ریاست جموںوکشمیر جو صدیوں سے جنگلی جانووں کی آماجگاہ کے طور پر دنیا بھر میں مشہور و معروف رہی ہے میں انکی متعدد انواع و اقسام کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے اور حال ہی میں مرکزی وزارت ماحولیات نے دس ایسی انواع کی نشاندہی کی ہے ، جو معدومیت کے خطرات سے دو چار ہیںاور ان میں شہرۂ آفاق برفانی تیندوا بھی شامل ہے، جو کبھی دنیا بھر سے سیاحوں کو کشمیر کی جانب راغب کرنے کا سبب رہا ہے اور جس کے متعلق مغربی سیلانیوں نے اپنے سفر ناموں میں صفحوں کے صفحے سیاہ کئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوامی یاداشتوں میں بسی جنگلی حیات کے بارے میں عوامی سطح پر معلومات عام کرنے کےلئے ہماری حکومتیں کتراتی رہی ہیں، غالباً اسی لئے کہ وہ ہماری نظروں سے دور رہتی ہیں۔ بہر حال اس تازہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے برفانی تیندوے کی آماجگاہوں کی نقشہ سازی عمل میں لائی ہے۔ اس سلسلہ میں شیر کشمیر ایگریکلچر یونیورسٹی کی جانب سے ایک مفصل رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ جس میں اُن علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جہاں پہ نوع پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر برفانی تیندوے وادی کے کم و بیش سبھی بلند و بالا پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں، مگر جہاں ان کا اجتماع زیادہ ہے اور جن راستوں سے انکا زیادہ گزر ہوتا ہے۔اُن میں لداخ، گریز، بانڈی پورہ کے وہ بالائی علاقے جوسونہ مرگ اور پھر اُسی راستے سے پہلگام کے اوپری علاقوں سے ملتے ہیں، شامل ہیں۔ برفانی تیندوںکی کشمیر میں کسی زمانے میں اتنی بہتات ہوا کرتی تھی کہ شہر سرینگر کے متصل داچھی گام رکھ اور ترال سے بالائی جنگلات میں اُن کی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی مگر مرور ایام سے یہ صورت بدل گئی اور انکی تعداد رفتہ رفتہ کم ہوتی گئی، جس کے لئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ جنگلاتی علاقوں میں انسانی تجاوزات کا عمل زیادہ اہم ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانی بستیاں جنگلوں کے نزدیک آگئیں اور دونوں میں تصادم آرائیوں کے مواقع پیدا ہوگئے۔ گزشتہ کئی برسوں سے جنگلی جانوروں اور انسانوںمیں ٹکراؤایک معمول بنتا جارہاہے اور اب تک کئی جانیں اس کی لپیٹ میں آچکی ہیں۔حالیہ برسوں میں وادی کے اندر خاص کر کنڈی کے علاقوں میں چھوٹے بچوں سمیت متعدد افراد تیندؤں اور ریچھوں کے حملوں کے شکار ہوکر جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔پہاڑوں اور جنگلات کے متصل علاقوں میںجانورں کے غول کے غول غذا کی تلاش میں بستیوں کے نزدیک پہنچ جاتے ہیں۔چونکہ عام لوگوں کو قدرت کی ان مخلوقات ، جو عام طور پر بے ضرر ہوتی ہیں اور چھیڑ چھاڑ کے بغیر کسی پر حملہ آور نہیں ہوتے، کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا، لہٰذا جب یہ بستیوں کا رْخ کرتے ہیں تو لوگ بدحواس ہوکر میسرآلات ضرب لے کر ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے اکثر یہ وحوش لوگوں پر حملہ آر ہوتے ہیں اور تصادم آرائی میں خود بھی زیادتیوں کاہوجاتے ہیں اور بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ماہرین کے مطابق جب کوئی جانور اپنے اعصابی توازن سے محروم ہوتاہے تو وہ آدم خوری پر اْتر آتاہے اور ایسے حالات میں متعلقہ حکام ہی اْس وقت ایسے جانورکوبنی نوع انسان کے لئے نقصان دہ معلن کرکے اس کی ہلاکت کا حکم صادر کرسکتے ہیں مگر ماہرین اور جنگلی جانوروں سے مڈبھیڑ کا تجربہ رکھنے والے لوگوں کے مطابق ،جب کوئی جانور غذا کی تلاش میں کسی بستی کی طرف نکل پڑتاہے تو لوگوں کی اجتماعی بدحواسی کے ردعمل میں ان حیوانوں کا وحشیانہ پن اْبھر کر سامنے آتاہے جو بعض اوقات انسانوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔ ایسے واقعات میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران کئی ہلاکتیں پیش آئی ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر جنگلات کے متصل علاقوں میں آباد لوگوں کو فطرت کے اصولوں کے مطابق جنگلی حیات کے ساتھ بقائے باہم کی مناسب معلومات اور تربیت فراہم کی جائے تو یقینی طور پر ان تصادموں کو روکنے یا انہیں کم کرنے کی کوئی سبیل پیدا ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ جنگلی جانوروں کے بستیوں کی جانب بھٹکنے کے معاملے میں جنگلات اور ان کے گردونواح میں موجود اْن کی آماجگاہوں میں دن بہ دن کمی واقع ہونے کا رْجحان کلیدی طور پر کارفرماہے۔جنگلاتی علاقوں میں انسان کے تجاوزات خواہ وہ زرعی سرگرمیوں ، تعمیروترقی یا سیکورٹی کیمپوں کے قیام کے حوالے سے ہورہے ہوں ، اپنی آماجگاہوں سے بے دخلی کا سبب بن جاتے ہیں ،نتیجتاً ان کا رْخ بستیوں کی جانب ہو جاتاہے۔ محکمہ وائلڈ لائف نے ماضی میں عوامی بیداری کے لئے اخبارات میں اشتہار بھی شائع کروائے تھے،جس میں کئی ہدایات درج تھیں،تاہم صرف اخبارات میں اشتہارات کی اشاعت سے دْور دَراز علاقوں میں بیداری پیداہونے کی توقع رکھنا عبث ہے ،لہٰذا متعلقہ محکمہ کو زمینی سطح پر اس کے لئے متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی ساتھ جنگلی جانوروں کی آماجگاہوں کے تحفظ کو سنجیدگی کے ساتھ لے کر ، ایسے علاقوں کو انسان کی دست برد اور دخل اندازی سے محفوظ کیا جائے وگرنہ ماحولیاتی عدم توازن میں مزید سنگینی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ، جو کم ازکم کائناتی اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ آج بھی اگر تاریخی مخطوطات کا مطالعہ کیا جائے تو بھارت کی راجدھانی دِلّی کے پرانے شہر کے قرب وجوار میں انواع واقسام کے خوبصورت جنگلی چرندوں وپرندوں کی موجودگی کا وافرذکر ملتاہے ،لیکن آج وہاں ان مخلوقات کو دیکھنے کے لئے چڑیا گھر کا رْخ کرنا پڑتاہے۔ جموںوکشمیر جو صدیوں سے قدرت کی ان مہربانیوں سے مالامال رہاہے ، میں بھی آئندہ ایام میں ایسی ہی صورتحال پیدا نہ ہو ، اس کے بارے میں یہاں کی حکومت اورعوام کو سنجیدگی اوردردمندی کے ساتھ غور وفکر کرنا ہوگا۔ریاستی حکومت کی یہ تازہ کوشش ایک خوش آئند اقدام ہے، جسکا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔