Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

ناکردہ گناہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: June 18, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
14 Min Read
SHARE
گذشتہ تین سالوں سے قید خانہ کی تنگ و تاریک کوٹھر ی میں میرا دہشت زدہ دل دھڑک تو رہا تھا لیکن میرے پریشان ذہن نے حالات کے آگے گٹھنے ٹیک دئے تھے اور کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا۔اگر چہ اب یہاں سے آزاد ہونے کی کوئی اُمید نظر آئی ہے مگر ایسامعلوم ہوتا ہے کہ یہ تاریکی میرے وجودپر گہرے نقوش چھوڑ جائے گی۔ ایسے نقوش جن کو میں زندگی بھر مٹا نہ سکوں گا۔ اِس کوٹھری میںزندگی کے گذارے ہوئے اذیت ناک لمحوںسے لے کر یہاں کی اِک اِک شے کو بھلا دینے کی آرزو کرتا رہوں گا جو میرے ذہن کو چھلنی کر گئے ہیں۔
آج والد صاحب اطلاع دے گئے کہ دوتین دنوں کے اندر یہاں سے آزاد ہو جائوں گامگر سوچتا ہوںکہ احباب و اقارب،کالج کے اساتذہ اور ہم جماعتوں کا سامنا کیسے کروں ؟جب میں کلاس کا ہیرو تھا تو سارے ہم جماعت میرے آگے پیچھے گھوما کرتے تھے اور میرے دوست مجھ جیسا دوست پانے پر فخر جتا تے تھے لیکن آج حالات کچھ اِس قدر بے رحم ہو گئے تھے کہ مجھ سے ملنے ایک شخص بھی نہ آیا۔ اب تو ہر کوئی مجھے مشکوک نگاہوں سے ہی دیکھے گا ۔ سارے خواب ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گئے۔ وہیں وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ زندگی میں اِس طرح کے حادثات سے بھی دوچارہونا پڑے گا۔میں نے تو ہمیشہ یہی چاہا تھا کہ والدین کیلئے آرام و آسائش کا ذریعہ بنوںلیکن اب جوان بیٹے کو سلاخوں کے پیچھے دیکھ کر اُن کے دل پر کیاگزر رہی ہوگی ؟کورٹ کچہری کے چکر لگا تے لگاتے اور لوگوں کی منت سماجت کرتے کرتے میرے والد صاحب کی کیا حالت ہورہی ہوگی ؟ نہ جانے میری والدہ اپنے اکلوتے جگر کے ٹکڑے کے بغیر کیسے زندہ ہوگی ؟کیازندگی واقعی پھر سے بحال ہو گی ؟ کیا میں اپنی انجینئرنگ کی تعلیم پوری کر پائوں گا؟ اِن تین سالوں میں ،میں یہی باتیں سوچ سوچ کر دن میں ہزار بار مرتا رہا ۔ کیا واقعی مجھ سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوئی تھی جو میں اِس سزا کا مستحق تھا ۔۔
تقریباً چار سال پہلے کا واقعہ ہے جب میں جامع مسجد میں نماز ادا کرنے کے ارادے سے داخل ہوا تھا۔مغرب کی نماز شروع ہونے میں صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے تھے اورمیں تالاب پر وضو بنانے میں مصروف ہوگیاتھا۔دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کیوں نہ نماز کے بعدیہیں بیٹھ کر کچھ دیر شام کے حسین منظر کا لطف اُٹھایا جائے۔ جبھی یاد آیا کہ والد صاحب نے تا کید کی تھی کہ میں نماز ادا کر کے جلد از جلد گھر لوٹ کر دُکان کا حساب کتاب دیکھنے کی تائید کی تھی۔اِس لئے سلام پھیرتے ہی گھر کی طرف کوچ کرنے کے ارادے سے مڑا ہی تھا کہ کسی نے میری طر ف موبائل فون بڑھا دیا ۔میں حیران ہو کر کہنے لگا  ’’ارے ! یہ تو میرا ہے ۔ ۔ ۔ کہاں سے ملا آپ کو؟‘‘
  وہ شخص تالاب کی اور اشارہ کر کے بولا ــ’’ وضو بنا تے وقت آپ کی جیب سے گرپڑا۔میں نے آواز دے کر آپ کو بلایا تو تھا لیکن آپ عجلت میں تھے۔‘‘  میں نے اُس کا شکر ادا کیا ۔ مسجد کے دروازے تک ساتھ ساتھ چلتے رہے اوراِسی دوران اُس نے میرا نام پوچھالیاتو میں بول پڑا’’ظفرخان‘‘اوراُس نے اپنا نام شاداب بتایا۔ہم دونوں اپنے اپنے رستے پر چل دیے۔
 چند ماہ بعد امتحان سے فارغ ہوکر میںزیارتِ مخدوم صاحب کے احاطے میں داخل ہوا ۔ شام کا وہی وقت تھا جس کامیں دیوانہ اورجس کا لطف اُٹھانے کا موقع میں ہاتھ سے کبھی جانے نہیں دیتا تھا۔ آج کچھ خاص مصروفیت بھی نہ تھی اِس لئے دالان کی صورت پہاڑی پر مبنی کستو رپنڈی کی طرف چل پڑا۔وہاں سے شہر کاخوبصوت منظر دیکھنے کو ملتاہے۔شام کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں میری روح کو تروتازہ کررہی تھی۔ میں مسرور ہو کر مکانوں کو دیکھ رہا تھا جو وہاں سے ماچس کی ڈبیوں کی مانند دکھائے دیتے تھے۔ اچانک پیچھے سے آواز آئی ’’ظفر صاحب! ‘‘۔میں چونک کر مڈا تو معلوم ہوا کہ یہ وہی شخص ہے جو مجھے جامع مسجد میں ملا تھا۔رسمی علیک سلیک کے بعد اُس سے کشمیر کے فطری حسن کے حوالے سے بہت ساری باتیں ہوئیں ۔ کالج کے چند ضمنی لطیفوں کا ذکر بھی میں نے اُس سے کیا۔اِس مختصر سی گفتگو میںہم نے ایک دو سر ے کے فون نمبر اپنے اپنے فون میں محفوظ کرلئے۔اُس کے بعد اُس شاداب نامی شخص سے نہ کبھی ملااور نہ فون پر رابطہ ہوا۔
جب وادی تشویشناک حالات کی زد میں آکرجل رہی تھی تو والد صاحب کی دُکان کئی مہینوںتک مسلسل بندپڑی رہی، جس کے سبب گھر کے مالی حالات دن بہ دن خراب ہونے لگے۔ والدہ قناعت سے گھرکا خرچہ چلاتیں اور والد صاحب اس اُمید سے دن بھرطرح طرح کے جتن کرتے کہ کہیں آس پاس میں کوئی خریدار مل جائے تو گھر میں دو چار پیسے آجائیں۔
طویل عرصے تک کرفیو رہنے کے بعدجب اِک شام کو ڈھیل ملی تومیں والدہ کیلئے دوائیاں خریدنے گھرسے ایک میڈکل شاپ پر پہنچا۔دوائیوںپرنظر پڑی تو سوچا کہ بازار جا کر والدہ کے لئے کچھ پھل بھی خریدوں تاکہ اِن دوائیوں کے جانبی اثرات کو برداشت کرنے کی سکت اُن میںآسکے، لیکن یہ کیا۔۔۔؟ سارے پیسے تودوائیوں پر ہی خرچ ہو چکے تھے ۔۔۔پھر یاد آیا کہ جیب میں سوروپے کا نوٹ پڑا ہے جوکچھ دن پہلے چچاذادبھائی نے میری جیب میں ڈالا تھا اور میں نے بھی اپنی خوداری کو!یک طرف رکھ کر اُس دن کوئی خاص مزاحمت نہ کی تھی کیوں کہ معلوم تھا کہ کہیں نہ کہیں یہ پیسے بھی ضرور کام آئیں گے۔
اب میں مصمم ارادہ کرچکا تھاکہ بازار جا کر پھل خریدوں گا۔۔۔چناچہ میں بازار کی طرف روانہ بھی ہوا۔چلتے چلتے دل ہی دل میں اپنی خوداری پر ہنسی آرہی تھی۔ کیونکہ اگر آج یہ نوٹ میری جیب میں نہ ہوتا تو میں اپنے من کی کہاں کر پاتا ۔ اچانک میری نظر لڑکوں کے چھوٹے سے گروہ پر پڑی جو میری ہی جانب چلا آرہا تھا۔جس رفتار سے وہ بھاگتے ہوئے نظر آرہے تھے ،مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یقیناََ پولیس اُن کے پیچھے ہوگی ۔ میں بھی خود کو بچانے کی غرض سے پیچھے کی طرف دوڈنے لگااور اِس ہڑ بڑی میں  میری جیب سے والدہ کی دوائیاں گِر کربکھر گئیں۔ اُنہیں سمیٹتے سمیٹتے میرا ذہن مجھے اُنہیں چھوڑکر بھاگ جانے پر اُکسا تورہا تھا لیکن پھر گھرکی مالی حالت کا خیال آیا۔ 
سڑک سنسان تھی اور تقریباًسارے لڑکے بھاگ چکے تھے ۔میں بھی ساری دوائیاں ہاتھ میں لیے بھاگ کھڑا ہوا کہ کسی نے پیچھے کی جانب سے میرا کالر پکڑ لیا۔اُس پر نظر پڑ تے ہی میرے چہرے کا رنگ اُڑگیا اور پورا جسم پسینے سے تر ہوتا چلا گیا۔خاکی وردی میں ملبوس اُس پولیس اہلکار کی آنکھوں سے شعلے برس رہے ہیں۔پہلے تو بس ڈنڈے، لاتیں، گھونسے اور گالیاں پڑیں،پھر کسی پولیس والے نے میری تلاشی لی اور میرا موبائل فون لیکر اُس کا معائنہ کرنے لگا۔ناک سے بہتے ہوئے خون کو پونچھ کر اُنہیں سمجھانے کی کوشش اِس اُمید سے کرتا رہا کہ شایدترس کھا کر مجھے چھوڑ دیں لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 
اِس دوران جو پولیس والے میرے موبائل کی جانچ کر رہے تھے،اُن میں سے ایک آکر پوچھنے لگا ’’شیرو دوست ہے تیرا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔۔میرے کسی بھی دوست کا نام شیرو نہیں۔‘‘میں نے جھٹ سے کہا۔
دس بیس ڈنڈے رسید کرنے کے بعد مجھ سے پوچھا گیا ’’شیرو کہاں ہے؟‘‘ میں نے پھر سے وہی جواب دیا۔پھر ایک پولیس والے نے شدید غصے سے میری پٹائی کی اور کہنے لگا’’جھوٹ بولتا ہے۔۔اگر تو شیرو کو نہیں جانتا تو اُس کا  نمبر تیرے فون میں کیسے؟‘‘
 میں درد سے کراہ کے بولا’’نہیں ۔۔۔میں کسی شیرو کو جانتا ہی نہیں۔۔۔۔آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
’’ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔۔۔یہ دیکھ ‘‘ایک پولیس والا میرا موئل فون میرے آنکھوں کے قریب لایا۔
میں اپنے آنسوں پونچھ کر کہنے لگا’’ارے۔۔۔یہ شاداب ہے۔۔۔یہ تو۔۔۔‘‘ ایک پولیس والا میرے منہ پرگھونسا مار کر کہنے لگا’’پہچانا؟‘‘  
میں خود کو ذرا سا سنبھالتے ہوئے کہنے لگا’’یہ شیرو نہیں ہے۔۔۔یہ تو شاداب ہے۔۔۔میں صرف ایک دو بار اِس سے ملا ہوں۔‘‘تو وہ گُھرانے والی آواز میں کہنے لگا’’شیرو ہی تو شاداب ہے۔‘‘ میں حیران ہو کر اُنہیں دیکھتا رہا اور آہستہ آہستہ اپنے ہوش کھو بیٹھا۔جب ہوش آیا تو میں حوالات میں بند تھا۔دوتین ہفتوں تک تو مجھ سے صرف یہی پوچھا گیا کہ شیرو کہاں ہے اور میں یہ مسلسل کہتے ہوئے تھک گیاتھا کہ میں اُس کو نہیں جانتا۔
’’آخر وہ شاداب عرف شیرو نامی شخص کون تھا؟‘‘ چنددن بعد جب والد صاحب مجھ سے ملاقات کے لئے آئے تو میں اُن سے بے ساختہ سوال کر بیٹھا۔
ُُ’’مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟۔۔۔اُس کا نمبر تمہارے موبائل سے برآمد ہوا ہے۔۔۔یہ تم جانو اور تمہارا خدا جانے ۔۔۔ گھر سے نکل کر تم کہاں کہاں جاتے تھے اور کس کس سے تمہاری ملاقات ہوا کرتی تھی؟ مجھے تم یہ بتائو۔۔۔کیا غربت و افلاس کے باعث ہم پر کم آٓفتیںنازل ہوئی تھیں جو تم نے ہمیں مصیبتوں کے کنوئے میں دھکیل دیا؟‘‘  اُن کا سرد لہجہ اور ترش الفاظ میرے دل پر تیر کی مانند آ لگے اور میں اپنی صفائی میں کہنے لگا ’’کیا آپ کو میری باتوں پر اعتماد نہیں؟اپنے بیٹے کی باتوں پر۔۔۔ میں نے کتنی دفعہ آپ سے کہا ۔ ۔ ۔ میں واقعی اُس شخص کو نہیں جانتا۔۔۔اگر مجھے اُس کے متعلق معلومات ہوتیں تو میں بھلاآپ سے یہ سوال کیوں کرتا؟‘‘
’’اچھا! تو واقعی تم نہیں جانتے کہ حال ہی میں لالچوک میں جو بم دھماکہ ہوا تھا اُس میں وہ شائداب نامی شخص ملوث تھا۔‘‘یہ سُن کر میرے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔اس کے بعد کسی سوال جواب یا بحث مباحثے کی گنجا ئش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ آخر میری بات پر کون یقین کرتا اور کرتا بھی تو کیوں کرتا؟تمام ثبوت تو میرے خلاف ہی تھے۔میں کس طرح ثابت کرتا کہ میں شاداب عرف شیرونامی شخص کو صرف ایک حد تک ہی جانتا تھا۔ میرے والدین بھی مجھے مشکوک نگاہوں ہی سے دیکھتے ہیں۔
عدالت مسلسل تین سال بعداِس نتیجے پر پہنچی کہ میں بے قصور تھا۔ کچھ دنوں میں میری آزادی تو طے ہے مگرمیری زندگی کے وہ تین سال جو میرے لئے میرے کیریر کے حوالے سے انتہائی اہم تھے، زندگی کے وہ تین سال جب میرے والدین کو میری ضرورت تھی، انہیں پھر سے ڈھونڈ کر واپس کہاں سے لائوں ؟اب ایک ہی سوال میرے دل و دماغ پر طاری رہتا ہے کہ میں کون سا رستہ اختیار کر لوں؟ وہ جس پر میں نے اپنی زندگی صرف کی تھی یا وہ جہاں پراب زندگی کے اِن تین سالوں نے مجھے آ ن کھڑا کیا ہیں۔۔۔۔؟
 
طالبہ شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی،سرینگر
[email protected]
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پی ڈی پی زونل صدر ترال دل کا دورہ پڑنے سے فوت
تازہ ترین
سرینگر میں 37.4ڈگری سیلشس کے ساتھ 72سالہ گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
برصغیر
قانون اور آئین کی تشریح حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے، : چیف جسٹس آف انڈیا
برصغیر
پُلوں-سرنگوں والے قومی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس میں 50 فیصد تک کی کمی، ٹول فیس حساب کرنے کا نیا فارمولہ نافذ
برصغیر

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?