یہ بار روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وادیٔ کشمیر میں ایک طویل عرصے سے ناقص اورنقلی ادویات کا کاروبار بڑے پیمانے پر جاری ہے۔وادی کے مریضوں یہاں تک کہ معصوم بچوںو نو نہالوں کو ادویات کے نام پر زہر کھلاکر اُن کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہےاور جس پر قابو پانے کے لئے جس طرح یہاں کی سابق حکومتیں ناکام ثابت ہوئیں،اُسی طرح موجودہ انتظامیہ بھی تاحال ناکام دکھائی دیتی ہےاور محکمہ صحت کے حکام بدستور مصلحتوں کے تحت کام چلا رہے ہیں۔قریباً بیس سال قبل سرینگر میں ایک تقریب میں کشمیر کے ایک شہرت یافتہ معالج ڈاکٹر جی آر کھورو نے اپنی تقریر میں یہ انکشاف کیا تھا کہ وادی میں قریباً ساٹھ فیصد نقلی ادویات فروخت ہورہی ہے۔
انہوں نے اُس وقت یہ بھی بتایا کہ نقلی اور ناقص ادویات کے استعمال سے لوگوں کی صحت بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔غالباً اسی لئے وادیٔ کشمیر کے ہسپتالوں ،طبی اداروں اور پرائیویٹ کلنکوں اور نرسنگ ہوموں میں روزانہ لوگوں کا اژدھام دیکھنے میں آتا ہے، اس کے علاوہ بھی ڈاکٹروں کی پرائیویٹ کلنکوں اور ادویات فروخت کرنے والی دکانوں پر صبح سے شام بلکہ رات گئے تک مریضوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔جس سے یہی دکھائی دیتا ہے کہ جیسے وادی کی ساری آبادی مختلف امراض میں مبتلا ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ نقلی ،ناقص اور سڑی ہوئی ادویات کی کھلے عام فروخت ہے۔تعجب ہے کہ وادی میں بہت سے ایسے لوگوں نے ادویات فروخت کرنے کی دکانیں اور اسٹورکھول رکھے ہیں، جن کے پاس ادویات فروخت کرنے کا اجازت نامہ تک نہیں ۔ ویسے بھی بغیر لائسنس اور جعلی لائسنس کے ادویات فروخت کرنے والی دکانیں زیادہ تر وادی میں ہی کھولی جاسکتی ہیںاور نقلی ادویات کے سب سے بڑے کھیپ کی فروخت بھی دادی میں ہی کی جاسکتی ہے۔جبکہ یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ اس انسان دشمن کاروبار میں وادی ٔ کشمیر کے ڈاکٹروں کی ایک خاصی تعداد اور محکمہ صحت کے بعض اہلکار بھی ملوث ہیں۔ڈاکٹروں کا ایک طبقہ نقلی اور غیر معیاری ادویات فراہم کرنے والی ایجنسیوں کے ایجنٹوں کے طور پر کام کررہا ہے۔جس کے نتیجے میں سرکاری ہسپتالوں اور طبی اداروں کو بھی نقلی ادویات سپلائی ہورہی ہیں،پھر یہی نقلی اور غیر معیاری ادویات اُن مریضوں کو دی جاتی ہیں جو علاج و معالجہ کے لئے ہسپتالوں اور دوسرے طبی مراکز سے رجوع کرتے ہیں۔سرینگر اور قصبہ جات میں ادویات فروخت کرنے والے بعض دکانداروں نے بھی انکشاف کیا ہے کہ وہ خود بھی ادویات کے اصلی اور نقلی ہونے کی پہچان نہیں کرپاتے ہیں کیونکہ نقلی ادویات تیار کرنے والے جعلساز اپنی نقلی ادویات کو کچھ اس طرح سے تیار کرتے ہیں کہ بالکل اصلی ادویات معلوم ہوتی ہیں۔اس انسان دشمن کاروبار کو ڈرگ کنٹرول محکمہ بڑی حد تک محدود کرسکتا تھا مگر یہ محکمہ ایسا نہیں کرتا ،جس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ڈرگ کنٹرول محکمہ کے بھی بعض ارکان نقلی ادویا ت سپلائی کرنے والوں سے ساز باز کرکے وسیع پیمانے پر دولت پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔جس سے وادی میں نقلی ادویات فروخت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہےاور اس طرح عوام کے جائز مفادات کی بیخ کنی ہورہی ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاشرتی بدیوں اور بُرائیوں کے حوالے سے ہماری انفرادی اور اجتماعی کارکردگی انتہائی افسوسناک ہے ۔رشوت ستانی ،دھوکہ دہی اور جعل سازی تو ہمارے معاشرے کی رَگ رَگ میں بس چکی ہے،جس کے منفی اثرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔لیکن صحت عامہ سے متعلق دھوکہ دہی اور جعلسازی پر ہماری چشم پوشی اور مسلسل خاموشی گویا ایک طرح سے ہماری اجتماعی خود کشی کے مترادف ہے ۔افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ اپنی اس وادی عام لوگوں کے لئے علاج و معالجہ کی سہولت اور اصلی دوا کا حصول کوئی آسان کام نہیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں اور طبی مراکزمیں ڈاکٹروں اور عملے کی ہمہ وقت موجودگی ،سرکاری سطح پر مفت ادویہ کی فراہمی اورعام طبی ٹسٹ کی سہولیات ،غریب و مفلس مریضوں کے لئے دن بہ دن مشکل بنتا جارہا ہے۔ایسے حالات میں ناقص اور نقلی ادویات کی خرید و فروخت اور ادویات کے نام پر زہر کھلاکر معصوم انسانی جانوں سے کھلواڑ کرانا،علاج و معالجہ کے نام پر مافیا اور جعلساز دوا فروشوں کے ذریعہ سادہ لوح غریب عوام کو یونہی لُٹوانا، کیامحکمہ صحت کے لئے کوئی بڑا جرم نہیں ہے؟