بلا شبہ عصرِ حاضر میں کوئی فرد ایسا نہیں جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان نہ ہو،کیونکہ بیشتر ملکوں میں ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔کسی حد تک یہ ایک فطری امر بھی ہے کیونکہ آبادی میں جس قدر اضافہ ہورہا ہے،اُس قدر روزمرہ استعمال ہونے والی چیزوں کی پیداوار میں نہیں ہورہاہے۔ جبکہ ہندوستان میں مہنگائی کا مسئلہ دنیا بھر کے سبھی ملکوں سے زیادہ شدید اور تشویشناک ہے،جس کے نتیجے میں ترقی کے منصوبےپوری طرح عمل میں نہیں آرہےہیں۔اب اگرہم وادیٔ کشمیر کی بات کریںتویہاں زرعی پیداوار، صنعتی ترقی اور بے روزگاری ختم کرنے کے منصوبوںپرآج تک کوئی ایسی خاص حکمت ِ عملی سامنے نہیں آئی ہے کہ جس سے کشمیر خودکفالتی کے راستے پر گامزن ہوجاتا اوریہاں غریبی اور بدحالی کا خاتمہ ہوجاتا۔ ان حالات میں مہنگائی کی صورتحال کو منافع خوری، بلیک مارکیٹ اور رشوت نے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ درمیانہ اور اوسط طبقے کے لوگ بھی پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرپارہے ہیں۔شہر سرینگر اور بیشتر دیہات میں روز مرہ استعمال ہونے والی اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کسی طرح کا کوئی اعتدال نظر نہیں آرہا ہے ۔ہر بازار میں جس انداز سے ضروری چیزوں کی قیمتیںمن مانے ڈھنگ سے وصول کی جارہی ہے ، اُس سے ساری آبادی پریشان ہے ۔خاص طور پر معاشرہ کا وہ طبقہ جس کا گذر بسر محدود آمدنی پر منحصر ہے، زیادہ تکلیف کا شکار ہورہا ہے۔
اشیائے خورد و نوش فروخت کرنے والے تقریباً سبھی لوگ بہت زیادہ ناجائز منافع خوری کررہے ہیں اور متعلقہ سرکاری ادارے قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے ،بلا جواز اضافہ کرنے کی کاروائیوں پر قدغن لگانے اور حد سے زیادہ منافع خوری پر روک لگانے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں ۔جس کے نتیجے میں لوگوں کو درپیش مسائل اور مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔صارفین کو ہر ضرورت کی اشیاء باہر کی ریاستوں کے مقابلے میں تگنی قیمت پر ملتی ہے ۔حتیٰ کہ جو چیز ملک کی دوسری ریاستوں میں دس روپے میں ملتی ہے، وہ چیز وادی میںتیس روپے میں فروخت کی جاتی ہے،سبزیوں ،میوئوں اور دوسری کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں کا تعین کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ جموں اور لداخ کے مقابلے میں یہاں ناجائز منافع خوری حد سے زیادہ ہورہی ہے۔اگرچہ روز افزوں مہنگائی کے بڑھتے ہوئے سلسلے کے متعلق سرکاری طور پر کبھی کبھی یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یہاں ضرورت کی ہر چیز چونکہ درآمد کی جاتی ہے جس کی بنا پر قیمتوں کا تعین ریاست سے باہر ہوتا ہے ،اس لئے یہاں کا انتظامیہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مگر جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے انتظامیہ کی یہ دلیل بالکل بے وزن اور غیر معقول ہے۔
کیونکہ جو چیزیں وادی میں ہی پیدا ہوتی ہیں،اُن کی قیمتوں کا تعین کون کرتا ہے۔چنانچہ یہاں کے تاجر ،تھوک کاروباری حلقے ، دکاندار ،ریڑے والے اور چھاپڑی فروش ضروری اشیاء کی جو قیمتیں مقرر کرتے ہیں،اُس کے متعلق کیاریاستی انتظامیہ کے متعلقہ اداروں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس حد تک مناسب اور معقول ہیںاور لوگوں کی قوت خرید کے حدود میں ہیںیا نہیں؟عوامی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دن بہ دن من مانے اضافے تاجروں اور متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کی باہمی ملی بھگت کانتیجہ ہوتی ہے،خاص طور اُن اوقات میں جب جموں سرینگر قومی شاہراہ کسی نہ کسی وجہ سے آمدرفت کے لئے بند ہوجاتی ہے۔ہمارا خیال ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عوام حکومت کو اس سلسلے میں مناسب تعاون نہیں دے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون اور حکومت ہی ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو سزا دے سکتی ہے، لیکن کیا یہ عوام کا فرض نہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو قانون کی نظر میں لائیں،پُرامن طریقوں سے ذخیرہ اندوزوں وغیرہ کو بے نقاب کریں اور اُن کا سماجی بائیکاٹ کریں۔اگر عوام اور حکومت دونوں اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح خلوص اور لگن سے انجام دینے کی کوشش کریں تو بے شک وہ دن دور نہیں جب ناجائز منافع خوری پر قابو پایا جاسکے۔