ریاستی انتظامی کونسل نے جموں وکشمیر میں 40نئے ڈگری کالجوں کے قیام کو منظوری دی ہے جس میں 26وہ کالج بھی شامل ہوں گے جن کو پہلے سے ہی منظوری دی جاچکی ہے ۔یہ فیصلہ ریاست میں اعلیٰ تعلیم کی فراہمی میں اہمیت کا حامل ثابت ہوگا اور اگر ان کالجوں کا قیام انصاف کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے عمل میں لایاگیاتو یقینی طور پر کئی علاقوں کے طلاب کا مستقبل سنور سکتاہے ۔ریاست کے دوردراز علاقوں میں نئے ڈگری کالجوں کے قیام کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ کافی عرصہ سے اس کا مطالبہ بھی کیاجارہاتھا جس کو دیکھتے ہوئے سابق ادوار میں بھی کئی نئے کالجوں کا قیام عمل میں لایاگیاتاہم بدقسمتی سے بیشتر کالجوں کے معاملات میں سیاسی مصلحت سے کام لیاگیا جس سے کئی حقدار علاقے نظرانداز ہوکر رہ گئے ۔انہی سیاسی نوعیت کے فیصلوں کے خلاف خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب سمیت ریاست کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور لوگوں نے کالجوں کے قیام کے مطالبات کو لیکر کمیٹیاں تشکیل دے کر تحریکیں چلائیں جس کے بعد کچھ علاقوں کوتو کالج مل گئے تاہم کئی ایسے بھی ہیں جو آج تک اس سے محروم ہیں ۔یوںتو ہر جگہ ہی نئے کالجوں کے قیام کی ضرورت سمجھی جارہی ہے تاہم سب سے زیادہ ضرورت خطہ پیر پنچال و خطہ چناب کے طلباء کو ہے جہاں کئی علاقوں میں ہائراسکینڈری سطح کی تعلیم کے بعد کالج کی تعلیم حاصل کرنے کےلئے طلبہ کو گھروں سے دور کرایہ کے مکانوں میں قیام کرناپڑتاہے ،جو غریب طلبااور خاص کر طالبات کیلئے مشکل امر ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب پہاڑی علاقے ہیں جہاں آبادیاں دو ر دورتک پھیلی ہوئیہیںاور لوگوں کو تحصیل صدر مقام تک پہنچنے کیلئے ہی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔ایسے علاقوں میں طلباء ،خاص کر سبھی طالبات، کیلئے اعلیٰ تعلیم کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتا اوراکثر کالج دور ہونے کے باعث انہیں ترک تعلیم پر مجبور ہوناپڑتاہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ انتظامی کونسل کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے وقت انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھاجائے گااور ان علاقوںکو ترجیح دی جائے گی جو واقعی میں اس کے حقدار ہیں ۔ساتھ ہی حکام کیلئے اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ کالج کے قیام سے قبل بنیادی ڈھانچے کی فراہمی اور تدریسی عملے کی تعیناتی کو یقینی بنایاجائے نہیں تو یہ کالج بھی برائے نام بن کر رہ جائیں گے ۔اس سے قبل بھی یہ دیکھاگیاہے کہ حکومت کی طرف سے کالجوں کے قیام کو تو منظوری دی جاتی رہی ہے مگر نہ ہی ان اداروں کو چلانے کیلئے عمارتیں اور دیگر بنیادی ڈھانچہ میسر ہوتارہاہے اور نہ ہی طلباء کو پڑھانے کیلئے تدریسی عملہ ۔نتیجہ کے طور پر طلباء کو ہی مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے اور ان کی تعلیم متاثر ہوجاتی ہے ۔ماضی میںا یسا اس لئے بھی ہواہے چونکہ اس حوالے سے کئی فیصلے سیاسی مصلحت کے مطابق ہوئے ہیں اور فیصلے کرتے وقت صرف اور صرف سیاسی مقاصد کو مد نظر رکھاگیا تاکہ لوگوں کے سامنے کالج کے قیام کا سہرا اپنے سر باندھا جاسکے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے کالجوں کا قیام کیلئے جگہوں کا انتخاب منصفانہ بنیادوں پر ہوجس کی ریاست کے لوگ توقع بھی کررہے ہیں ۔