سال 2014میں حکومت کی طرف سے اعلان کردہ نئے انتظامی یونٹ جہاں پوری طرح سے ابھی تک قابل کار نہیں بنائے گئے وہیں ان یونٹوں کے تحت ہوئی بے تکی حد بندی نے بھی لوگوں کو نئی پریشانیوں میں ڈال دیاہے ۔حکومت نے عوام کو ان کی دہلیز پر خدمات فراہم کرنے کے اعلان کے ساتھ سینکڑوں نئے انتظامی یونٹ قائم کئے تاہم نہ ہی یہ پوری طرح سے قابل کار بن سکے اور نہ ہی ان یونٹوں کے دائرے میں آنے والے لوگوں کو وہ فوائد حاصل ہوسکے ہیں جن کے مقصد کے ساتھ ان کا قیام عمل میں لایاگیاتھا۔ان یونٹوں کیلئے عمارات اور عملہ کی عدم دستیابی الگ مسئلہ مگر ایک بڑی مشکل یہ درپیش آرہی ہے کہ حد بندی بے تکے طریقہ سے کی گئی ہے ۔حال ہی میں بانہال کے نیل علاقے کے عوام کی طرف سے یہ شکایت سامنے آئی ہے کہ وہاںدرجنوں دیہات بانہال تحصیل سے کاٹ کر تحصیل اکھڑال کے ساتھ جوڑ دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں محکمہ مال اور حد بندی سے وابستہ حکام کے خلاف غم وغصہ پایا جارہا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیل علاقہ بانہال سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ اکھڑال سے چالیس کلو میٹر دوری پرہے ۔اس طرح عوام کو گھروں کے قریب خدمات فراہم کرنے کے بجائے مزید بیس کلو میٹر کا سفر طے کرنے پر مجبور کیاگیاہے ۔اس وجہ سے نیل کے لوگوں کو زبردست مشکلات کاسامناہے او ر انہیں اکھڑال پہنچنے کیلئے گھنٹوں کاسفر کرناپڑتاہے۔یہ طویل اور مہنگا سفر لوگوں کیلئے جسمانی اور ذہنی عذاب کا باعث ہے اور اکثر سائیلوں کے اکھڑال پہنچنے سے قبل ہی دفاتر بند ہوئے ہوتے ہیں ۔حد درجہ ناانصافی یہ ہے کہ نئی حد بندی کی وجہ سے علاقے میںبس رہے ایک بھائی کو اکھڑال کےساتھ تو دوسرے بھائی کو بانہال کے ساتھ رکھاگیاہے ۔ اس صورتحال سے لوگ سخت پریشان ہیںاور علاقے کے پندرہ سو کے قریب کنبوں کو ناانصافی پر مبنی اس فیصلے کاشکار ہوناپڑرہاہے ۔اس بے تکی حد بندی کی وجہ سے سب سے زیادہ مشکلات پہاڑی علاقوں کی عوام کو درپیش آتی ہیں کیونکہ ان علاقوں میں رسل و رسائل کے روابط پہلے سے ہی محدود ہوتے ہیں اور لوگوں کودفاتر تک پہنچنے کیلئے کئی کلو کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے ۔نیل علاقے کی ہی طرح خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں کئی دیگر مقامات بھی ایسے ہیں جہاں کے لوگوں کو اس طرح کی غیر منصفانہ حد بندی کاشکار ہوناپڑرہاہے ۔یہی نہیں بلکہ کچھ مقامات پرپولیس تھانہ ایک تحصیل میں جبکہ بلاک دفتردوسری تحصیل میں اور دیگر امور تیسری تحصیل سے جڑے ہوئے ہیں ۔ سرحدی ضلع پونچھ کے سرنکوٹ میں ایسے کچھ گائوں ہیں جہاں کے لوگوں کو پولیس تھانے کیلئے منڈی ، بلاک کے کام کاج کیلئے لسانہ سرنکوٹ اور تحصیل کے کام کیلئے حویلی پونچھ جاناپڑتاہے ۔اس طرح سے انہیں اگر کوئی مشترکہ کام پڑ جائے تو انہیں تینوں جگہوںکے چکر کاٹناپڑتے ہیں جس کیلئے تین دن لگ جاتے ہیں ۔مینڈھر علاقے میں بہت سے گائوں کو تحصیل بالاکوٹ کے ساتھ جوڑ دیاگیاہے، جو بالاکوٹ سے بہت دور اورمینڈھر سے بہت نزدیک واقع ہیں ۔ایسی کئی اور بھی مثالیں ہیں ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو مشکلات میں الجھانے کے بجائے ان کا حل نکالے اور بے تکے طریقہ سے کی گئی حد بندی کو درست کرنے کے اقدامات کئے جائیں ، خاص کر ان علاقوں میں جہاں کے لوگوں کے ساتھ ناانصافیاں ہوئی ہیں ،بہ صورت دیگر نئے انتظامی یونٹوں کا قیام ان علاقوں کے لوگوں کیلئے ایک لاحاصل عمل ہوگا۔