گزشتہ دنوں ریاست کے ناخیز طلبہ وطالبات کے لئے تعلیمی وظائف دئے جانے کا سرکاری اعلان ہوا جواس طبقے کے لئے مژدہ ٔجاں فزا اور مستحسن اقدام ہے ۔ عوامی حلقوں میں بھی ا س اعلان کی کافی سراہنا کی جارہی ہے ۔ یہ اعلان گورنر ستیہ پال ملک نے جموں میں جسمانی طور ناخیز بچوں بچیوں کے تعلق سے منائی گئی ایک تقریب میں کیا ۔ تعلیمی وظیفے کا مقصد جسمانی طورناتواں بچوں بچیوں کو تعلیمی اور تکنیکی میدانوں میں آگے بڑھانا، انہیں زندگی کے دھارے سے جوڑنا ، انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ دینا ہے۔ ا لبتہ یہ تعلیمی وظیفہ صرف اُن سٹوڈنٹس کے حق میں منظور ہوگا جو جسمانی طور ناخیز ہونے کے باوجود میرٹ ہولڈر ہوں، یعنی اس وظیفے کا حصول اُمیدوار کی قابلیت اور اہلیت سے مشروط رکھی گئی ہے ۔ شاید ا س شرط کے پیچھے یہ نیک خیال کارفرما ہوکہ جسمانی طور ناخیز طلباء غبی نہ ہوں ،وہ اپنی قابل قدر اور معیاری تعلیمی ذہانت کے بل بوتے پر جینے کے وصف سے متصف ہوں ۔ حق یہ ہے ایسے تمام مخصوص بچوں اور بچیوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی ہونا تقاضائے انسانیت کا جزولاینفک ہے، ان پر رحم کھانا ہر کس وناکس کی اخلاقی ذمہ داری ہے مگر محض انہی چیزوں تک محدود رہنے سے گھر، سماج اور سرکار اس مخصوص طبقے کا دائمی بھلا نہیں کرسکتے ۔اس کے بجائے اُن کی باعزت ، بہتر اور کامیاب زندگی کے لئے ضروری ہے کہ یہ محبت اور ہمدردی کے ساتھ ساتھ روز مرہ زندگی کٹھنائیوںسے بھی آشناہوں ، یہ عمومی نوعیت کے مسائل ِ حیات سے نبرد آزما ہونے کی ہمت بھی رکھتے ہوں ، یہ ہر طرح کے چلنجوں کے بیچ فتح پانے کے جذبے سے بھی سرشار ہوں۔ واقعی اسی صورت میں جسمانی طور ناخیز لڑکے اور لڑکیاں اپنے لئے یا سماج کے لئے کو ئی بوجھ نہیں بلکہ اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔ مخصوص زمرے کے ایسے افراد ہر سماج میں پائے جاتے ہیں ۔ مقامِ شکر ہے کہ جدید دنیا اُنہیں دھتکارتی نہیں بلکہ انہیں گلے لگاتی ہے، آزادنہ روزگار کمانے کے لئے ا ن کوکام کاج بھی دیا جاتاہے تاکہ ان کی ہنر مندانہ قابلیتوں سے استفادہ بھی ہو اور یہ کسی پر بوجھ بھی نہ بنیں ۔ عصر حاضر میں ان کے عزتِ نفس کا خیال ا س قدر رکھا جارہا ہے کہ اُن کی نجی شناخت کا حصہ اُن کی جسمانی ناخیزیاں نہیں بن پاتیں ۔ حساس ذہن گھر اور سماج انہیں لنگڑا لولا ، نابینا ، بہراگونگا وغیرہ کہہ کر نہیں بلاتا بلکہ تہذیب تمیز کے ساتھ خصوصی قابلیتوں کے حامل بچے (specially-abled children)کہہ کر پکارتاہے ۔ ا س محتاط طرز کلام سے ان کا حوصلہ نہیں ٹوٹتا، ان کی ہمت جواب نہیں دیتی ، ان میں کچھ کر نے کا جذبہ مر نہیں جاتا۔ بالفاظ دیگر مہذب نام سے پکار کرا نہیں سماج گویا تاثر دیتاہے کہ تم میں کوئی کمی نہیں ، تم آسمان کو چھوسکتے ہو ، تم کامیاب اورخوددار زندگی جینے کی صلاحیت سے مالامال ہو ، تم اپنے اندر کوئی جسمانی کمی پا کر اپنا حوصلہ ہار نہ بیٹھنا ، کائنات کے خالق ومالک نے تمہیں ایسی غیر معمولی خصوصیات سے نوازا ہے جن کی بدولت تم جسمانی وذہنی طور تندرست وتوانا لوگوں سے بڑھ کر کامیابیاں پاکر عزت وآرام سے جی سکتے ہو۔ اس میں دورائے نہیں کہ موجودہ دنیا میں ہر جگہ جسمانی طور ناخیز بچوں بچیوں کے سماجی تحفظ کے لئے دونوں حکومتی اور غیر سرکاری سطحوں پر کافی ا سکیمیں روبہ عمل لائی جا تی ہیں۔ ا س ضمن میں مغرب میں قدم قدم قابل تقلید مثالیں دیکھنے کوملتی ہیں ۔ اہل مغرب کی حکومتیںہو ںیا رضاکار تنظیمیں، یہ سب مشترکہ طور جسمانی طور معذور افراد کے ساتھ اتنے حسنِ سلوک سے پیش آ تی ہیں کہ یہاں کسی فردبشر کی کوئی بھی جسمانی ناخیزی اسے مکمل زندگی جینے کے حق سے محروم نہیں کرتی۔ اسلام میں معذورین کے تئیں انفردای اور اجتماعی سطح پر محبت اور خصوصی مہر بانی و کرم فرمائی پر زور ہی نہیں دیا گیا ہے بلکہ جس گھر یا خانوادے میں کسی جسمانی معذوری سے متاثرہ فرد کے ساتھ کمال مہروماہ اور جود وسخا کے پیش آیا جائے،اُس پراللہ کی نگاہِ کرم ہوتی ہے ،وہ فرد محبوب خدا کہلا تا ہے ، اُس کے لئے رزق کی کشادگی کی بشارت بھی ہے۔ بہرصورت ہمارے یہاں جسمانی معذوری سے جھوج رہے افراد کے تئیں گھر اور سماج کا رویہ بحیثیت مجموعی ہمدردانہ اور غیرت مندانہ ضرورہے مگر اس تعلق سے کم ہی سہی ایسی مثالیں بعض کندہ ٔ ناتراش قائم کر نے سے نہیں چوکتے کہ بچپن سے ہی یہ گھر کے معذور بچے یا بچی کوگداگری پر لگادیتے ہیں۔ بنابریں بھیک مانگنے کی ذلیل نفسیات ان میں اس طرح رَچ بس جاتی ہے کہ پھر کوئی طبیب یا حکیم بھی ان سے یہ چھڑوا نہیں سکتا۔ اس ضمن میں قانون کا ڈنڈا نہیں بلکہ صرف سماج ہی اس بیمار ذہن سوچ پر قابو پاسکتا ہے ۔ ریاست میں جسمانی طور ناخیز افرادکے لئے بہت ساری اسکیمیں نافذالعمل ہے مگر کیا ان اسکیموں کا فیضان انہیں پہنچتا بھی ہے ، اس پر بدعنوانیوں کے طوفان کے پیش نظر وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ تجربے کی بات کر یں تو خدشہ یہی ہے کہ جس طرح سرکار کی اکثر و بیش تر فلاحی اسکیموں کا اصل ثمرہ اُن متعلقہ لوگوں کو شاذونادر ہی پہنچتا ہے جن کے لئے یہ اسکیمیں وضع کی جاتی ہیں، اُسی طرح سے جسمانی طور ناخیز بچوں کی اسکیموں کا حشر ہوتا ہوگا۔ اس لئے گورنر انتظامیہ کو چاہیے کہ یہ نو اعلان شدہ مخصوص تعلیمی وظائف کو اصل مستفدین تک پہنچانے کے لئے اول انہیں متعلقین کے لئے سہل الحصول بنائے ، دوم اس میں غیر ضروری دفتری طوالت کا روگ در نہ آنے دے ، سوم اُن محتاجِ کرم ہونہار بچوں اور بچیوں کو انتظامیہ تک براہ راست رسائی دینے کا میکانزم وضع کرے تاکہ اس نیک دل اسکیم کا فائدہ کسی صورت زائل نہ ہو ۔