ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر
جارج اورویل کا مشہور ناول ’’1984‘‘ایک خوفناک مستقبل کی تصویر پیش کرتا ہے ۔ایک ایسادورجہاںالفاظ، خیالات، تاریخ، سچائی اور حتیٰ کہ لوگوں کے احساسات بھی پابہ زنجیرہوں۔ یہ کہانی ایک ایسے فرد کی ہے جو جبر کے خلاف اپنی شناخت اور آزادی کی تلاش میں نکلتا ہے، مگر ایک ایسی دنیا میں جہاں آزادی خود سب سے بڑا جرم ہے۔ ناول کو 1949 میں لکھا گیا، مگر اس میں بیان کردہ دنیا آج بھی حقیقت کے بہت قریب محسوس ہوتی ہے،اورویل کامانناہے کہ اگر طبقہ امراء کو مکمل طاقت دے دی جائے تو وہ نہ صرف لوگوں کے جسموں بلکہ ان کے دماغوں پر بھی کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔ناول1984 کی کہانی اوشینیا نامی ملک کی ہے جو ایک جابرانہ حکومت کے ماتحت ہے۔ یہاں ہر فرد کی زندگی مکمل طور پر حکومت کے قابو میں ہے۔یہاں تین بڑی طاقتیں ہیں۔بگ برادر :حکومت کا علامتی لیڈر، جس کی تصویریں ہر دیوار پر لگی ہے۔پارٹی :وہ حکمران طبقہ جو ہر چیز کنٹرول کرتا ہے۔تھاٹ پولیس: خفیہ ایجنسی ،جو لوگوں کے خیالات تک کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔اوشینیا کا مشہور نعرہ ہر دیوار پر لکھا ہے:”Big Brother is watching you”یہ جملہ عوام کو مسلسل خوف میں رکھتا ہے کہ وہ ہر وقت حکومت کی نظروں میں ہیں۔
اورول نے ایک مطلق العنان حکومت کا جو نقشہ کھینچا ہے،ایسامحسوس ہوتاہے کہ انہوںنے ماضی میںرہ کرمستقبل کی کسی’’ کھڑکی‘‘سے موجودہ عہدکا مشاہدہ کیاتھا۔انہوںنے جواصطلاحات استعمال کی ہیںجیسے ڈبل تھِنک (یعنی بیک وقت دو متضاد خیالات کو درست سمجھنا)، تھاٹ پولیس (خیالات پر قابو پانے والی پولیس)، منسٹری آف لوّ (یا وزارتِ محبت جس کا مقصد اصل میں لوگوں کو تکلیف پہنچانا ہوتا ہے) اور منسٹری آف پِیس (یا وزارتِ امن جو اصل میں جنگیں کراتی ہے) اور پھر ناول پر ناول لکھنے والا ایک ادارہ جو لوگوں کی ہمدردیاں جیتنے کے لیے اصل مسائل پر لکھنے کی بجائے دھڑا دھڑ فحش مواد شائع کرتا رہتا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ بٹی رہے۔ان تمام عناصر کو استعمال کر کے ایک مطلق العنان حکومت کس طرح لوگوں کے خیالات پر پہرے لگاتی ہے، Orwellکے ناول میں یہ سب کچھ پڑھ کر قاری متوحّش رہتاہے۔
عہدِحاضرمیںناول ’1984‘ کو ایک نظر سے پڑھیں تومحسوس ہوتاہے کہ دنیا آج جس روڈ میپ پر گامزن ہے ،یہ وہی راستہ ہے جسے Orwell ’جہنم کا راستہ‘ کہتے ہیں۔یہ تو ہم نہیں جانتے کہ Orwell کی یہ نقشہ سازی کوئی الہامی پیش گوئی تھی، لیکن یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ انہوںنے اپنے ناول میں جن حالات کا ذکر کیا تھا، وہ آپ کو جھنجھوڑتے ہیں۔ان سے انکار بھی ممکن نہیں، لیکن کیا یہ نقشہ سازی ہماری مدد کر سکتی ہے؟جون 1949 کو شائع ہونے والی یہ کتاب جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں لکھی گئی تھی جب یورپ مکمل تباہ ہو چکا تھا۔ برطانوی قوم بھوک اور افلاس میں گِھر چکی تھی اور مستقبل بھی تاریک دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن لگتا ہے کہ یہ ناول آج کل کے حالات پر لکھا گیا تھا اور Orwellکی خوبی یہ ہے کہ وہ ناول میں پیش کئے گئے حالات کا مقابلہ کرنے کا سبق بھی دیتے ہیں۔
دورِجدید میں آمریت و جبر کے خدوخال کیا ہوں گے، اس کانقشہ مصنف نے ناول میںپیش کیاہے۔ناول کا مرکزی کرداروِنسٹن سمتھ وزارتِ سچ میں مواد کو سینسر کرنے کی ذمہ داری پر معمور ہے اور وہ تاریخ کو ہر وقت ایک ایسے انداز میں پیش کرتا ہے جس سے آپ کو موجودہ حالات بُرے نہیں لگتے اور آپ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے۔وِنسٹن سمتھ اور اس کے ساتھیوں پر ہر وقت ’بِگ برادر‘ یا ’بھائی صاحب‘ کی نظر رہتی ہے اور یہ لوگ بِگ برادر کی مٹھی میں ہوتے ہیں کیونکہ وہ جا بجا لگی ہوئی ٹی وی سکرینوں کی مدد سے نہ صرف خود آپ پر نظر رکھتا ہے بلکہ ہر کوئی ایک دوسرے کی جاسوسی کر رہا ہوتا ہے۔آج اس کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے جو ہماری ہر اس حرکت، خریداری اور رائے کو جمع کرتا ہے جس کا اظہار ہم آن لائن کرتے ہیں۔ اس طرح سوشل میڈیا ہماری مستقبل قریب میں آن لائن ہونے والی ہر حرکت اور ترجیحات کا اندازہ پہلے سے لگا لیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری اس لین دین میں صارفین کو صارفین نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہ خود مصنوعات بن چکے ہیں۔انٹرنیٹ پر صارفین کی ترجیحات کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں اپنی مرضی کی سیاسی تحریکوں کی آبیاری کر کے نئی تحریکوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جس سے جمہوریت کی شکل کو مسخ کیا جا رہا ہے۔
Orwell کو اس بات کا اندازہ بخوبی ہو گیا تھا کہ جابرانہ حکومتوں کو ہمیشہ کسی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ناول میں انھوں نے دکھایا ہے کہ کس طرح عوامی جذبات کو استعمال کر کے پراپیگنڈا کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق نئے دشمن گھڑے جا سکتے ہیں۔ناول میں ہر کردار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ پُرتشدد فلمیں دیکھے۔ چنانچہ وِنسٹن سمتھ ’دو منٹ کی نفرت‘ کے حوالے سے کہتا ہے کہ’ ’دو منٹ کی نفرت کے بارے میں بُری بات یہ نہیں تھی کہ آپ کو اس میں کوئی کردار ادا کرنا ہوتا تھا بلکہ سب سے بُری بات یہ تھی کہ کردار ادا کرنے سے جان چھڑانا ناممکن تھا۔ یوں خوف اور دوسرے سے بدلہ لینے کا گھناؤنا جذبہ گروہ کے ہر رکن کے جسم میں بجلی کے کرنٹ کی طرح دوڑ جاتا ہے اور آپ اپنے مخالف کو قتل کرنے، اس پر تشدد کرنے اور اس کا منھ توڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
موجودہ دورمیں سیاسی، مذہبی اور کاروباری تنظیمیں آپ کے احساسات اور جذبات کو بھڑکا کر ان جذبات کی تجارت کر رہے ہیں۔ Orwellحیرت انگیز طور پر اس رجحان کی پیشنگوئی بھی کر چکے تھے کہ کس طرح لوگ اپنی مرضی سے اس قسم کی نفرت انگیز تحریکوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ وِنسٹن سمتھ بھی اپنے اندر اس تبدیلی کو محسوس کرتا ہے۔
جارج اورول خودا سپین کی خانہ جنگی میں فاشزم کے خلاف لڑنے کے لیے رضاکارانہ طور پر آمریت مخالف قوتوں کے شانہ بشانہ لڑ چکے تھے، لیکن جب سٹالن مخالف گروہ میں شامل ہو کر لڑتے لڑتے ان کا پالا سٹالن کے حامی گروہ سے پڑا تو Orwell کو لگا کہ کمیونزم کے نعرے بھی کھوکھلے ہیں۔اورول نے اپنی آنکھوں سے ان لوگوں کی خود فریبی کا مشاہدہ کر لیا تھا جنھیں ایک نئے نظام پر یقین تھا۔
آج کل جہاںنظردوڈائیں، ایسے افراد اقتدار میں دکھائی دیتے ہیں جنھیں لوگ ’طاقتور‘ سمجھتے ہیں۔ ان تمام طاقتور افراد میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہ اپنی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو خوفناک طریقے سے کچل کر خود اپنی ذات کی ترویج کرتے ہیں۔ یعنی بِگ برادر اب محض مذاق کی بات نہیں رہی بلکہ یہ رجحان دنیا بھر میں دستور بنتا جا رہا ہے۔Orwellجس مطلق العنانی کی تصویر کشی اپنے ناول میں کرتے ہیں، اس میں سب سے زیادہ خطرناک چیز زبان یا الفاظ سے ان کی معنی چھین لینا ہے۔ناول میں سرکردہ افراد کا مقصد الفاظ، خیالات اور جذبات کے اصل معانی کو ختم کرنا ہوتا ہے، یوں حقیقت ان افراد کی اصل دشمن ثابت ہوتی ہے۔
ناول میں حکمران جماعت اپنے مقاصد کے لیے تاریخ کو بھی بدل دیتی ہے جبر و استبداد کے نظام کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے لیے حقیقی دنیا کو جاننا ناممکن بنا دےاور اس کی جگہ خوف اور جھوٹ کو فروغ دینے کی کوشش کرے۔وِنسٹن سمتھ اس نظام کے خلاف پہلا مزاحمتی قدم اس وقت اٹھاتا ہے جب وہ خود کو ہر جگہ موجود کیمروں کی آنکھ سے بچا کر ڈائری لکھنا شروع کر دیتا ہے، جس میں وہ اپنے اندر کی دنیا کی بات کرتا ہے۔سمتھ جانتا ہے کہ اگر حکام کو اُس کی حرکت کا علم ہو گیا تو اس کی سزا موت ہو گی۔
اور پھر جب شدید تشدد کے بعد وہ سچ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو کہتا ہے کہ ہاں ’دو جمع دو پانچ ہوتے ہیں۔‘ اپنے اس اعتراف سے پہلے وہ سمجھ چکا ہوتا ہے کہ حکام واقعی ’آپ کے دماغ کے اندر گھُس سکتے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ اب تو دنیا کی مستحکم جمہوریتوں میں بھی اس ناول کی فروخت میں اٰضافہ ہو رہا ہے۔ انڈیا، برطانیہ، چین اور پولینڈ میں لوگ ایک مرتبہ پھر ’1984‘ سے رجوع کر رہے ہیں۔ امریکہ میں بھی لوگ ٹرمپ انتظامیہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ ناول پڑھ رہے ہیں اور وہاں بھی اس کی فروخت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ لوگ اورول کو ایک ولی اور بزرگ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔بات صرف یہ نہیں کہ آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس کے جبر کو سمجھنے کے لیے اورول کے خیالات نے ہماری سوچ بدل کے رکھ دی ہے بلکہ آج 1984 ایک ایسا کتابچہ یا ہدایت نامہ بن چکی ہے جسے آپ مشکل دور میں اپنے ساتھ رکھنا چاہیں گے۔علم اصل میں ایک قسم کی طاقت ہے اور آج کل ہماری اسی طاقت کا امتحان ہے۔1984محض ایک ناول نہیں، بلکہ ایک پیش گوئی، ایک وارننگ اور ایک آئینہ ہے جو ہمیں وہ انجام دکھاتا ہے جو آزادی کھونے والی قوموں کا مقدر بن جاتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایک مطلق العنان ریاست نہ صرف جسموں پر قابو پاتی ہے بلکہ خیالات، احساسات اور سچائی کے معنی بھی اپنی مرضی سے بدل دیتی ہے۔یہ ناول چیخ چیخ کر ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ’’آزادی صرف زنجیروں سے آزاد ہونے کا نام نہیں بلکہ اپنے خیالات پر اختیار رکھنے کا نام ہے۔ جو سوچ پر قابض ہو جائے، وہ انسان کو ایک زندہ لاش میں بدل دیتا ہے۔جب جھوٹ کو بار بار دہرایا جائے اور سچ کو مٹایا جائے تو جھوٹ ہی سچ بن جاتا ہے اور جب سچ ختم ہو جائے تو تاریخ اور حقیقت دونوں ایک سرکاری پروپیگنڈے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔‘‘
[email protected]