جمہوریت کا خوشمنا نظریہ فرانسیسی انقلاب کے بطن سے پیدا ہوا اور یورپ وامریکہ میں انگڑائیاں لیتا ہوا ایشا کے بیشتر ممالک میں ظہور پذیر ہوا۔ جمہوریت یوں تو عوام کوبااختیار بنانے کا عمل ہے، لیکن اس کی رگوں میں سیاست کا خون دوڑتا ہے۔ سیاست کیا ہے؟ علم سیاسیات کی دقیق توضیحات سے قطع نظر، موجودہ دور میں سیاست اُس خفیہ لین دین کا نام ہے جو سرمایہ دار طبقے اور اہل سیاست کے درمیان ہوتا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ سیاسی گھوڑوں پر داؤ لگاتا ہے، اور سیاستدان جب اقتدار سے ہمکنار ہوتا ہے، تو حکمران بن کر وہ اپنے ’’سپانسر‘‘ کی سبھی جائز ناجائز سرگرمیوں کو تحفظ دیتاہے،اور اس کے لئے قانون کی کہنی بھی مروڑنی پڑے تو وہ بھی بڑی صفائی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو سرمایہ دار خود ہی میدان میں کود کر تجارت اور اقتدار کے متوازی مزے لیتا ہے۔اور پھر یہ سب کرنے والوں کو عوام کے ذریعہ ’’منتخب‘‘ ہونے کا لائسینس ہوتا ہے۔ یہی صورتحال ٹرمپ کے امریکہ سے مودی کے ہندوستان تک ہے۔
ایسے میں جب معاملہ کشمیرکا ہو، ایسا کشمیر جہاں جمہوریت کی قبا بار بار چاک کی گئی ، ایسا کشمیر جہاں جمہوریت کے نام پر غنڈے موالیوں کو وزارت کے قلمدان سونپے گئے، ایسا کشمیر جہاں عمربھر افسرشاہی کا پاور انجوائے کرنے کے بعد سبکدوش اشرافیہ کے لوگ چھپڑپھاڑ کر کسی پارٹی کے ’’سینئر‘‘ لیڈر بنتے ہیں اور چند ایک بیانات داغ کر ’’سینئر وزیر‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔اور پھر جب کوئی خداکا بندہ نوکری چھوڑ کر سیاست کوصاف کرنے نکلتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ بھی اُسی ریت گارے سے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتا ہے جس سے سالہاسال سے یہاں کی استحصالی سیاست خوراک حاصل کرتی رہی ہے۔ سیاست کا خمیر ہی کرپشن پر مبنی ہے، تو اسے صاف کرنے کا تصور ایک مفروضہ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر دانشور وں کا کہنا ہے کہ سیاست کو صاف کرنے کا نعرہ ایک مفروضہ ہے، اور جو یہ نعرہ دیتے ہیں وہ اصل میں گندگی میں غوطہ زن ہونے کے بعد احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں، لہذا وہ خود کو سیاست کا جھاڑو یا چوکیدار کہلانا پسند کرتے ہیں۔
شاہ فیصل کا اسی عفونت زدہ سیاست میں داخلہ ہوا تو روایتی سیاستدانوں کے بیچ ٹھن گئی۔ کچھ لوگ دلی پر الزام دھرتے ہیں کہ یہاں محلہ بہ محلہ سیاسی پارٹیاں بنوا کر وادی کے منڈیٹ کو تقسیم کیا جارہا ہے جبکہ جموں اور لداخ میں صرف بھاجپا اور کانگریس کے درمیان مقابلہ ہے۔ اس پر کچھ دیگر حلقوں کو مرچی لگی تو کہنے لگے کہ جموں کشمیر کسی کے باپ کی جاگیر نہیں،جو نئے لوگوں کے سیاست میں آنے پر پابندی عائد کی جائے۔
مسلہ یہ نہیں کہ ہر بار انتخابات سے عین پہلے نئے تجربات کیوں کئے جاتے ہیں، مسلہ یہ ہے کشمیریوں کا یہاں کی سیاست کے ساتھ کیا تعلق ہونا چاہیے۔ 1996کے انتخابات سے قبل بابر بدر، عمران راہی، بلال لودھی اور محی الدین لون پر مبنی کشمیر تصفیہ کے نام پر ایک فورم سامنے آیا ۔ بلال لودی تو پی ڈی پی کے ایم ایل سی بن گئے اور بابر بدر این سی کے۔ بعد میں بلال صاحب اچانک انتقال کرگئے۔ محی الدین لون پراسرار طور پر قتل کئے گئے اور عمران راہی کئی انتخابات میں ناکامی کے بعد گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح 2002کے انتخابات سے قبل پی ڈی پی کا ظہور ہوا۔ انتخابات میں محض 16نشتیں جیت کر یہ جماعت اقتدار پر براجمان ہوئی۔ نعرہ نیا تھا، لیکن لوگ پرانے تھے۔ کچھ لوگ کانگریس اور کچھ دیگر نیشنل کانفرنس کے بھگوڑے تھے۔ چند سال بعد اس تنظیم میں سرمایہ داروں،افسروں اور حوصلہ مند دانشوروں کا ٹولہ بھی شامل ہوگیا۔ آج اس تنظیم کا حال عیاں ہے۔ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں سجاد لون نے حریت کانفرنس سے ناطہ توڑ کر انتخابی میدان میں چھلانگ مار دی۔ پارلیمانی الیکشن تو ہار گئے تاہم اسمبلی انتخابات میں دو سیٹیں جیت کر منسٹر بن گئے۔ انہوں نے بھاجپا کی حمایت کرڈالی اور اب اُسی فیصلے پر پچھتارہے ہیں۔ سجاد لون بھی یہاں کی سیاست کو صاف کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، وہ تو نظریات کو بھی نیا رُخ دینا چاہتے تھے اور انہوں نے اس باپت ’’قابل حصول وطنیت‘‘ عنوان سے ایک ضخیم دستاویز بھی تیار کیا جو دلی کے وزیراعظم دفتر میں دُھول چاٹ رہا ہے۔
اب کی بار شاہ فیصل نے نوکری چھوڑ کر قوم پر احسان جتا یا ہے۔ یہ صاحب بھی یہاں عمران خان اور کیجریوال جیسا انقلاب لانا چاہتے ہیں۔
ہزار آلائشیں ایک طرف، سیاست ایک اہم ادارہ ہوتا ہے جو قومی تعمیر (Nation Building)کا کلیدی ذریعہ ہوتا ہے۔ سیاست کو صاف کرنے نکلے سبھی حضرات اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر قوم کو سچ سچ بتائیں کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران یہاں کی سیاست نے قومی تعمیر کو کون سا مرحلہ طے کیا؟ سیاست عوام کو بااختیار کرتی ہے، خدارا بتائیں کہ شیربکرہ سیاست سے لے کر مفتی عبداللہ کشمکش تک جو کچھ ہوا اُس نے عوام کو بااختیار بنایا یا ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا؟ فیس بک یا ٹوٹر پر جو ہو سو ہو،فیصل کے بارے میں ایک ہی حقیقت سبھی بھاری بھرکم نعروں کو عبث ثابت کرتی ہے۔ کل جس گاڑی فروش نے دلاور میر کو سپانسر کیا تھا، آج وہ کھلے عام شاہ فیصل کا گاڑ فادر بن رہا ہے؟ بات پھر وہی، فیصل ایک گھوڑا ہے جسے ریس میں دوڑنا ہے اور جیت یا ہار کا اثر عوام پر نہیں سپانسر پر پڑے گا۔
بار بار ہم لکھ چکے ہیں، کہ کشمیریوں کو بے سیاست(De-politicize)کیا جارہا ہے، اور ستم یہ ہے کہ بے سیاست کرنے کا عمل سیاست کے ذریعہ ہی جاری ہے۔اب حالت یہ ہے کہ آپ ووٹ ڈالیں یا بائیکاٹ کریں، یہ عمل جاری ہے۔ ووٹنگ کی نمائشی کوریج کے لئے ہر بار کوئی نہ کوئی بندر ناچتا ہے، تھوڑی بہت بھیڑ اکھٹی ہوتی ہے، اورجب آواز آتی ہے کہ ’’ناچ جمہورے ناچ‘‘ ، ہم جمہوریت زندہ آباد کہہ کر تالی بجاتے ہیں۔
کشمیریوں نے اپنا وجود اور اپنی شناخت منوانے کے لئے بیسویں صدی کے رُبع اول میں مزاحمت شروع کی تھی۔ اکیسویں صدی کے رُبع اول میں بھی یکطرفہ قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔اگر واقعی سیاست جنگ کی ہی ایک صورت ہے، تو اس میدان جنگ کو صرف چوروں اُچکوں اور بہرپیوں کیلئے کھلاکیوں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں سنجیدہ غورو فکر کی ضرورت ہے،ورنہ مزاحمتی حلقوں پر سختیاں کم کرنے کے نام پر یہی چور اُچکے میدان مارتے رہیں گے، اور قوم کو مزید بے اختیار کرتے رہیں گے۔
ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر
�������