قبرستان سے لاشیں باہر، علاقے کو آفت زدہ قرار دینے کا مطالبہ،لوگ حکومت سے فریادی
عظمیٰ یاسمین
تھنہ منڈی//راجوری سے بفلیاز تک بننے والی مغل شاہراہ، جس پر حکومت نے 400 کروڑ روپے سے زائد خرچ کئے، اس وقت عوام کیلئے سہولت کا نہیں بلکہ المیے کا نشان بن چکی ہے۔ 75 سالوں کے طویل انتظار، ترقی کے دعووں اور جدید انفراسٹرکچر کے وعدوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ حالیہ بارشوں میں علاقہ منیہال مکمل طور پر تباہی کی لپیٹ میں آ گیا۔ زمینیں کھسک گئیں، مکانات میں دراڑیں پڑ گئیں، درجنوں خاندان بے گھر ہو گئے اور سب سے افسوسناک منظر یہ سامنے آیا کہ منیہال کے قدیم قبرستان سے مردوں کی ہڈیاں باہر آ گئیں۔اس ناقابلِ تصور المیے کے خلاف منیہال گلی میں میگی موڑ کے مقام پرزبردست عوامی احتجاج دیکھنے کو ملا۔ مظاہرین نے سڑک پر ٹریفک روک کر تعمیراتی ایجنسیوں، مقامی انتظامیہ اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے کہا کہ اگر بروقت اور معیاری تعمیر ہوتی، تو آج اتنی بڑی انسانی اور مذہبی بے حرمتی نہ دیکھنی پڑتی۔مقامی عالم دین حافظ ڈاکٹر محمد اسحاق خان نے احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’یہ دل دہلا دینے والا منظر ہے، جب قبرستان کی مٹی بہہ جائے اور مدفون اجسام باہر آ جائیں۔ یہ صرف ایک قدرتی آفت نہیں، بلکہ انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے‘‘۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر فوراً اس علاقے کو آفت زدہ قرار دیں، اور متاثرہ خاندانوں کو فوری امداد فراہم کی جائے۔ حافظ اسحاق کے مطابق علاقے کے 80 فیصد مکانات ناقابلِ رہائش ہو چکے ہیں، زمینیں اور فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، اور لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مقامی نوجوان آصف خان نے بتایا کہ ’’ہم نے نائب تحصیلدار تھنہ منڈی کو صورتحال سے آگاہ کیا، جنہوں نے اقدامات کی یقین دہانی کرائی، لیکن زمینی سطح پر آج تک کچھ نہیں بدلا۔ لوگ پریشان ہیں، بچے خوفزدہ ہیں، بزرگ بیمار ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے‘‘۔عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر فوری طور پر ریلیف اور بحالی کا عمل شروع نہ کیا گیا، تو احتجاج کا دائرہ وسیع کر کے تھنہ منڈی سے راجوری اور جموں تک لے جایا جائے گا۔ لوگوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر قبرستان تک محفوظ نہیں رہے، تو پھر 400 کروڑ کی لاگت کس کام کی؟ یہ عوام کا پیسہ ہے، عوام کی امیدیں تھیں، جو اب ملبے کے نیچے دب چکی ہیں۔مقامی سماجی کارکنوں اور نوجوانوں نے کہا کہ علاقے میں بارشوں کے پانی کے نکاس کا کوئی مناسب نظام نہیں ہے۔ سڑکوں کی تعمیر میں ناقص میٹریل اور جلد بازی کے ساتھ کام مکمل کیا گیا۔ اس کا نتیجہ اب نہ صرف انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے بلکہ انسانی وقار اور مذہبی جذبات کی سنگین پامالی بھی ہو رہی ہے۔عوام نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پرعلاقے کو آفت زدہ قرار دیا جائے،متاثرہ خاندانوں کے لئے خیمے، راشن، طبی امداد اور مالی معاوضے کا بندوبست کیا جائے،ناقص تعمیر کے ذمے دار ٹھیکیداروں اور افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اورقبرستان کی حفاظت کے لئے مستقل بندوبست کیا جائے۔