انسانی دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد عادل رہی ہے کہ افراد ، قوموں اور ملکوں کے مابین تنازعات کا حتمی حل کشت و خون اور جنگ و جد ل کے بعد با لآخر گفت و شنید کے ذریعے سے ہی ممکن ہو تا ہے۔ جنگ وجدل نے ہمیشہ المیوں کو ہی جنم دیا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک جتنا جلدی مناقشہ بازی میں مصروف افراد ،گروہوں اور اقوام کو ہو جائے اتنا ہی فائدہ نہ صرف محاربین کو ہو تا ہے بلکہ پوری دنیائے انسانیت پر اس کے خوشنما اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جموں کشمیر کے عوام ایک عرصہ سے تنازعۂ کشمیر کی لپیٹ میں جھلستے ہوئے غم والم کے کچوکے برداشت کر نے پر مجبور ہورے ہیں ۔ کئی دہائیوں سے وادی میں جاری کشت و خون نے دل دہلا نے والے انسانی المیوں کو جنم دیا ہے۔ آپسی انتقام گیریوں ، رقابتوں ، عداوتوںاوربدگمانیوں نے انسانی زندگی کی رعنائیاں ماندکر کے رکھ دی ہیں۔ یہاںزندگی کا وہ کوئی شعبہ نہیں ہے جو دو نیوکلیر طاقتوں کے مابین کشمیر تنازعے کے نتیجے میں متاثر نہ ہواہو۔ انسانی جانوں کا زیاں مسلسل جاری ہے ،با لخصوص ہماری با صلاحیت وخوب رو نوجوان نسل کو بم اور باردو نگلتا جارہا ہے۔ عوام میں ان گھمبیر حالات کے چلتے نفسیاتی بیماریاں اور ذہنی اُلجھنیں بے حد وحساب بڑھتی جارہی ہیں ۔ طویل عرصہ سے بلا ناغہ جاری دوطرفہ مخاصمت کے نتیجے میں سماجی تانے بانے بکھرتے جارہے ہیں،معیشت تباہی کی طرف لڑھکتی جا رہی ہے، سیاسی غیر یقینیت کا ما حول استحصالی عناصر کو پراوان چڑھا تا جارہا ہے، انسانی حقوق کی پامالیاں اور شرفِ انسانی کی دھجیاں اُڑانا معمول بن چکا ہے۔ دو طرفہ مکالمت موقوف ہونے تنازعہ طول پکڑتا جارہا ہے اور فی الحال دور دور تک تنازعہ ختم ہونے کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی ۔ جموں وکشمیر میں قومی کاز کو دبانے کے لئے مرکز صرف قوت ِبازو کے بل پر یہاں کے لو گوں کی جنیون آواز نہ سننے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دلی کی فوجی اور سیاسی قیادت ایک ہی لب و لہجے میں کشمیر کاز کے تعلق سے متشددانہ انداز ِ گفتار اپنائے ہوئی ہے ۔ کوئی بیچ کا راستہ نکالنے یا افہام وتفہیم کا سلسلہ شروع کر نے کی بجائے دونوں سطحوں پر اس سیاسی مسئلہ کا حل طاقت کے ذریعے ہی نکالنے میں مصروف ِ عمل ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عالمی برادری اور بین الاقوامی ادارے اس دیرینہ سیاسی مسئلہ کے قابل قبول اور پُرامن حل کے ضمن میں کوئی خاص دلچسپی لینا غالباً اپنی کسر شان سمجھتے ہیں، اس سے مسئلہ روز بروز اُلجھتا جارہاہے ۔ حالانکہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی مسئلوں کی فہرست میں آج بھی من وعن مو جود ہے اور یہ آج بھی جنوبی ایشاء کا سب سے پُرانا حل طلب مسئلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ کشمیر حل کی جانب سنجیدگی سے توجہ کرنا تو دور کی بات رہی ، یہاں کے لوگوں کی حالت ِزار اور انسانی حقوق کی عیاں وبیاں زبوں حالی پر بھی عالمی طاقتیں اور عدل و انصاف سے منسوب ادارے لب کشائی کے لئے بھی تیار نہیں ۔ حا لانکہ یہ ان کی منصبی ذمہ داری بنتی ہے کہ و ہ نہ صرف ا س خطے کے لوگوں کو درپیش جان کاہ حالات کا نوٹس لیں بلکہ مسئلے کا آبرومندانہ حل نکال کرجنوبی ایشیاء کو امن وترقی کا گہوارہ بنا کر کروڑوں لوگوں کو راحت پہنچا یں۔ افسوس کہ ایسا کہیں بھی ہو تا ہوا دکھائی نہیں دے ر ہا ۔ نتیجتاً جموں وکشمیر کے بے یارو ومددگارلوگ برابر مظالم و مصائب کا تختہ ٔ مشق بنے ہوئے ہیں۔
ان ہی ناگفتہ بہ حالات کے بیچ گزشتہ ماہ ناروے کے سابق وزیر اعظم کیل مینگے بونڈوک اچانک کشمیر کا دورہ کرنے کے لئے سری نگرا ٓپہنچے۔ ان کا مشن کیا تھا ،اس بارے میں قدرتی طور کافی چہ مہ گوئیاں ہوئیں۔ سوال یہ اُٹھا کہ مودی حکومت نے اپنی سخت گیر کشمیر پالیسی کے باوجود انہیں کشمیر تک رسائی دینے کی اجازت کیونکر دی، جب کہ ان کے لئے اگلے چھ ماہ کا لمحہ لمحہ پارلیمانی الیکشن کے تناظر میں بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ بہر حال سری نگر پہنچتے ہی موصوف سید علی گیلانی کے گھر واقع حیدر پورہ سرینگر میں مشترکہ مزاحمتی قیادت کے ساتھ ملاقات کے لئے حا ضر ہوئے۔ بات چیت کن نکات پر مر کوز رہی ،اس بارے میں کوئی خاص وضاحت نہ ہوئی ،البتہ بونڈوک کی غیر متوقع کشمیر آمد کو یہاں کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں خاصی دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے ۔ اس حوالے سے پیدا ہونے والے حا لات پر مبصرین گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ پچھلے چھ برس میں کسی اہم غیر ملکی شخصیت کی کشمیر کے آزادی پسند لیڈروںکے ساتھ کی جانے والی پہلی ملاقات تھی۔ بو نڈوک کے دورے سے متعلق مختلف حلقوں اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے مختلف آراء اور تاویلیں کی گئیں۔ دورے سے متعلق خاص بات یہ رہی کہ کیل مینگے بونڈوک نے اپنے مختصر دورے کو صرف مزاحمتی قیادت کے ساتھ ملاقات تک ہی محدود رکھا، سرکاری ہستیوں سے وہ دور ہی رہے ۔ سرینگر سے واپسی پر موصوف دہلی میں کئی اہم سیاسی شخصیات اور لیڈروں سے ملے ،البتہ دہلی میں ان کی ملاقات کن کن کے ساتھ ہو ئی ،اس کو کسی مصلحت کے تحت خفیہ ہی رکھا گیا ۔ اس کے بعد آپ نے پاکستان کا دور بھی کیا ،جہاں اُنہوں نے اسلام آباد اورمظفر آباد میں کئی سرکاری عہدیداروں کے علاوہ غیر سرکاری شخصیات کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں ۔ اسلام باد میں اُن کی ملاقات پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ بھی طے شدہ پروگرام کے مطابق ہوئی ، جب کہ مظفر آباد میں عہدیداروں سے ملاقات کے علاوہ انہوں نے کنٹرول لائن کا بھی دورہ کیا ۔قابل غور بات یہ ہے کہ مغربی اور یورپی لیڈر اور سفارت کار بھارت اور پاکستان کے دورے کرتے رہتے ہیں لیکن کشمیر کے دونوں حصوں میں آکر کشمیریوں سے رسمی طور براہ راست بات چیت کرنا اور وادی کے زمینی حالات سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کا رواج قریب قریب عنقا ہے۔ ایسے میں ناروے کے معروف مصالحت کار اور سابق وزیراعظم کا متنازعہ خطے کا دورہ ایک غیر معمولی خبر کے طور ماناجانا معقول بات ہے۔ کیل میگنے بونڈوک کے دورے کے پس ِپردہ کو ن سے اسباب و محرکات کافرما رہے ہیں ،اس بارے وثوق کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے ۔ البتہ کچھ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے ادارے کی طرف سے چند ماہ قبل جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر جاری کی گئی رپورٹ کو عالمی اداروں کی طرف سے سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور وہ بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کو جموں کشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی پامالیوں پر روک لگانے ا ور تنازعہ کے متفقہ حل کے لئے دباؤ ڈال ر ہے ہیں ۔ مذکورہ رپورٹ پر یورپین یونین اور دیگر کئی ممالک نے بھی افسردگی اور تشویش کا اظہار بھی کیا ۔ بونڈوک کے حالیہ دورہ سے بھی اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ شاید عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے باعث خطے کی نازک صور ت حال کا شاید سنجیدہ احساس ہو نے لگا ہے۔
واضح رہے کہ ناروے دنیا کے کئی تنازعات میں پس پردہ ثالثی کے لئے مشہور رہا ہے۔ اس کی ایک مثال1993 ء میں فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان ہو نے والامعاہداوسلو ہے۔ ناروے کی ثالثی نے اوسلو معاہدے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اوسلو معاہدے میں ناروے نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک محتاط اور محدود درجے کے سہولت کار سے لے کر ایک با ضابط ثالث کی حیثیت سے رول ادا کیا ۔ یہ ثالثی با لآخر ایک تاریخی معاہدہ جو اوسلو معاہدہ کے نام سے مشہور ہے ،پر منتج ہوا۔ اس کے علاوہ اوسلو سینٹر نے دوسرے کئی اہم مسائل جیسے سری لنکا ، افریقہ ، نیپال وغیرہ کے نسلی مسائل کے حل کے لئے بھی ثا لثی کا کردار ادا کیا ہے۔ کیل میگنے بونڈوک اوسلو سینٹر ناروے کے بانی اورایگزیکیٹو ڈائریکٹر رہے ہیں۔ آپ دو بار ناروے کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔بونڈوک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 2001ء سے کشمیر کے معاملات میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیںاور اس حوالے سے کئی عالمی سیمینار منعقد کر چکے ہیں۔بونڈوک نے 2017ء میں پاکستان کا دورہ کر کے وہاں بھی کشمیر پر ایک سیمینار کا انعقاد کیاتھا۔ متنازعہ جموں و کشمیر کے اپنے حالیہ دورے کے بعد آپ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ بھارت ، پاکستان اور کشمیریوں کو مل کر بات چیت کا آغاز کرنا چاہئے تاکہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے مصائب کو کم کیا جائے اور مسئلہ کے حل کے لئے کو ئی راستہ نکل آئے۔ساتھ ہی اس اہم بات کی بھی نشاہدہی کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کو ئی فوجی حل نہیں ہے بلکہ بھارت اور پاکستان کو کشمیریوں کے ساتھ مل کر سہ فریقی مذاکرات کا سلسلہ شروع کر نا چاہئے ۔ بھارت نے سرکاری سطح پر ناروے کے سابق وزیر اعظم بونڈوک کے دورے سے متعلق محتاط رہ ر کر کم وبیش خاموشی اختیار کرلی جسے اس بات کا تاثر ملتا ہے کہ بو نڈوک کے کشمیر دورہ کو حکومت ہندکی طرف سے گرین سگنل حاصل تھا۔ چونکہ بھارت کی روایتی پالیسی رہی ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو دو فریقی معاملہ قرار دیتا ہے اور کسی بیرونی ثا لثی کردار یا سہولت کاری کو سرے سے ہی مسترد کرتا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل میں تیسرے فریق اور ثالث کی اصطلاح سے بھدک جاتا ہے، اس حقیقت کے تناظر میں اگر بونڈوک دورے کو یقینی طور ایک دلچسپ اور قابل توجہ پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہو نہ ہو کہ ا سے بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر متروک اور منجمد ڈپلومیسی بحال ہو جائے اور ثالث کی اصطلاح کا استعمال کئے بغیر ناروے مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان تعلقات میں برف پگھلوانے اور ٹوٹے ہوئے تار پھر سے جو ڑنے میں کامیاب ہو ۔ ا ُمید کی جاتی ہے کہ موصوف کے دورے سے دونوں ملکوں کے مابین معطل مذاکرات کا ازسر نو آغاز ہو گا اور مسائل کے حتمی حل کے لئے پُرامن طریقہ کار بروئے کار لاکر دونوں ملکوں کے درمیان خو شگوار تعلقات قائم ہو جائیں گے۔
کچھ سیاسی تجزیہ نگار اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے آغاز کو خارج ازامکان قرار دیتے ہیں کیونکہ بھارت میں 2019ء میں پارلیمانی الیکشن ہو نے جا ر ہے ہیں اور بھاجپا کی سرکردگی میں مو دی حکومت نے کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے ایک قسم کی سخت اور بے لچک پالیسی اختیار کر ر کھی ہے جسے وہ اس پوائنٹ آف ٹائم پر دستبرادار نہیں ہو سکتا ہے۔ خاص کر گزشتہ دنوں اسے ہندی ہارٹ کی جن ریاستوں میں سخت انتخابی ہار کا سامنا رہا ،اس سے بھاجپا کی صفوں میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیٹ ڈاول کو بھاجپا حکومت کی اس کشمیر پالیسی کا موجد وخالق مانا جاتا ہے۔یہ پالیسی ڈاول ڈاکٹرائن( (Doval Doctrineکے نام سے موسوم ہے ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان اور کشمیر کی مزاحمتی قیادت کے ساتھ بات چیت کرنے کا کوئی آپشن مو جود نہیں، بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس پالیسی کے مطابق ان کے ساتھ سختی اور قوت کے ساتھ نپٹنے کے طریقہ کار پر عمل درآمد کی ہدایات اس ڈاکٹرائین کا لب لباب ہے۔ 2014ء میں نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کے قیام سے جموں و کشمیر میں حالات کا چکر من و عن اسی پالیسی کے تحت چل رہا ہے، باوجود یکہ یہ پالیسی ناکام ثابت ہورہی ہے ۔ بایں ہمہ بھاجپااپنی معیادِ حکومت کے اختتام پر سر کاری طور اس پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا خطرہ مو ل نہیں لے سکتی کیونکہ ایسا فیصلہ آنے والے انتخابات میں اس کے لئے سیاسی طور نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ بیرونی اور اندرونی دباؤ کے باوجود 2019ء میں نئی مرکزی حکومت کے قیام تک دلی دوطرفہ مذاکرات کے لئے حامی نہیں بھر سکتی ۔اس کا عندیہ بونڈوک نے بھی بھارتی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کے بعد دیا۔ کشمیر کے نام پر دونوں ملکوں میں الیکشن کے زمانے میں ایک خاص لائن اختیار کی جاتی ہے۔ اسے الیکشن منشور کا حصہ بنایا جاتا ہے اور اس مدعے پر ہی عوام سے ووٹ بٹورے جاتے ہیں۔ چونکہ بھارت اور پاکستان دونوں کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسوں پر ووٹ بنک کی سیاست کے حا مل رہے ہیں ۔ بنابریں یہاں کی ہندوتوا نواز سیاسی پارٹیاں کشمیر کا بھارت کے ساتھ مکمل انضمام اور جموں و کشمیر کے سپیشل آئینی سٹیٹس کو ختم کرنے کو الیکشن منشور کا لازمی حصہ بناتی رہی ہیں ۔ اسی طرح پاکستان کے قومی الیکشنوں میں بھی جموں وکشمیر کے لوگوں کی تحریک حق خود ارادیت کی ہر ممکن مدد فراہم کر نے کے زبانی کلامی وعدے سیاسی پارٹیوں کے الیکشن منشور کا جزء لاینفک بنارہتاہے۔ الیکشن سیزن میں دونوں ممالک کشمیر کے تعلق سے اپنے اپنے روایتی موقف میں کوئی لچک دکھانے کا تاثر نہیں دیتے ہیں۔ اندریں حا لات بات چیت کا سلسلہ شروع ہونے کو واقف سیاسی تجزیہ نگار بعید از قیاس قرار دیتے ہیں۔البتہ دونوں ملکوں کے اندر موجود سنجیدہ اور متوازن سیاسی تدبر کا حامل طبقہ اور کئی پالیسی ساز لو گوں کی طرف سے بھارت کے الیکشن کے بعد مذاکرات کے آغاز کی اُمید کا اظہار کیا جارہاہے۔ ان مذاکرات میںاوسلو سینٹر کا رول کیا ہو گا، اس حوالہ سے قبل از وقت کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ البتہ کہیں نہ کہیں مذاکرات کے حوالے سے اس ادارے کا رابطہ دونوں ملکوں کے ساتھ جڑا ہو ا دکھائی دے رہا ہے اورعین ممکن ہے کہ مستقبل میں ثالثی کی اصطلاح کا استعمال کئے بغیر خاموشی کے ساتھ اوسلو سینٹر اپنی سرگرمیوں میں سرعت لاکر دونوں ملکوں کو مذاکرات کے لئے آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگا۔