افتخار اے درابو
آرکیمیڈیز نے دو ہزار سال پہلے کہا تھا کہ ‘مجھے کافی لمبا لیور دو اور کوئی جگہ دو جہاں اسے رکھوں،میںساری دنیا کوگھمائوںگا۔ یقیناً نالہ مار کی بحالی سمیت لفظی طور پر کچھ بھی ممکن ہے لیکن اس کے لئے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ کس مقصد کیلئے، کس قیمت پر اور کس اثر سے۔
مار کو دوبارہ تعمیر کیا جاسکتا تھا بشمول تہہ میں اینٹیں لگاکر ،بالکل اُسی طرح جس طرح بڈ شاہ نے اسے چھ صدی قبل تعمیر کیا تھا،جس پر بہت زیادہ اخراجات آئیں گے۔ چونکہ نالہ مار ،ڈل جھیل سے کافی پانی نہیں نکال سکے گا، جیسا کہ یہ تاریخی طور پر کر رہا تھا، ڈل میں پانی کی سطح کم ہونے کے باعث، ہمیں اس کے بجائے براری نمبل سے اس میں پانی لانے کے لیے بڑے پمپ لگانے کی ضرورت ہوگی جو بدلے میں ڈل سے پانی نکالے گا۔ اس کا مطلب پمپنگ کےلئے بہت زیادہ اخراجات اٹھانے ہوں گے۔ چونکہ برین سے لے کر دھاراتک پورے زبروان پہاڑی سلسلے کو شہری علاقہ بنایا گیا ہے، اس لیے کسی کو یقین نہیں ہے کہ پہاڑی سلسلے سے ڈل جھیل میں اتنا پانی بہہ رہا ہے کہ وہ نالہ مار کو پانی دینے کے قابل ہو سکے، جیسا کہ یہ تاریخی طور پر کر رہا تھا۔
نالہ مار کی بحالی کا مطلب موجودہ نالہ مار سڑک کو کھو دینا ہوگا۔ اس سے نہ صرف شہر خاص میں بلکہ سری نگر کے شمال کی طرف رہنے والی آبادی کے لیے ٹریفک میں بڑے پیمانے پر خلل پڑے گا۔ اس علاقے میں موجودہ سڑک کے نیٹ ورک کا پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور ان سینکڑوں دکانداروں اور دیگر کاروباری اداروں کا کیا ہوگا جو نالہ مار روڈ کے دونوں اطراف سے منسلک ہیں۔ اس کاروبار کو بحال کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر ہم دکانوں اور عمارتوں کو برقرار رکھتے ہیں اور موجودہ فور لین نالہ مار روڈ کے کیریج وے کے اندر مار تعمیر کرتے ہیں، تب بھی یہ وہاں کے کاروبارکو بڑے پیمانے پر متاثر کرڈالے گا۔مزید برآں، نالہ مار کی بحالی سے ہمیں کیا حاصل ہوگا۔ اگر یہ مشرق کا وینس ہونے کی بات ہے، تو ہمارے پاس پرانے شہر سے گزرنے والے پانی کی نالیوں کی بھول بھلیاںہیں (نہیں معلوم کہ وہ واقعی بہتی ہیں) جو عملی طورگٹروں میں تبدیل ہوچکی ہیںاور ایک اور دہائی میں، وہ ویسی ہی ہونگیں جیسا نالہ مار 60 کی دہائی کے آخر میں تھا۔ ہم ان آبی گزرگاہوں کو صاف کرکے بحال کیوں نہیں کرتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ، گندگی اور تجاوزات کو ہٹائیں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان آبی گزرگاہوں میں نالیوں کا اخراج نہ ہو، اور پھر ان کے کناروں کو خوبصورت بنایا جائے۔ ان کے ہائیڈرولکس کو بہتر بنانے میں کچھ سرمایہ لگائیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ آبی گزرگاہیں آبی نقل و حمل کے علاوہ ، کشتیوں میں سیاحوں کو پرانے شہر کے اندرونی حصوں کا دورہ کرنے کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ کچھ عرصے تک ان چینلز کو برقرار رکھنے کی اپنی صلاحیت کا کامیابی سے مظاہرہ کرنے کے بعد، ہم پھر نالہ مار کی بحالی کے معاملے پر دوبارہ غور کر سکتے ہیں۔
نالہ مار روڈ نہ بنتا تو کیا ہوتا:۔
ایک منٹ کے لیے اگر آج نالہ مار سڑک کے بغیر شہر خاص کا تصور کریں،اور یقیناً ہم نے وقتاً فوقتاً پرانے شہر میں سڑکوں کو چوڑا بھی کیا ہوتا، اس کے باوجود میرا یقین ہے کہ اگر نالہ مار سڑک نہ بنائی گئی ہوتی تو پورے شہر میں ٹریفک کا بہت بڑا مسئلہ درپیش ہوتا۔ شہر خاص میں کاروبار، خاص طور پر مہاراج گنج کے علاقے میںترقی نہیں ہوتی، بلکہ کئی سارےادارے بند ہو جاتے۔
اسی طرح مار روڈ کے ساتھ ہونے والے کاروبار بھی وہاں نہ ہوتے۔اور یہ صرف شہر کے مرکز کے بارے میں نہیں ہوتا، – شہر کی توسیع جو سری نگر کے شمال کی طرف ہوئی ہے یقیناً آج کے مقابلے میں بہت کم ہوتی۔ نالہ مار سڑک شہر خاص اور شمال، مغرب اور وسطی سری نگر کے درمیان مرکزی شریان کے طورپر کام کرتی ہے۔
مستقبل کیلئے سبق:۔
جب ہم ماضی میں جھانک سکتے ہیں او ر انگشت نمائی کرتے ہیں تواس سے یہ بہتر ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم مستقبل میں ایسی یا اس طرح کی غلطیاں نہ دہرائیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ پرانی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے نئی غلطیاں کرنے سے باز رہنے کیلئے سیکھیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اکثر ہم کسی مسئلے کو مکمل طور سمجھے بغیرمسائل کے بارے میں بہت مضبوط رائے قائم کرتے ہیںاور یہ نہیں سوچتے کہ اس وقت برسراقتدارلوگوں کے پاس کیا آپشنز دستیاب تھے اور انہیں مسائل کا سامناتھا۔
آج ہمارے پاس سری نگر شہر کے اندر تین آبی نہریں ہیں، ژونٹھ کوہل، سونہ کوہل اور کٹہ کوہل، جو توجہ کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ یہ نہریںنالہ مار کی طرح اگرچہ مشہور تو نہیں لیکن اپنی جگہ ان میں سے ہر ایک اہم ہے اور اگر صحیح طریقے سے ان تین نہروں کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے تو نالہ مار کو بھلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں،جو تا حال قابل رحم حالت میں ہیں۔ماضی پر واویلا کرنے کی بجائے ہمیں اپنے آپ کو ان تین نہروںکی بحالی کیلئے وقف کیوں نہیں کرتے ہیں؟۔
فی الوقت ان کی حالت قابل رحم ہے ۔ناقص ہائیڈرولکس کی وجہ سے ان میںبہت زیادہ گاد(ملبہ) جمع ہوا ہے اور ان میں بہت زیادہ پودوں کی نشوونما ہوئی ہے۔ ان پر بڑے پیمانے پر تجاوزات کھڑاکیے گئے ہیں اور جگہ جگہ گٹر کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ صرف رام منشی باغ گیٹ سے سولہ گلوان پل (ریڈیو سٹیشن سے برن ہال سکول کے درمیان) تک کا حصہ صاف ہے لیکن اس کے دونوں طرف بہت اونچی باڑ لگی ہوئی ہے۔دونوں طرف لنک باڑ سے اس میں جھانکنا ناممکن ہے، اس سے لطف اندوز ہونے کی بات نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان آبی نہروںکو بحال کیا جائے۔ ان کی صفائی کے علاوہ جس میںتجاوزات کو ہٹانا اور اطراف کی مرمت شامل ہے، ہمیں ان کے ہائیڈرولکس کا بھی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم ان کو صاف ستھرا اور بحری سفر کے قابل رکھنے کے لیے ان میں کافی پانی مہیا کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک نظم تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اس بے حسی اور لاپرواہی کا شکار نہ ہوں، جس کا انہیں پچھلے ساٹھ سے زائد سال سے سامنا کرنا پڑررہاہے۔
امید ہے کہ ان تینوں آبی نہروںکے احیاء کے ساتھ، ہم بابہ ڈیمب اور دیگر آبی ذخائر جیسے خوشحال سر،گِل سر اور آنچار سرپر بھی توجہ مرکوز کریںگے، حالانکہ خوشحال سر میں جناب منظور صاحب وانگنو اوران کی تنظیم NALCO کے اقدامات کی بدولت بڑے پیمانے پر بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ (اختتام پذیر)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)