Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

نئے دور کے نئے رنگ افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: February 19, 2023 12:47 am
Mir Ajaz
Share
14 Min Read
SHARE

ریحانہ شجر

کام سے لوٹتے ہوئے اشا جھیل کے کنارے رک گئی اور کچھ دیر تک اس خاموش اور ساکن پانی کو تکتی رہی۔ جس کے نیچے چھوٹی چھوٹی مچھلیاں جھیل کی سطح سے کوئی چھیڑ چھاڑ کیئے بغیر ننھے ننھے پودوں کے اردگرد اچھل رہی تھیں۔ اچانک کسی نے پتھر مار کر جھیل کے خاموش پانی میں ہلچل مچائی۔ اس کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کی سکون بھری زندگی میں تلاطم مچا دیا اور وہ گہرے سوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہوکے گھر پہنچ گئی ۔
گھریلو مصروفیات سے فارغ ہوکر ڈریسنگ ٹیبل سے موبائل اٹھاتے ہوئے آئینے میں اس کی نظر گلے میں لٹکے ہوئے اس ہار پر پڑی جو کل شادی کی سالگرہ پر اس کے شوہر ارسلان نے اسے تحفے میں دیا تھا۔ سالگرہ پر سارے دوست اور احباب مدعو تھے۔ اشا نے گہرے آسمانی رنگ کا عروسی لباس پہن رکھا تھا جو شادی کے بیس سال بعد بھی اس کے خوبصورت تن پر ویسا ہی پر کشش لگ رہا تھا جیسا اس کی شادی کے دن لگ رہا تھا۔ وہ اس لیئے کہ اشا کے خدوخال اور ظاہری حسن میں شادی کے اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی زیادہ فرق نہیں آیا تھا۔ ارسلان نے اشا کو مہمانوں کے سامنے ایک خوبصورت موتیوں کا ہار پہناتے ہوئے کہا تھا یہ چھوٹا سا نذرانہ میری خوب صورت اور سدا بہار شریک حیات اشا ارسلان کیلئے۔ تالیوں کی آواز سے سارا ماحول گونج اٹھا۔ باری باری سب مہمانوں نے مبارکباد دی۔
اشا مہمانوں کے ساتھ محو گفتگو تھی کہ اتنے میں مسز وکاس اور مسز حیدر علی اپنے خوبصورت بالوں کو لہراتے ہوئے اشا کے پیچھے بیٹھ کے کُھسر پُھسر کرنے لگیں۔ شور و غل میں اِشا نے چند مختصر الفاظ اتفاقاً سن تو لیئے مگر اس کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا؛ جیسے
اٹھارہ یا بیس سال کی؛ غیاث الرحمان، بہن وغیرہ۔
اِشا ان دونوں کے پاس آکے کہنے لگی ہمیں بھی بتا دیں یہ اٹھارہ یا بیس سال کا کیا قصہ ہے ۔ مسز وکاس اور مسز حیدر علی نے بات کو ٹال کر کہا کچھ نہیں بس ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اشا ارسلان ابھی بھی خوب صورت ہے اور آپ کی شیریں زبانی کے چرچے ہر سو ہیں۔
اشا نے ہلکی سی مسکراہٹ دے کے دھیمے لہجے میں کہا مجھے جان کر خوشی ہوئی۔ ماشااللہ آپ دونوں بھی تو سراپا مٹھاس ہو ۔
مسز وکاس نے نگاہیں ترچھی کرکے کہا نا جی نا مجھے اتنا میٹھا نہیں بننا کہ کوئی چکھ ہی لے۔ اشا نے مسز وکاس کی بات کو نظر انداز کرکے ان کے سامنے مشروبات رکھ دیئے اور خود باقی مہمانوں کی خاطر داری میں جڑ گئی تھی۔
یہ الگ بات ہے کہ پارٹی ختم ہونے کے بعد مسز وکاس کی کہی ہوئی بات نے اِشا کو گہری سوچ میں گم کر دیا تھا۔
وہ خیالوں کی دنیا سے باہر تب نکل گئی جب ڈور بیل بجنے سے وہ چونک گئی۔ وہ جان گئی کہ ارسلان ہے کیونکہ اس کے آنے کا وقت تھا اور وہ صدر دروازے کی طرف گئی اور جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ ارسلان نے سلام کیا۔
اِشا ارسلان کو دیکھ کر اتنی حیران ہو گئی کہ وہ سلام کا جواب دینا ہی بھول گئی۔
اس نے حیرانگی کے عالم میں ارسلان سے پوچھا آ ۔۔۔۔۔۔ آ ۔۔۔۔۔پ۔ آپ صبح یہ کپڑے پہن کے نہیں نکلے تھے۔۔۔۔! نیا سوٹ، نئی ٹائی ، بوٹ سب کچھ نیا، کلین شیو ، نہایت خوبصورتی سے تراشے ہوئے بال۔ پرفیوم سے مہکتا ہوا ماحول دیکھ کر اِشا نے مزید پوچھا آپ کدھر سے آرہے ہیں ؟
ارسلان کی جیسے چوری پکڑی گئی ہو لیکن باتیں بنانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس نے جلدی سے کہا، کیا کریں اِشا جان مجبوری تھی آج ایک بزنس میٹنگ کےلئے اچانک جانا پڑا اس لئے یہ سب کچھ ۔۔۔ ! خیر تم بتاؤ ، تمہارا کام کیسا رہا۔
اشا نے کہا سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔
بات بدل کر ارسلان نے کپڑے بدلتے ہوئے کہا دیکھو اِشا اس وقت مجھے چائے پینے کا من ہے، مجھے ایک کپ چائے پلا دو، پلیز!
اشا کو بہت کچھ محسوس بھی ہوا اور کچھ کچھ سمجھ بھی آنے لگا لیکن وہ خاموشی سے چائے لےکر آگئی۔
کچھ روز بعد اشا ارسلان کے ساتھ آفس کے لیے نکلنے لگی اوراس نے جان بوجھ کر ساڑھی پہن رکھی تھی۔
ارسلان نے اشا کا سراپا جائز لےکر تعجب سے کہا ، تم ساڑھی پہن کے جاو گی؟
اشا نے انجان بن کر جلدی سے سوری کہا اور واپس چینج کرکے اب جینز پہن کے آگئی اور کہنے لگی چلو اب ٹھیک ہے نا۔
اشا کو اب جینز پہنے ہوئے دیکھ کر ارسلان کا منہ کھلا رہ گیا۔
غصے سے تلملاتے ہوئے کہا تمہیں یاد نہیں کہ میں نے تمہیں جینز اور ساڑھی پہننے سے منع کیا ہے۔
اشا نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا او gosh ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ں ۔!اب یاد آیا۔ شادی کے بعد میں نے بس ایک یا دو بار ساڑھی اور جینز پہنا تھا اور آپ نے منع کردیا تھا۔ تب سے آج تک میں نے کبھی نہ جینز پہنے اور نہ ہی ساڑھیاں البتہ جب کبھی ہم دعوت پر جاتے آپ اکثر جینز اور ساڑھیوں میں ملبوس عورتوں کو ٹک ٹکی لگا کر دیکھا کرتے تھے اور بے تکلف ہو کے ان سے گھنٹوں گفتگو کیا کرتے تھے۔ آپ کو گھر کا ہوش بھی نہیں رہتا تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں نے آپ کو ایک بار پارٹی میں منت سماجت کرکے کہا تھا کہ بچے گھر میں اکیلے ہیں۔ تب آپ بہت غصے میں وہاں سے اٹھ کے نکل گئے۔ جب میں نے کہا اگر آپ کو جینز اور ساڑھی اتنی پسند ہے تو میں بھی پہن لیا کروں گی تو آپ نے کہا تھا کہ دوسری عورتوں کو کسی بھی لباس میں دیکھنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ لیکن تم سادہ لباس ہی پہنا کرو۔
ارسلان نے بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہاں مجھے یاد ہے۔ مجھے خوبصورت عورتوں کے ساتھ گفتگو کرنا اچھا لگتا ہے۔ اب جلدی کرو مجھے دیر ہو رہی ہے۔ اشا تیسری بار روایتی لباس میں آگئی اور ارسلان کو چلنے کیلئے کہا۔
اسی وقت ارسلان کو کوئی میسج آیا۔ ارسلان نے کہا یہ بیٹے شیزان کا میسج ہے۔
اشا نے پوچھا شیزان ٹھیک ہے ۔
ارسلان نے کہا ہاں سب ٹھیک ہے، کہتا ہے وہاں امریکہ میں ایک جگہ آتش فشاں چالیس سال کے بعد پھٹنے والا ہے اور بڑی تباہی کا امکان ہے اسلئے اردگرد کے علاقے خالی کروائے جا رہے ہیں۔
او آئی سی، اشا نے حیران ہوکر جواب دیا ۔
کچھ دنوں بعد سٹڈی ٹیبل پر اشا کام کرتے ہوئے کب سو گئی تھی اس کو پتہ نہیں چلا۔ ٹرن ٹرن کی آواز سے وہ جاگ گئی دیکھا تو ارسلان کا فون بج رہا تھا۔ ارسلان باتھ روم سے نکلا تو اِشا نے اسے چائے پیش کرتے ہوئے فون کے بارے بتا دیا اور کنکھیوں سے ارسلان کو دیکھتی رہی۔ ارسلان نے ذرا دیر سے سیل فون ہاتھ میں لیکر چہرے کو انگلی سے کھجا کر اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا یہ ایک کلائنٹ ۔۔۔۔ کا ۔۔ فون ہو سکتا ہے ۔
جس کا نام لبنا ہے۔ جو ایک بزنسمین غیاث الرحمان کی چھوٹی بہن ہے اور وہ اٹھارہ یا بیس سال کی ہے۔ ان کے ساتھ آپ کے کاروباری تعلقات ہیں۔ اشا نے ارسلان کی بات ایک ہی سانس میں پوری کرتے ہوئے کہا۔
لبنا کی فیملی ہسٹری اِشا کی زبان سے سن کر ارسلان کی سانس گلے میں ہی اٹک گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔! اور ہکلاتے ہوئے پوچھا کیا مطلب ہے تمہارا؟ اس سے پہلے وہ کوئی نئی کہانی تشکیل دے کر اشا کو جھانسا دینے میں کامیاب ہوتا۔
اشا نے لبنا اور ارسلان کی شادی کی ویڈیوز اور تصویریں سامنے رکھ دیں۔
ارسلان نےکہا دیکھو اشا میں تمہیں بتانے ہی والا تھا۔
اشا کا دل و دماغ عجیب کشمکش میں مبتلا تھا پھر بھی سنجیدہ ہو کر کہا ، کیا بتانے والے تھے یہی کہ تم کو شادی کے بیس سال بعد ایک لڑکی سے محبت ہوگئی ہے جو تمہارے بیٹے سے بھی عمر میں چھوٹی ہے۔ اشا پر غم اور غصے کا غلبہ تھا لیکن پھر بھی اپنے لہجے میں نرمی برتنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
اگلے ہی دن اشا نے ارسلان سے طلاق کا مطالبہ کیا لیکن ارسلان نے اس کا یہ مطالبہ سرے سے مسترد کردیا۔
اشا نے کہا تمہارے گھر میں مزید گزر بسر کرنا میرے لئے جان لیوا عذاب ہے۔
ارسلان کو یقین تھا کہ اشا کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے اسلئے بڑے اعتماد سے کہا تم کہیں نہیں جاسکتی ہو۔ تمہارے لئے یہیں رہنا ٹھیک ہے۔ اسلئے چپ کر کے بیٹھو۔
اشا نے کہا میرے لیئے کیا صحیح ہے کیا غلط اب آپ کو فکر مند ہونے کے ضرورت نہیں ہے۔ تم مجھے کالج کے زمانے سے جانتے ہو ۔ بھول گئے تم مجھے شیرنی کہا کرتے تھے۔ تمہاری محبت میں ساری زندگی بھیگی بلی بن کے تمہارے قدموں میں پڑی رہی۔ تمہاری ہر بات پر لبیک کہا۔ واقعی میرا کوئی نہیں ہے۔ تمہاری محبت میں، میں نے سارے رشتوں کو خیر باد کہہ دیا، یہاں تک میرا ایک کزن چھپتے چھپاتے میرے پاس آیا کرتا تھا۔ آپ نے یہ کہہ کر اعتراض جتایا کہ ہمارے مذہب میں کزن غیر محرم ہے۔
ارسلان نے بات ٹوک کر کہا اس میں کیا غلط کہا میں نے ۔؟
اشا نے کہا تمہارے مذہب میں کزن غیر محرم رشتہ ہے جبکہ میرے دھرم میں چچازاد، ماموںزاد ، پھوپھی زاد سب آپس میں بھائی بہن ہی ہوتے ہیں۔ پھر بھی بحث کئے بغیر آپ کی بات کا احترام کرتے ہوئے میں نے کزن کو یہاں آنے سے منع کیا، کہ کہتے ہوئے اشا سراپا احتجاج بن گئی۔
اس کا وجود کانپ رہا تھا اور مزید ارسلان سے کہا ، آج تو نے مجھے لات مار کر میری روح کو زخمی کردیا۔ میں تمہاری دنیا سے چلی تو جاؤں گی۔ تم طلاق نہیں دینا چاہتے تو نا صحیح یہ کہتے ہوئے اشا اٹھ کے چلی گئی۔
کئی دنوں بعد اشا نے ارسلان کو خلع دے کر خود کو اس رشتے سے آزاد کردیا۔
ارسلان کچھ عرصہ تک الجھن میں رہا، بالآخر لبنا کو گھر لے کے آگیا اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگا۔
ارسلان ایک روز کام کے بعد گھر آیا اور لبنا کا اتر ہوا چہرہ دیکھ کر بولا کیا بات ہے لبنا ؟ سب ٹھیک ہے ۔
لبنا نے کہا بھائی صاحب نے گھر بلایا ہے۔ ارسلان نے پوچھا کیا غیاث الرحمان پھر سے بیمار ہے۔
لبنا نے فکر مند لیجئے میں کہا پتہ نہیں ۔ دونوں جلدی سے لبنا کے میکے کی طرف روانہ ہوگئے ۔
وہاں کافی مہمان آئے ہوئے تھے۔ غیاث الرحمان سنہرے رنگ کی شیروانی پہن کے دیوار کی اور منہ کرکے کھڑا تھا ، ساتھ میں لال رنگ کی ساڑھی میں ملبوس ، ہاتھوں میں سنہرے رنگ کی بےشمار چوڑیاں پہنے ہوئے، اس کی دولہن مٹک مٹک کے چل رہی تھی اور غیاث الرحمان دولہن کی طرف نظریں بچا بچا کے دیکھ رہا تھا ۔ ارسلان اور اس کی بیوی لبنا دولہا اور دولہن کی اور تیزی سے جا رہے تھے۔ غیاث الرحمان اور اس کی دولہن ہال کی ایک طرف جاکر مہمانوں کی طرف مڑ گئے۔ ارسلان نے جب لال رنگ کی ساڑھی میں ملبوس اِشا کو غیاث الرحمان کی دولہن بن کے دیکھا تو وہ غش کھا کر گر گیا۔

وزیر باغ، سرینگر ،
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
گورنمنٹ پرائمری سکول اپر سیداں پھاگلہ کی عمارت کھنڈر میں تبدیل بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ،والدین پریشانی میںمبتلا
پیر پنچال
پونچھ کے ساوجیاں گگریاں علاقوں میں تلاشی مہم سرحدپار رابطے کا شبہ ،مشتبہ افراد کے گھروں پر چھاپے،1گرفتار
پیر پنچال
راجوری لائن آف کنٹرول پر دہشت گرد مخالف آپریشن دوسرے روز بھی جاری بارات گلہ کیری میں دراندازی کی کوشش ناکام، حساس علاقوں میں سرچ آپریشن تیز
پیر پنچال
نوشہرہ کے سیری بلاک میں بجلی بحران شدت اختیار کر گیا مقامی لوگوں نے گرڈ اسٹیشن کی منظوری کا مطالبہ دہرایا
پیر پنچال

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?