زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے طرز زندگی میں جو تبدیلی رونما ہورہی ہیں اُس کے متعدد مثبت اور حوصلہ افزاءپہلو ہیںلیکن اس کے ساتھ ساتھ اسکے کچھ منفی پہلو بھی ہیں، جو سماجی سطح پر نہ صرف نقصان دہ ہیں بلکہ مستقبل میںایک غلط روایت قائم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک انتہائی اہم پہلو زندگی کے مختلف شعبوں میں نابالغوں حتاکہ بچوں سے خدمات لینے کا ہے۔ آج شہر اور قصبہ جات میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھریلو نوکروں کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ دوکانوں اور ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں سیلز مینوں اور کنڈکٹروں کی حیثیت سے کام کرنے والے نابالغوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ ریاست میں نافذ لیبر قوانین کے تحت اگر چہ یہ ایک سنگین جرم ہے لیکن یہ سب کچھ کُھلی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور متعلقہ محکمہ اس صورتحال سے بے خبر لگ رہا ہے۔ اگر چہ محکمہ کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کےلئے نفری کی کمی نہیں مگر اس کے باوجود زمینی سطح پر کارکردگی کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق محکمہ نے946انسپکشن کئے ہیں لیکن ان میں صرف دو مقامات پر نابالغوں کو گھر یلو نوکروں کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے پایا گیا ہے، حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ایسے واقعات جابجا نظر آتے ہیں اور مقامی ہی نہیں بلکہ غیر مقامی بچے بھی ایسے کاموں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ دوکانوں اور فٹ پاتھوں پر نابالغ سیلز مینوں کی تعداد اچھی خاصی ہے ،جبکہ ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں بھی انکی چیخ و پکار سنائی دینا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ اگر اسکی بنیادوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان نابالغوں میں اکثر غریب اور مفلوک الحال طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور گھریلو و اقتصادی مجبوریوں کی وجہ سے چھوٹی عمر میں کام کاج کرنے کےلئے مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ نہ صرف حکومت کےلئے ایک چلینج ہے بلکہ سماج کےلئے بھی ایک کُھلا امتحان ہے، جن میں حقوق اطفال کی پامالی کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے لیکن سبھی اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے بیٹھے ہیں۔ اس حوالے سے سماجی خدمات میں مصروف مختلف گروپوں پر بھی یہ ذمہ داری عائید ہوتی ہے کہ وہ اس ساری صورتحال کا جائزہ لیکر اُن کنبوں کو فہمائش کرنے کے علاوہ انکی مالی امداد واعانت کی کوشش کریں جنہیں مجبوراً اپنے بچوں کو مشقت پر بھیجنا پڑتا ہے۔ کلہم طور پر جہاں ایک جانب اس گھمبیر مسئلے پر سماجی بیداری پیدا کرکے عام لوگوں کو نابالغوں کے بنیادی حقوق کے بارے میں مثبت طور آگاہ کرنے کی ضرورت ہے وہیں دوسری جانب انتظامیہ پر یہ فرض عائید ہوتا ہے کہ وہ اس غیر قانونی عمل پر قدغن لگانے کےلئے پوری قوت کے ساتھ سامنے آئے اور لبیر قوانین کے ساتھ ساتھ نابالغوں کے حقوق کی پامالی کے قوانین کے تحت ایسے لوگوں کے خلاف کاروائی کریں جو گھریلو یا تجارتی اغراض سے نابالغوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو آنے والے وقت میں یہ غیر قانونی عمل ایک ایسی روایت اختیار کریگا، جو بادی النظر میں سماج کا ایک لازمی حصہ بن جائیگا ہے۔ محکمہ لیبر کے پاس افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں، جو اس غیر قانونی عمل کو روکنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ صرف عزم باندھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔کیا اس سمت میں کوئی پیش رفت ہوتی ہے ، یہ دیکھنے کی چیز ہوگی؟۔