سلام و دعا کے بعد میں چند باتیں گوش گزار کرنا چاہتی ہوں۔
زندگی کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعدیہ سمجھ میںآیا کہ رشتے ، ناطے، دوست و احباب کسی مخصوص وقت تک ساتھ دیتے ہیں۔ افسوس بس اس بات کا ہے کہ سمجھا تو تب جب زندگی اپنے لئے بھی کم پڑرہی ہے۔
کاش چاپلوسی، کم ظرفی اور جھوٹی اپنائیت کا بہت پہلے پتا چل جاتا تو ہم اپنے لئے کچھ کرپاتے، سوچ پاتے۔ تاکہ آج کی لاچاری، لاچاری نہ ہوکر ہمارے لئے سرخ روئی کا سبب بن جاتی۔
’’کاش ایسا ہوپاتا‘‘۔
لیکن اب آج سوچنا جب ’’چڑیا چگ گئی کھیت‘‘ کے برابر ہے۔ پھر بھی زندگی اور صحت اجازت دے تو ہمیں اپنی ناکام حسرتوں کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھائے رکھنی چاہئے۔ زندگی ویسے بھی کسے معلوم ہے کہ کب دغا دے جائے۔ عمر چاہئے کوئی بھی ہو ہمیں اُمید کا دامن تھامے رہنا چاہئے تاکہ اطمینان اور سکون کے ساتھ قضا کا انتظار کرسکیں۔ اللہ کی ناشکر ی نہ ، جس نے خوبصورت حیات سے ہمیں نوازا ہے۔
مانا کچھ کام، کچھ مسرتیں، کچھ باتیں جوانی کے ایام میں اچھی لگی ہیں… دنیا والوں کو دیکھتے رہیں گے تو یہی سننے کو ملے گا…’’یہ بھی کوئی عمر ہے ایسا کرنے کی‘‘۔ یہ دنیا ہے جناب! زبانیں تو وہی بولتی رہتی ہیں جو آنکھوں کو جو دکھائی دیتا ہے۔ اپنے اندر کا زہر اُگل دیتے ہیں اور اس طرح اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔
کبھی آپ نے ٹی وی یا ریڈیو میں بیک گرائونڈ آوازوں کے بارے میں سوچا ہے کہ یہ دل لبھانے والی آواز کس کی ہے؟…نہیںنا… کیونکہ جب تک شخصیت پردے کے پیچھے رہتی ہے آدمی متاثر ہوتا رہتا ہے اور بولنے والے کی سحرانگیز آواز پر واہ واہ کرتا رہتا ہے۔ لیکن اس آدمی کو جب سامنے پاتا ہے تو اسکے اندر کی خوبصورتی کو ایک طرف کردیتا ہے اور اسکے بڑھاپے کی نامناسب شکل و صورت کو پرکھنے میں لگ جاتا ہے۔ ’’آواز تو دیکھو لگتا ہے یہ کوئی خوبرو نوجوان بول رہاہے۔ سامنے دیکھو تو کیا ہے یہ شخص، خود پر اترانے والے کی صورت تو دیکھو‘‘۔ ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘… اور اگر وہی شخصیت خوب رو ہو تو رائے ہی بدل جاتی ہے… واہ واہ… صورت ایسی ہے تو آواز بھی ویوی ہی تھی۔’’ماشا اللہ‘‘!… وغیرہ وغیرہ
میرا کہنے کا مطلب ہے کہ بندے، جن کو خالق کائنات نے بنایا ہے اور جنکے کے ہاتھ میں ردبدل کا یارا نہیں ہے ،کو برا بھلا کہنے کا یا اُن سے نفرت کا حق کسی کو ہرگزنہیںہے۔ انسان کے بس میں ہو تو کسی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لے۔ ہاں تب آدمی کی قابلیت کو قابل قبول مانا جاسکتا ہے جب وہ خصلت کو بدلنے میں مہارت رکھتا ہو… افسوس ایسا تو وہ کرے گا نہیں۔ البتہ مین میخ نکالنے میں رواں دواں رہے گا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے اُسے دل کا سکون جو ملتا ہے یہ سوچ کر کہ میں اس سے افضل ہوں، خوبصورت ہوں اور اس طرح اُسے اوروں کو اپنی طرف راغب کرکے گونا گوں خوشی ملتی ہے…
آدمی میں بنیادی طور حسد کا پہلو کہیں نہ کہیں موجود رہتا ہے۔ چاہے وہ کتنا بھی جہاں دیدہ کیوں نہ ہو۔ کبھی نہ کبھی اپنے اندر کی کم تری کو سامنے لے ہی آتا ہے…
یہ کہہ کے …’’میں تم سے بہتر ہوں، میری سوچ منفرد ہے، کوئی مجھ جیسا ہو نہیں سکتا، وغیرہ وغیرہ… شکر اللہ کا۔ یہ بدلنے بدلانے کے کام اس نے انسان کے ہاتھ میں نہیںدے رکھے ورنہ خوبصورت سے خوبصورت ترین بنانے میں وہ بجائے دوسروں کے خود پر زیادہ توجہ دیتا اور اس دوڑ میں فتنہ پرست اور خودغرض بن جاتا…
یوںتو آج کل یہ کام میک اپ نے کسی حد تک سنبھال رکھاہے لیکن کاش! خوبصورت چیزوں کو کہنے والے چھپانے والے دلوں کی خوبصورتی پہچان پاتے تو آج نفرت، حسد، خودغرضی کہیںنہ رہتی۔ ہر کس و ناکس کو ایک جیسی عزت و اپنائیت ملتی۔
ایک بات جو میں اوروں تک پہنچانا فرض سمجھتی ہوں کہ بہ وقت ضرورت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ خون کالے کا ہے گورے کا۔ اونچی ذات والے کا ہے یا عام آدمی کا۔ بس لے لیا جاتا ہے کیوں بیمار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت صرف خون کارنگ سامنے دکھائی دیتا ہے۔ دینے والے کی شخصیت کو ئی معنی نہیںرکھتی۔ آخر یہ تضاد آخر کیوں…؟
خاکہ بازار، دیوی آنگن، سرینگر،موبائل نمبر؛9906627994