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔
اشرف المخلوقات ہونے کے برعکس ہم ظالم اور جلاد بن کر اس کائنات کو ہرسمت نقصان پہچانے اور برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ ایک طرف سےہم نےاپنی خود عرضی سے چاروں سمت ماحولیاتی آلودگی سے ozone layer سمیت پوری کائنات کے نظام کو درہم برہم کر رکھا ہے اور دوسری جانب اعمال بداور اپنے سیاہ کارناموں سے خالق کائنات کی ناراضگی کو مول لیا ہے ۔ اورخداوندقدوس کی خداوندی اور منشا میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ مشاہدے میں ایک بات آئی ہے، اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اس سال نہ بارشیں ہوئی اور نہ ہی برفباری ہوئی ،اسلئے نہ ہی غلہ نکلے گا اور نہ ہی میوہ جات و فصل ہونگے،نہ کمائی ہوگی نہ کچھ۔ کھائیں تو کیا کھائیں۔ لیکن یہ انسان کیوں بھولتا ہے کہ ہمارا خالق اللہ ہے۔ ہمارا رازق وہی ہے، اللہ وہی ہے جو روزانہ ایک ویل مچھلی کو 10 سے 20 ٹن یعنی تقریبا 20000 کلو گرام خوراک فراہم کرتا ہے ۔ پتھر کے اندر کیڑے کو سبزہ پہچاتا ہے ۔ جتنے بھی مخلوقات ہیں ، انہیں پالتا ہے، کھلاتا پلاتا ہے۔
کوئی مخلوق بھوکا نہیں سوتا، انہوں نے کبھی بھوک کی شکایت نہیں کی ،نہ احتجاج کیا ۔ بس ایک انسان ہے جو دو کلو کھا کر سیر ہو جاتا ہے ۔ پھر بھی کھانے پینے کو لے کرخود کو پریشان کر رکھا ہے ۔ یاد رہے، اللہ پاک سبزہ اگانے ، غلہ میوہ جات یا فصل اگانے میں نہ بارش کے قطروں، نہ برفباری اور نہ ہی چاند ، سورج کا محتاج ہے ۔ بلکہ جو چاہے کر سکتا ہے ۔ بنا برف کے خوب فصل دے سکتا ہے ، کیونکہ زمین میں وہ طاقت نہیں ، بارش میں وہ تأثیر نہیں کہ وہ فصل اگا سکے ، جب تہ نہ اللہ چاہے ۔ اللہ وہی ہے جس نے بنا ماں باپ کے حضرت آدم علیہ سلام کوتخلیق کیا ۔اماں حضرت حوا علیها سلام کو مبعوث فرمایا، حضرت عیسی علیہ السلام کو بن باپ کے پیدا کیا۔
(وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ وہ بے جان انڈے سے جاندار نکال سکتا ہے، وہی مالک ہے، وہی خالق ہے، وہی ہمارا رزاق ہے، وہی پالن ہار ہے۔ ذرا بتائیے!کیا اللہ بنا برفباری کے فصل نہیں اگا سکتا ہے؟
’’لا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ‘‘ا ﷲ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو جاؤ ( القرآن)
نہ ہو نومیدنومیدی زوال علم و عرفان ہے
امید مرد مومن ہےخُدا کے رازدانوں میں
اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہیں ہونا چاہئے۔ بس ہمیں چاہیے کہ ہم رب چاہے زندگی گُذار دیں۔ اپنے آپ کو ﷲ کے سُپرد کر دیں۔ا ﷲ کی خوش نودی حاصل کریں ۔ کیونکہ اﷲ کی رضامندی میں ہی ہماری کامیابی ہے، پھر چاروں اور گل و گلزار اور خوشیاں ہی خوشیاں ہونگیں ۔انشاء الله
رابطہ۔لین-04 گلشن آباد،آزاد گنج بارہ موُلہ کشمیر
ای میل۔[email protected]>
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)