دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے، لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان تہواروں میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی گئیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوگیا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کےمنازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی، انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے نئے جشن اور تہوار وضع کردیئے۔
عیسوی سال کا آخری مہینہ دسمبر ختم ہوچکا ہے اور نیا عیسوی سال شروع ہوا ہے۔ ایک سال کا مکمل ہونا اور دوسرے کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی میں سے ایک سال کم ہو گیا اور ہم اپنی زندگی کے اختتام کے اور قریب ہوگئےہیں، لہٰذا ہماری فکر ، ہماری ذمہ داری اورہماری بہتر کارکردگی مزید بڑھ گئی ہے۔اس لئے ہمیں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور اپنے وقت کو منظم کرکے اچھے اختتام کی کوشش میں لگ جانے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنا محاسبہ کرکے کمزوریوں کو دور کرنے اور اچھائیوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ زندگی اللہ پاک کا عظیم عطیہ اور قیمتی امانت ہے،اس کا درست استعمال انسان کے لیے دنیوی کامیابی اور اخروی سرفرازی کا سبب ہے اوراس کا ضیاع انسان کو ہلاکت وبربادی کے دہانے تک پہنچادیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان کسی بھی عمل کو انجام دینے سے پہلے اس بات پر بہ خوبی غورکرلے کہ اس عمل کے ارتکاب کی صورت میں وہ کل کیا صفائی پیش کرے گاجب وہ اپنے معبودِ حقیقی کے سامنے جواب دہ ہوگا۔
آج مسلمان بھی نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے ،کیا اسے یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمت نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا، بلکہ افسوس کیا جاتاہے۔گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسین یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے۔ سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔
ہمیں یہ حقیقت ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سال نو،عیسوی سال نو ہے،ہمارا نیا سال ہجری سال ہےجو محرم سے شروع سے ہوتا اور ذی الحجہ پر اختیام اختتام پذیر ہوتا ہے۔ نیا سال ہجری ہو یا عیسوی ، ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے ،پہلا ماضی کا احتساب اور دوسرا آئندہ کا لائحہ عمل۔نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے، اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں، اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے، لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا۔اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا موٴاخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے،اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا۔ہم پر لازم ہے کہ نئے سال کے آغاز پر عزم مصمم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں، نیک کاموں میں صَرف کریںاورتوبہ ،ندامت ،انابت اوراستغفار کے ذریعے اپنے خالق کوراضی کرنے کی کوشش کریں۔
! نئے سال کا آغاز اور ہم
