انیسہ گلزار
اردو ناول کی تاریخ کو کوئی ایک سو چوالیس سال ہو ئے ہیں۔اس طویل عرصے میں سینکڑوں ناول منظر عام پر آچکے ہیں،اکیسویں صدی میں اردو ناول کی روایت میں کافی تیزی آئی ہے،ان دو دہائیوں میں مردوں کے مقابلے خواتین نے بھی ناول نگاری کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے۔بیسویں صدی کی ناول نگاری میں جو خواتین کی روایت تھی وہ اکیسویں صدی میں زیادہ تیز اور مستحکم نظر آتی ہے۔یہ بات واضع رہے کہ نئی صدی کی ناول نگاری کو جن خواتین نے پروان چڑھایا ہے،جن خواتین نے اردو ناول نگاری کو ترقی بخشی ہے،ان میں نمرہ احمد، عمیرہ احمد، ثروت خان، ترنم ریاض، صادقہ نواب سحر، فرحت اشتیاق، شائستہ فاخری، خالدہ حسین، ثروت نزیر، آمنہ مفتی، اےآر خاتون، ناصرہ شرما، افسانہ خاتون، ڈاکٹر رخسانہ تبسم، نسرین ترنم، نیلوفر، ماہدہ شفیق، نعیمہ احمد مہجور، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
نئ صدی کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار ’’ نمرہ احمد‘‘ ہیں۔ان کی ادبی زندگی کا آغاز( 2007) میں ہوا،ان کا پہلا ناول ’’میرے خواب میرے جگنو‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا، اور اسی ناول نے انہیں کافی شہرت بخشی ۔اس کے بعد سے لے کر اب تک ان کے کوئی سترہ (17)ناول شائع ہو چکے ہیں،جن میں ’’جنت کے پتے‘‘،’’ نمل‘‘، ’’حالم‘‘،’’ پہاڑی کا قیدی‘‘،’’قراقرم کا تاج محل‘‘،’’ مہرالنسا‘‘،’’ مصحف ‘‘ وغیرہ کافی مشہور ہوئے۔
نمرہ احمد کے ناولوں کا موضوع قرآن و احادیث کے ارد گرد گھومتا ہے۔وہ دین اور دنیا کے بہت قریب ہے،وہ قرآنی آیات کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دیتی ہیں،ان کا اسلوب اتنا جاندار اور شاندار ہے کہ، ہر کوئی ان کی تحریروں کا دیوانہ بن جاتا ہے۔حال ہی میں ان کا ایک اور بہترین ناول منظر عام پر آچکا ہے، جس کا نام’’مصحف‘‘ہے۔ یہ ناول( 432) صفحات پر مشتمل ہےجو فن کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے، جس میں دین اور دنیا کو ایک بہترین انداز میں چلانے کا فن سکھایا گیا ہے۔نئی صدی میں اتنا طویل ناول لکھنا اور پھر قارئین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔’’مصحف‘‘ اکثر قارئین کا پسندیدہ ناول بن چکا ہے۔ جہاں ہر کوئی مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ جانا چاہتا ہے، تو وہی نمرہ احمد کے ناول ہماری دینی تعلیمات عام کرنے اور آخرت کا سامان آسان کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔
’’مصحف ‘‘ ایک ایسا ناول ہے،جو بیسویں صدی میں انسان کی رہنمائی بھی کرتا ہے اور اسے صراط مستقیم کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ یہ ناول (2013) میں منظر عام پر آگیا،جس نے لاکھوں بلکہ کروڑوں زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ یہ ناول مذہبی پس منظر میں تخلیق کیا گیا ہےاور یہ ایک پر تاثیر ناول ہے،جو پڑھنے والے پر بے حد اثر انداز ہوتا ہے۔ ناول میں ہمیں تجسس(suspense) بھی نظر آتا ہےجو ناول کو اور بھی پُر کشش بناتا ہے۔’’مصحف ‘‘ دراصل عربی زبان میں قرآن پاک کو کہا جاتا ہے۔
نمرہ احمد اس ناول کے بارے میں اپنے خیالات کچھ اس طرح ظاہر کرتی ہیں کہ:
’’ مصحف ‘‘دراصل، مصحف کے ساتھ جڑنے والی دو لڑکیوں کی کہانی ہے، یہ سنگِ مر مر کے چمکتے برآمدے اور اونچے ستونوں والی مسجد کی کہانی ہے، یہ امانت اور رحم کے حق ادا کرنے والوں کی کہانی ہے، یہ صبر کرنے اور شکوہ نہ کرنے والوں کی کہانی ہے، یہ قسم پوری کرنے والوں کی کہانی ہے اور یہ کہانی ہے خیانت کرنے والوں کی، علم پہ غرور کرنے والوں اور تقویٰ پہ ناز کرنے والوں کی۔
یہ ’’محمل‘‘ اور’’فرشتے‘‘ کی کہانی ہے۔اس ناول کی شروعات ’’محمل ‘‘نامی ایک لڑکی سے ہوتی ہے،جو یتیم ہوتی ہے، محمل کے والد کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا، بالکل معصوم سی محمل ۔۔۔دراصل جب’’ محمل‘‘ کے والدکا انتقال ہوا تھا، اس وقت محمل کے تین چچا وہاں محمل اور ان کی ماں مسرت کی ڈھارس باندھنے کے لیے آگئے۔ لیکنانہوں نے اپنے بال بچوں سمیت ’’محمل‘‘ کے گھر ایسا ڈھیرا جمایا کہ پھر وہ وہاں سے نہیں نکلےاور اُلٹا ان دونوں ماں بیٹی کے مال و جائیداد بھی اپنے نام کرگئے۔بیس سالہ محمل جب کالج جاتی تو اسے ہر روز ایک سیاہ فام لڑکی بس سٹاپ پر بیٹھی ہوئی ملتی، جس کے ہاتھ میں سیاہ جلد والی ایک کتاب ہوتی تھی اور جب محمل اسے کہتی کہ، یہ کتاب کس کی ہے؟ تو وہ کہتی کہ، میری۔۔۔! اس میں میری اور تیری زندگی کی کہانی ہے،تومحمل منہ کھولے اسے دیکھتی ہی رہتی تھی۔دراصل محمل یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ قرآن پاک ہےاور اس میں بےشک سب کی کہانی موجود ہے۔محمل،اس سیاہ فام لڑکی کی باتوں کا مطلب نہیں سمجھ پا رہی تھی جبکہ سیاہ فام لڑکی اسے یہ بھی کہتی تھی کہ جب تم تھک ہار میرے پاس آئوں گی تو میں یہ کتاب تمہیں دوں گی بالآخرمحمل نے اس لڑکی سے وہ بھاری جلد والی کتاب یعنی ’’مصحف‘‘ لے لیا۔
محمل کی زندگی عجیب حالات میں گر گئی تھی، کالج جاتی تھی ، ماں کے کام میں ہاتھ بٹاتی تھی اور مستقبل کی فکر میں اسکالر شپ کے لیے اپلائی کرکے انگلینڈ جانےکا پلان بناچکی ہے لیکن اُس کی زندگی میں ایک موڑ ایسا آتا ہے، جب اسے اپنا ہی چچا زاد بھائی فواد ؔ،اےایس پی ہمایوں داؤدؔ کے چنگل میںپھنسا دیتا ہے۔
ناول’’محمل‘‘ کے ارد گرد ہی گھومتا ہوا نظر آتا ہے۔محمل کی ملاقات’ فرشتے ‘ نامی لڑکی سے ہوتی ہے۔جس کا کردار ناول میں بہت ہی سیدھا، شائستہ، اور نیک سیرت کھینچا گیا ہے، وہ لڑکیوں کو قرآن پاک پڑھاتی ہے، اس کا قرآن پاک سے لگاؤ ایک پیغام بھی ہے، جو اس ناول کی اصل روح ہے۔فرشتے، محمل کو قرآن پاک کی تعلیمات سے روشناس کراتی ہے،اور پھرمحمل اپنی زندگی کا ہر فیصلہ قرآن پاک سے پوچھ کر کرتی ہیںجو اس ناول کا اصل محور و مرکز ہیں۔ناول میں (climax) تب نمودارآتا ہے، جب محمل اپنی ساری جائیداد اپنے والوں کو دے دیتی ہے اور فرشتے کے کہنے پر وہ ہمایوں داوئود یعنی ’’فرشتے‘‘ کے خالہ زاد بھائی سے شادی کرتی ہے۔ناول میں جہاں مذہبی عناصر کا بے تحاشا استعمال ملتا ہے، تو وہی آزمائشوں کا بھی دور دیکھنے کو ملتے ہیں، جب محمل کا (accident) ہو جاتا ہے، اور وہ سات سال قوما میں چلی جاتی ہیں۔پھر جب اُس کی آنکھیں کھلتی ہیں تو وہ سب کچھ بدلا ہوا پاتی ہے۔اس کا شوہر، اس کا بیٹا تیموراور فرشتے کی دنیا ہی بدل گئی ہوتی ہے۔اگرچہ محمل نے مصحف کی مدد سے اپنے بیٹے تیمور کو اپنے قریب لایا مگر لاکھ کوششوں کے باوجود وہ ہمایوں کو اپنے قریب نہ لاسکی۔ چونکہ وہ معذور بھی ہو چکی تھی، اس لیے اس کے لئے دنیا ہی بدل گئی تھی۔بَس اب تواُس کے لئے جو کچھ بچا تھا،وہ ایک’’مصحف‘‘ ہی تھا، جو اسے سہارا دئیے ہوئے تھا۔۔۔۔پھر وہ دن بھی آیاجب فواد نے اُس کی جائیداد کا سارا حصہ اسے واپس کردیا۔ آخر ’’مصحف‘‘ میں بھی لکھا ہے کہ، حق والے کے پاس ہم حق کو ضرور پہنچاتے ہیں۔تیمور میں بھی بدلائو آنے لگا، اُسے اب ’فرشتے‘ اچھی نہیں لگتی۔کیونکہ وہ اُس کے باپ یعنی محمل کے شوہر فواد سے شادی کرنے جارہی تھی۔محمل نے’’مصحف‘‘ کی تعلیمات کے مطابق فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے تیمور کو اپنے گھر لے جائے گی اور فرشتے کا نکاح ہمایون سے کرائے گی۔مگرفرشتے کو احساس ہوا کہ اُس نے کسی کی امانت میں خیانت کی ہے اوراحسانات کا بدلہ ریاکاری میں دیا ہے۔اسی طرح ہمایوں بھی سمجھنے لگا کہ وہ محمل کے ساتھ بے وفائی کررہا ہےمگر محمل فیصلہ کر چکی تھی اوراس کی زندگی کا فیصلہ’’مصحف ‘‘نے کر دیا تھا۔
یہ ناول ایک شاہکار ہے، زندگی میں بے شک انسان کو پے در پے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کہ ’’محمل‘‘ کی زندگی میں، لیکن جب انسان کا یقین اللہ تعالیٰ پر کامل ہو تو کوئی دنیا کی طاقت اسے اپنا مقصد حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی، جب اس کا ایمان قرآن پاک پر ہو تو وہ صراط مستقیم پاہی لیتا ہے۔ یہ ناول ’’فن برائے مقصد‘‘ کے پیرائے پر کھرا اُترتا ہے۔ ناول میں کردار نگاری بھی کمال کی دکھائی گئی ہے، مجھے امید ہے کہ یہ ناول نئی نسل کےلئے سود مند ثابت ہو گا۔
(حبک نسیم باغ، سرینگر)