وہ کیمپ کے اندر کیمرہ لے کرگھس گیا،جہاں بندوق بردارواں اور سپاہیوں کے مابین گولیو ں کا تبادلہ چل رہا تھااور وہ پل پل کی خبرلوگوں تک پہنچا رہا تھا۔ سمے نیوز چینل پر نامہ نگارنواز خان کو لاکھوں لوگ رپوٹنگ کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔۔
’’اس وقت میں کیمپ کے اندر موجود ہوں۔آپ دیکھ رہے ہیں، میں اس عمارت کی تصویر آپ کو دکھا رہا ہوںجس میں بندوق بردار چھپے ہوئے ہیںجن کی تعداد چار بتائی جاتی ہے اور جو وقفے وقفے سے سپاہیوں پر گو لیاں چلارہے ہیں۔ اب تک دو سپاہیوںکو گولیاںلگ چکی ہیںجنھیں چاپر کے ذریعے اسپتال لے جایا جا رہاہے۔دونوں کی حالت نارک بتائی جا رہی ہے۔ عمارت کو چاروں طرف گھیر لیا گیا ہے اور بند وق برداروں کوکھدیڑنے کی کوششیں جاری ہیں۔‘‘ نواز خان بوٹینگو سے سمے نیوز چینل کے لئے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ واہ۔۔ ۔۔۔کیا بہادر نامہ نگار ہے۔کیمپ کے اندرداخل ہوکررپوٹنگ کر رہا ہے۔ چینل بدل مت دینا۔ابھی انکائونٹر جاری ہے۔‘‘مائرہؔ نے اپنی سہیلی سے کہا۔
’’جانے بھی دو۔۔یہ روز روز کے انکائونٹر۔زند گی اجیرن بن گئی ہے۔کوئی کامیڈی ڈرامہ دیکھ لیں گے۔‘‘
’’کچھ دیر کے لئے رک جائو۔نواز خان آخری رپورٹ لے کرآتا ہی ہوگا۔حالات کی پوری خبر رکھنی چاہیے۔کل سوال ناموں میںیہ بھی پوچھا جائے گاکہ فلاں انکائو نٹرمیں کتنے سپاہی‘بندوق برداراورسویلین مارے گئے تھے؟ان کی عمر کتنی تھی۔یہی تو ہماری تاریخ بنتی جارہی ہے۔‘‘
’’اوہو۔۔۔۔بور مت کرو۔میں چلی جائوں گی۔‘‘
’’نواز خان بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔کنوارا بھی۔۔۔‘‘
’’ایسے جیون ساتھی تو نصیب والیوں کو ملتے ہیں۔کیا لائف ہے کوئی خوف نہ ڈر ۔ گولیوںکے تبادلے میں رپوٹینگ کرناکسی بہادر کا ہی کام ہے۔میں تو نواز ؔخان کی مداح بن گئی ہوں۔ ‘‘
’’پھر تو تمہیں اس سے ضرور مل لینا چاہیے۔اور ہاتھ آگے کرکے بولنا چاہیے۔آٹو گراف پلیز۔۔۔ ہوسکتا ہے۔۔۔۔ وہ بھی تمہارے جذبے کی قدر کرے ۔‘‘
’’ضرور ۔۔۔میں کل ہی پریس کالونی چلی جائوں گی اور نواز خان سے مل لوں گی۔ارے بھئی نڈر نامہ نگار ہے۔‘
’’مائرہ اللہ سے دعا کروکہ یہ روز روز کے انکائونٹر بند ہوجائیںاور امن وسکون لوٹ آئے ہم بہت خمیازہ بھگت چکے ہیں۔‘‘
’’ارے پگلی پھر نواز خان کی رپورٹنگ کہاں دیکھ پائیں گے۔وہ دیکھو پھر سکرین پر آرہاہے۔‘‘
’’ ابھی ا بھی انکائونٹرختم ہوا ہے اور تمام بندوق برداروںکو مار گرایا گیاہے۔ اس انکائونٹرمیںکچھ سویلین بھی زخمی ہوئے ہیںایک گولی میرے جسم کو بھی چھوتی ہوئی نکل گئی یہ دیکھئے ایک معمولی سا زخم میرے بازو پر بھی لگ گیا ہے۔ سمے نیوز چینل کے لئے میںنواز خان۔‘‘مائرہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی رپوٹینگ کرتا ہے واقعی بہت بہادر نامہ نگار ہے۔‘‘
’’آج گولی بازو پر لگی ہے کل سینے پر لگے گی۔تم پاگل ہو میں چلی۔‘‘مائرہ کی سہیلی تنگ آکرچلی گئی تومائرہ خود سے بڑ بڑانے لگتی ہے۔
’’میں نواز خان سے ضرور ملوں گی۔‘‘شہر کے بیچوںبیچ پریس کالو نی کے احاطے میں اونچی اونچی عمارتوں پر مختلف نیوز چینلوں کے سائن بورڈ ٹنگے ہوئے تھے۔ مائرہ دائیں بائیں تاک جھانک کرتے ہوئے ایک ایک سائن بورڈ غور سے پڑھتی جا رہی تھی پھر ایک راہگیر سے دریافت کرنے پرنیوز چینل کے آفس کے بارے میں پتہ چلا۔وہ تھکی تھکی سی آفس کے اندر داخل ہوئی اور آفس میں موجودنواز خان اس سے پوچھ لیتا ہے۔
’’۔آپ کو کس سے ملنا ہے ؟ نواز خان پر نظریں پڑتے ہی وہ اطمینان سے نیچے صوفے پر بیٹھ گئی اور پھر دم لے کر کہنے لگی۔
’’میںشہر کے مشہور انڈسٹر یلسٹ حاجی رحمان کی اکلوتی بیٹی ہوں۔‘‘
’’حاجی رحمان ۔۔۔۔۔۔۔ان کو کون نہیں جانتا۔میں نے کئی مرتبہ ان کے انٹرویو کئے ہیں ۔جی تشریف رکھئے ۔کیا لیجئے گا۔‘‘
’’ایک پانی کا گلاس پلا دیجئے۔‘‘پانی پی کر مائرہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’دراصل میں آپ کی بڑی مداح ہوں۔آپ بڑی بے باکی اور بہادری سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔‘‘
’’شکریہ۔۔۔مگر یہ بڑا ہی جوکھم بھراکام ہے انکائونٹر کے دوران زندگی خطرے میں رہتی ہے۔پچھلے انکائونٹر میں گولی چھوتی ہوئی نکل گئی بال بال بچ گیا ہوں ۔‘‘
’’اللہ ہر بلا سے محفوظ رکھے۔زخم بھر گیاکیا۔‘‘
’’اللہ کا شکر ہے۔‘‘پھر مائرہ نے کھڑے ہوکر اپنی ڈائری آگے کرتے ہوئے کیا۔ ’’آٹو گراف پلیز۔ اپنا فون نمبر بھی لکھ دیجئے گا ۔‘‘
’’ارے میم میں ایک عام انسان ہوںمشکل سے زند گی گزر رہی ہے۔‘‘ وہ آٹو گراف لے کر خوش و خرم وہاں سے نکل آئی۔ پھروہ اکثر وبیشتر فون پر رات گئے تک باتیں کر تے رہتے اور آہستہ آہستہ ان کے روابط مضبوط ہوتے گئے ۔ بالآ خر دونوں نے شادی کے بندھن میں بندھنے کی رائے پر اتفاق کیا۔کچھ مدت کے بعد حاجی رحمان پر ان کی اہلیہ نے جب یہ بات ظاہر کی کہ مائرہ کسی نامہ نگار نواز خان سے شادی کرنا چاہتی ہے تو وہ بھڑک اُٹھے۔
’’یہ اس کا پاگل پن بو ل رہا ہے ۔حاجی رحمان کی بیٹی ایک نامہ نگار سے شادی کرے گی۔جس کی زندگی ہروقت خطرے میں رہتی ہے ۔‘‘
’’دیکھئے جی بیٹی بالغ ہے، کہیں کوئی غلط قدم نہ اُٹھالے۔ عقل مندی اسی میں ہے کہ دونوں کی شادی کی جائے۔‘‘
’’بیگم میری ریپیوٹیشن کے بارے میں سوچئے۔ایسے کئی نامہ نگار میرے ایک انٹرویو کے لئے گھنٹوں انتظار کرتے رہتے ہیںاور وہ سرپھرا نامہ نگارنواز خان انکائونٹر کے دوران کیمپوں میں داخل ہوکر رپورٹنگ کرتا رہتا ہے۔ اس کی زندگی کا کیا بھروسہ ؟۔‘‘
’’دیکھئے جی اس سے وہ کام کرنے کے لئے منع کریںگے۔کوئی اچھا سا بزنس شروع کرکے دیں گے اُسکو۔ پھر آرام سے زندگی گزاریں گے۔‘‘بیگم نے حاجی رحمان کو اطمینان دلانے کی کوشش کی۔
’’بیگم اس نے انکار کر دیاتو۔۔۔۔۔۔۔!ہماری بیٹی کی زندگی جہنم بن جائے گی۔ان نامہ نگاروں کی زندگی ہمیشہ خطرے میںرہتی ہے کل کسی انکائونٹر کی چپیٹ میں بری طرح پھنس گیا تو زندگی بھی جاسکتی ہے۔ ابھی وقت ہے اپنی بیٹی کو سمجھائو۔‘‘
’’دیکھئے جی میں نے اس کو بہت سمجھایا تھالیکن وہ کچھ بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ بس اسی کی مالا جھپنا چاہتی ہے، اس پر جیسے پاگل پن کا بھوت سوار ہوا ہے۔‘‘
’’یہ پاگل پن ہے، جو اس کی سدھ بدھ ماری گئی ہے۔‘‘مائرہ کے پاگل پن کے سامنے سبھی افرا خانہ اور رشتہ دار بے بس ہوگئے کیونکہ اس پر نواز خان کی دلیری اور بہادری کا بھوت اس قدر حاوی ہوا تھاکہ اس کے سارے حواس جیسے چت ہوگئے تھے۔ وہ صرف اور صرف اسی کا بننا چاہتی تھی۔بالآخر حاجی رحمان نے اسکی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور دونوں کی شادی ہوگئی اور وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا۔ کچھ مہینے بیت گئے ۔ماں بیٹی برآمدے میں بیٹھیں باتیں کررہی تھیں تو باتوں باتوں میں ماں نے کہا۔
’’بیٹی اپنے میاں کو کوئی اور کام کرنے کے لئے کہو۔‘‘یہ سنتے ہی مائرہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور ماں سے بولی۔
’’ماں وہ اپنی جان پر کھیل کر پل پل کی خبر لوگوں تک پہنچا رہا ہے یہ کام کوئی بہادر انسان ہی کرسکتا ہے اسی لئے تو میں اس کی دیوانی ہو ں۔‘‘
’’بیٹی یہاں کے حالات خراب ہیں۔ آئے دن انکائونٹر ہوتے رہتے ہیں، میری مانو سے کوئی دوسرا کام کرنے کیلئے راضی کر و۔‘‘
’’ہر گز نہیں ماں۔وہ ایک بہادر نامہ نگارکی زندگی ہی جائے گا۔‘‘مائرہ نواز خان کو اس لئے بھی پسند کرتی تھی کیونکہ وہ پل پل مبنی بھر حقیقت خبریں لوگوں تک پہنچا رہا تھا، اسی بنا پر اس نے کئی ایسی بڑی بڑی نیوز چینلوں سے کام کرنا چھوڑ دیا تھاجو اسے صحیح صحیح رپوٹنگ کرنے سے روک رہی تھیںکچھ مدت کے بعد مائرہ نے ایک خوب صورت بیٹے کو جنم دیا۔ سبھی افراد خانہ اور رشتہ دار خوشیوں سے پھولے نہیں سما رہے تھے مگرحاجی رحمان کے چہرے پر جہاں خوشی کے آثار نما ماں طور پر نظر آرہے تھے وہیں دل کے کسی کونے میںیہ ڈر بھی تھاکہ اس کا دامادروز خطروں سے کھیل رہا ہے، اس کی زندگی محفوظ نہیں ہے۔ مائرہ کا اب بڑا ہونے لگا تو نانا کی انگلی پکڑ کر اب چلنا بھی سیکھ گیا تھا۔ دونوں لابی میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ مائرہ نے بیٹے کو گود میں بٹھا کرٹی وی کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔’’وہ دیکھو تمہارے ابّورپوٹنگ کر رہے ہیں۔’’اس وقت میںسرحد کے قریب موجود ہوں۔دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے سے ایک دوسرے پر مہلک ہتھیاروں سے وار کر رہی ہیں۔ سرحدی علاقوں میں تنائو بڑھ رہا ہے اور لوگ نقل مکانی کر نے پر مجبور ہورہے ہیں۔ آئیے۔۔۔۔۔۔ لوگوں سے اس بارے میں ان کے تاثرات جاننے کی کوششیں کریں گے۔’’آپ بتائیے یہ گولہ باری کب سے ہورہی ہے۔‘‘
’’کل شام سے ہورہی ہے ۔اس گولہ باری میںکئی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔دولوگ مر بھی گئے ہیں۔یہ گولہ باری فوراََ بند ہونی چاہیے اور بات چیت کی جانی چاہئے۔‘‘
’’یہ وہ عورت ہے جس کا شوہر اس گولہ باری میں مر گیا ہے۔کیسے ہوا یہ۔؟‘‘ نواز اُس سے پوچھنے لگا۔’’ہم گھر کے اندر ہی تھے کہ فائرنگ شروع ہوگئی۔ میرے شوہر اس جگہ پر تھے ‘‘۔’’خاتون نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اچانک وہ دھڑام سے گر گئے، انکے سینے پر گولی لگ گئی۔ ارے میں لٹ گئی ۔۔یہ ہم سب کو ماریں گے ۔کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی ہے۔یہ پاگل پن ہے انسان انسان کو مار رہا ہے۔‘‘’’میں نواز خان۔‘‘۔وہ بس اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ آواز آئی۔ ’’نامہ نگار صاحب۔۔چھپ جائیے۔‘‘اس سے پہلے کہ نواز خان چھپ جاتا ایک گولہ ٹھیک اسی جگہ پر آکرپھٹ گیا۔آگ کے شعلے بھڑک اُٹھے۔ مائرہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔۔۔۔۔۔’’میرا نامہ نگار بھی۔۔۔‘‘اور مائرہ ان ان گنت عورتوں کی صف میں شامل ہوگئی جن کے شوہر اس رنجش کے بھینٹ چڑھ گئے۔
دلنہ بارہمولہ
موبائل نمبر:-9906484847