Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

نئی نسل کشمیرحل کے حق میں

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 15, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
 یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ گزشتہ سال سے دلی کی جامعات میں خصوصیت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے بارے میں تعلیم یافتہ جواں نسل ، کشادہ ذہنی کے قائل اساتذہ صاحبان ، آزاد فکری کے حامل دانش ور کھل کر بات کرنے یا تبادلہ ٔ خیال میں پیش قدمی کر رہے ہیں۔ یہ ایک صحت مند رحجان کاعکاس ہے جس کی پذیرائی میں وہ طبقات پیش پیش ہیں جو اپنے ملک سے نہ صرف دلی محبت رکھتے ہیں بلکہ ان لوگوں کے تئیں بھی انسانیت کے ناطے ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں جنہیں ریاستی جبر و تشدد کا سامناہے، جن کے بشری حقوق پاؤں تلے روندھے جارہے ہیں ، جن کی سیاسی امنگوں کو طرح طرح کی گا لیاں دے کر پیشہ ور سیاست دان اور وردی پوش عناصر دیش بھگتی کے نام پر اپنے نجی مفادات کی آبیاری کر تے ہیں اور جن کے حل طلب مسائل کو نظر انداز کر کے حکومت ِ ہند ملک و قوم کو ایک بڑے دھوکے میں رکھتی چلی آئی ہے ۔ گزشتہ برس اسی ضمن میں جے این یو میںاور اب دلی یونیورسٹی میں ایک بڑا ہنگامہ بپاہو اجس کے پس منظر میں کنہیا کمار ، عمر خالد کا قصہ زبان زد عام ہو ا اور اب کر گل جنگ میں کام آئے ایک میجر کی بیس سالہ صاحبزادی گرمہر کورکی صاف گوئی نے اکھل بھارتیہ ودیا پریشد کوآتش زیر پا کیا کہ انہوں نے آزادی اظہار کی حمایت میں کشمیر پر بات کر نے کی حامی کیوں بھر لی۔ یہ چیزیں ایک ایسی فضا میں رائے عامہ کے رُخ کا پتہ دیتی ہیں جب اہل کشمیر کو پے در پے دلخراش سانحات ،المیوںاورکثیرالجہت آلام نے چاروں طرف سے آگھیرلیاہے ایسے میں انسانیت کے بہی خواہوںا ور ملک کے خیر اندیشوں میں یہ سلگتا سوال وسوسوں اور خلفشار کے گھنے جنگل سے نکل کر نصف النہار کے آئینے میں وضاحت طلب  بنتا جارہاہے کہ کب تک کشمیریوں کی آوازحق کودبایاجاتارہے گا۔کئی اہل دماغ نے برسوں پہلے کہاتھاکہ دلی چاہے جتنا کشمیرکی صدائے حق کوطاقت کے زورپردبانے کی کوشش کرے لیکن صوراسرافیل کی طرح کشمیریوں کی صدائے حق طوعاًوکرہاًپورے بھارت میں گونج اٹھے گی۔یہی وجہ ہے کہ نہ چاہنے کے باوجودآج کشمیرکاز پیچھاکرتے ہوئے نئی دلی میں بیٹھے حاکموں اور ان کے الہ ٔ کاروں کادردسربن رہاہے۔جواہرلال یونیورسٹی کے بعددلی یونیورسٹی میں کشمیرکی گونج سنائی دینے پربھارت کے چونچال میڈیاہیجان پیداکررہاہے کہ بھارت کے بڑے تعلیمی اداروںمیںآزادیٔ کشمیرکے نعروں کودباناہوگا۔ ابتلاؤں اور آلام کاماراہر کشمیری یہ سوال پوچھتاہے ـ   ؎
دل کے ٹکڑوں کوبغل بیچ لئے پھرتاہوں
کچھ علاج اس کابھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں 
 کشمیر یوں کے خلاف بھارت کا زہراگلنے والامیڈیاحق بیانی کے اس جنون کی کیاتوجیہہ پیش کرے گا؟آخرکب تک متعصب اور بکاؤ میڈیاکشمیرسے متعلق بھارت کی فضامیں زہرگولتارہے گا؟کب تک یہ یک چشمی میڈیااپنے ٹاک شوزمیںکشمیرکی جلتی صورتحال پر لڑاکاعورتوں کی صفت سے متصف اینکرزسے پٹرول چھڑکتارہے گااورکشمیریوں کے مرمٹنے کواپنی تفریح کاسامان بناتارہے گا؟نئی دلی میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن گوتم نولکھاکہ جوروزاول سے کشمیریوں کی مظلومیت کے خلاف آوازبلندکئے ہوئے ہیںکاکہناہے کہ نئی دلی کشمیریوں کے مطالبے کوکچلناچاہتی تھی لیکن اب یہ نعرہ بھارت کے مرکزسے نئی دلی بلندہوناشروع ہورہے ہیں ۔ان کاکہناتھاکہ طاقت کی بنیادپراس آوازکوخاموش نہیں کیاجاسکتابلکہ نئی دلی کوسیاسی طورپراس مسئلے کاحل تلاش کرناچاہئے ۔بلاشبہ یہ ایک نیک شگون ہے کہ سنگھ پریوار کوچھوڑ کربھارت کی پڑی لکھی نوجوان نسل کشمیرکے حوالے مثبت سوچ کی طرف مائل نظرآرہی ہے ۔بھارت کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میںزیرتعلیم طلبا ء میں نہ صرف کشمیریوں پرڈھائے جانے والے مظالم پرفکرمندی پائی جارہی ہے بلکہ وہ بھارت کی بانی قیادت کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ کئے گئے وعدوںاورمواعید کاجلدازجلد منصفانہ ایفاء چاہتی ہے۔کشمیرکے حالات بدپرفکرمندطلبانے22 اور23فروری 2017کو دلی یونیورسٹی  1922 میں قائم ہوئی اور یہ بھارت کی مصروف جامعات میں سے ہے، کے رام کالج میں ایک سیمینار ’’کلچر آف پروٹسٹ ‘‘ کے عنوان سے ایک ٹاک شوکااہتمام کیاتھاجس میںشرکت کے لئے سیمینار کے منتظمین نے دلی کی جواہرلانہرویونیورسٹی ((JNU کے سٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد اور شہلا رشید کو مدعو کیاگیا تھا۔حالانکہ دعوت کو کالج انتظامیہ نے آرایس ایس کی طلباء ونگ ABVP))کی مخالفت کے بعد واپس لے لیاتھا ، لیکن اس کے باوجودآرایس ایس کی طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشدABVP))کے طلبہ نے ہلڑبازی کرکے دہلی یونیورسٹی میں دھمال ڈالا۔جس پر رام جس کالج کے طلبہ نے مظاہرہ کیا۔رام جس کے طلبہ نے اے بی وی پی کے طلبہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے موریس نگر تھانہ تک ایک احتجاجی مارچ کیا۔عمر خالدJNU کے ان پانچ طالب علموں میں سے ایک ہیں جن کے خلاف گذشتہ سال ملک سے بغاوت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان طالب علموں پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک پروگرام میں کشمیرکی آزادی کے نعرے لگائے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سٹوڈنٹ وِنگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(ABVP) )اور آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن(AISA)کے ارکان کے درمیان بدھ22؍فروری کو دہلی یونیورسٹی میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ پہلی جھڑپ یونیورسٹی کے رام جس کالج کیمپس اور کالج گیٹ کے باہر ہوئی جبکہ دوسری مرتبہ رام جس کالج کے پاس تھانے کے باہر تصادم ہوا۔طلبہ کے دوگروپوں کے درمیان مارپیٹ اور پتھرائو کے واقعات رونما ہونے پررام جس کالج کے پرنسپل نے دونوں کا دعوت نامہ منسوخ کردیا تھا۔تاہم پرنسپل کے اس اقدام اور اے بی وی پی کے خلاف آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ارکان اور کالج کے سینئرتدریسی عملے پروفیسرزنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور اپنی ریلی مورس نگر پولیس اسٹیشن تک لے جانے کی کوشش کی لیکن راستے میں اے بی وی پی کے کارکن ان سے اُلجھ گئے ۔ پولیس کی بھاری فورس کے باوجود دونوں طرف سے نعرے بازی ہوتی رہی اور ایک دوسرے پر پتھرائو کیا۔دونوں نے مخالف تنظیم کو تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ دونوں تنظیموں کے ارکان کو چوٹیں آئی جب کہ کئی صحافیوں کو بھی چوٹیں آئیں، بعض خواتین صحافیوں کو بھی جن میں سے ایک ترونی کمارکاکہناتھاکہ پولیس کاکہناتھاکہ کہ AISA)) کے پاس یہ  پروگرام منعقدکرنے کی اجازت ہے، اے بی وی پی والے ہٹ جائیں اس بات پر پولیس اور اے بی وی پی والوں میں کچھ کشمکش ہوئی اور لگتا تھا کہ وہ بات کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں اے بی وی پی اور آسا کے طالب علموں کے درمیان ہاتھا پائی شروع ہو گئی اور اس دوران خواتین کو بھی نشانہ بنایا گیا اور کئی خواتین صحافیوں پر بھی حملہ ہوا انہیں ریکارڈنگ نہیں کرنے دی گئی۔ ترونی کا کہنا تھاکہ رام جاس کالج کے طلبہ نے آر ایس ایس کی ملحقہ تنظیم اے بی وی پی کے وابستگان نے کالج کو چاروں طرف سے گھیر لیاتھا جب کہ پولیس کی کثیرتعداد کالج کے اطراف واکناف میں تعینات کردی گئی مگرپولیس کی موجودگی کے باوجود دونوں گروہوں کے درمیان میں تصادم کا سلسلہ جاری رہا۔
ادھر طلبا  کے دو گروپوں کے درمیان چل رہی اس رسہ کشی کو لے کر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے وزیر اعظم نریندر مودی پر نشانہ سادھا ۔کیجریوال کاکہناتھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو سمجھنا چاہیے کہ اب وہ بی جے پی کے کارکن ہی نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم بھی ہیں، اسی لیے انہیں بی جے پی کے کارکن کی طرح نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم کی طرح کام کرنا چاہیے ۔کیجریوال کاکہناتھاکہ دہلی پولیس کی سب سے پہلی ذمہ داری شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن ABVP))کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہی ہے، کیونکہ دہلی پولیس براہ راست وزیر اعظم کو رپورٹ کرتی ہے، ایسے میں مودی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پولیس کو شہریوں کی حفاظت کرنے کی ہدایت دیں، نہ کہ بی جے پی اور اے بی وی پی کے لیے کام کرنے کی ۔ اسی دورانABVP کشمیریوں اورپاکستان سے متعلق نرم رویہ اختیار کرنے پررام جاس کالج کی طالبہ کوقتل اور زیادتی کی دھمکیاں دینے لگے تھے۔بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی کے رام جس کالج میں زیرتعلیم کرگل جنگ میں مارے جانے والے بھارتی فوج کے کیپٹن مندیپ سنگھ کی بیٹی گورومہرکورنے کچھ عرصے قبل یوٹیوب پروڈیوجاری کی جس میںاس نے پلے کارڈ پکڑا ہوا تھا، جس پر لکھا تھا کہ میرے والدکوپاکستان نے نہیں جنگ نے مارا،اس لئے دونوں ممالک کوچاہئے کہ وہ آئندہ جنگ سے گریزکریں۔گرمیہر نے اپریل 2016 میں بھارت اور پاکستان میں پر امن تعلقات کو بڑھاوا دینے کے لیے ایک ویڈیو اپلوڈ کی تھی جس پرہندوتو والے مشتعل ہوگئے اوروہ اپنے ہی ملک کے فوجی افسرکی بیٹی کو قتل اور اجتماعی زیادتی کانشانہ بنانے کی دھمکیاں دینے لگے ۔
واضح رہے کہ 9فروری2016 منگل کو افضل گورو کی برسی  برسی کے موقعہ پر جواہرلال یونیورسٹی کمپس میں ایک تصویری نمائش کرنے کاپروگرام بنایاتھاجس کیلئے انہوں نے پہلے ہی یونیورسٹی انتظامیہ سے باضابطہ طورپر اجازت حاصل کی تھی جس کے خلاف (ABVP) نے احتجاج کیا اور ہاتھ پائی ہوئی ۔چنانچہ (ABVP)  کے دبائومیں آکر بعدمیں یونیورسٹی انتظامیہ نے اجازت نامہ منسوخ کر دیا ۔ تاہم جوہرلال یونیورسٹی کے طلبا ء نے اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے تقریب کا اہتمام کرہی لیا۔  جواہر لعل یونیورسٹی میں طلبہ کے احتجاجی پروگرام نے بھارت کی راجدھانی دہلی میں ہلچل مچادی  ۔
 طلباء کے خلاف مودی سرکارکے اس قسم کے جارحانہ اقدام تحریر و تقریر کی آزادی کے دعوے داروں کی منفی اورانتقامی سیاست کاری کا مظاہرہ ہوتا رہاہے۔اس اقدام سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھارت میں انصاف پسندی اورانسان دوستی کے لئے ہرگزکوئی جگہ موجود نہیںاورجوکشمیرکے عوام کی مظلومیت کے خلاف اپنی آواز بلند کرے اور ان کی مبنی بر حق موقف کی حمایت کرے ،تووہ صریحاََہی ناقابل برداشت ثابت ہوئے۔اس نوشتہ دیوارکوپڑھ لیناچاہئے کہ اگر آج یونیورسٹی طلباء نے ہمت کرکے سچائی کے لئے آواز اٹھائی ہے تو وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب یہ آواز مزید ابھر کر سامنے آئے گی ۔سوال یہ ہے کہ آخریہ ریاستی جبر کب تک جاری رہ سکے گا؟کب تک کشمیری عوام کے حق میں ا ٹھ رہی آواز کو صرف نظرکیاجاتارہے گا؟اورغداری کے مقدمات اندارج کرنے کے باوجود ہرطرف کشمیریوں کے حق میں اوربھارتی مظالم کے خلاف آوازیں بلندہوجائیں گی۔ بھارتی حکام کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ کشمیرکے حوالے سے وہ زیادہ دیر تک اپنے عوام کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ بھارت کا انسان دوست فہمیدہ طبقہ اب یہ کہانی پوری طرح سمجھ چکاہے کہ کس طرح کشمیریوں کوحشرات الارض کی طرح مسل دیاجاتاہے اور کس مہارت سے انسانوں کے قتل عام سے جمہوریت کے زمین تنگ کی جارہی ہے اور کس طرح عام آدمی کے ٹیکس کو اسلحہ کی خرید پر اڑایا جارہاہے ۔
واضح رہے کہ بھارت میںزعفرانی تنظیموں کاراج قائم ہونے کے بعد پہلے یکے بعددیگرے کشمیری طلبہ کومختلف بہانوں سے ستایا جاتا رہاہے اوراب بھارت کی سٹوڈنٹ یونینوںکوکشمیرکے نام پرگھیرلیاجارہاہے اوراس طرح مبینہ طورپر آزادی اظہارِ رائے (Freedom of Expression) پر مکمل طور پابندی عائد کردی گئی ہے۔بلاشبہ بھارت میں کشمیرکے نام پر طلبہ کے ساتھ پے درپے پیش آنے والے بدترین واقعات چشم کشاہیں ۔آزادی اظہارِ رائے (Freedom of Expression)کے حق کے تحت کشمیرکامعاملہ جہاں بھی اٹھے تو مباحثوں میںلازماََ ہندوستان کے بانی لیڈرجواہرلال نہرو کے وعدوں ، عہد وپیماں او ربیانات کی گونج سنائی دیتی ہے اوردیتی رہی گی ۔یہ المیہ نہیں تواورکیاکہ کشمیرسے متعلق حقائق کواس طرح جھٹلایاجارہاہے حتیٰ کہ کشمیرمیں استصواب کرانے کاوعدہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرو، جن کے نام پرقائم شدہ JNUیونیورسٹی میں آزادی اظہارِ رائے (Freedom of Expression) کاگلاگھونٹاجارہاہے۔ کشمیرروزاول سے ہی دنیاکو یہ بات یاددلاتی رہی ہے کہ نئی دلی جواہرلعل نہرو کے ریاستی عوام کے ساتھ کئے گئے وعدے پوری کرے اوراسے ان وعدوں سے منحرف ہونے نہیں دیناچاہئے۔بہرکیف !جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے بعد امسال دہلی یونیورسٹی کے طالب علموں نے یونیورسٹی میں کوئی تشدد کاکام کیا اور نہ کوئی تخریبی کارروائی عمل میں لائی ۔ انہوں نے محض آزادی اظہارِ رائے (Freedom of Expression)  کے حق کواستعمال کیا۔ البتہ اس کے خلاف (ABVP)اور بھارت کے مودی نواز میڈیا مافیا نے جس طرح کا ہڑبونگ مچارکھی ہے، وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ویسے بھی اب بھارتی میڈیاکاچونچال ہی بھارت میں حکمرانی کرتاہوانظرآرہاہے ۔ تصویرکاجورُخ وہ دکھادے اسے ہی سچ، حتمی اورحرف آخرسمجھاجارہاہے ،جس کے خلاف وہ کھڑا ہوگیا،ریاستی طاقت، انتظامیہ اورمقننہ ، طبلہ سازی میںاس کے دوش بدوش کھڑے ہوجاتے ہیںاوراسی کی منشاکے مطابق اوراسی کی مرضی کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ تاہم اے بی وی پی  اورمتعصب میڈیا کو یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ کشمیریوں کے حق میں حصول انصاف کی خاطر آواز اٹھانا دراصل نئی دہلی کی قیادت کوبھارت کے بانی وزیراعظم آنجہانی جواہرلال نہروکی طرف سے کشمیری عوام سے کئے گئے وعدے اورمواعیدیاددلاناہے اوراس طرح کے رویے کوئی غداری یا دیش دروہ نہیں ہوتے۔واضح رہے کہ زہرناک اورمتعصب بھارتی میڈیا ،بھارت کے انسان دوست دانشور ان ، اسکالرز اور طلباء جوکشمیریوں کے 
ساتھ ہو رہے ناروا سلوک پرآوازبلندکرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان کو غدار اور قوم کے جفاکار کہہ کر حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لورن میں آسمانی بجلی گرنے سے 10بھیڑیں ہلاک
پیر پنچال
بغیر اجازت انشورنس کٹوتی و صارفین کیساتھ مبینہ غیر اخلاقی رویہ بدھل میں جموں و کشمیر بینک برانچ ہیڈ کے خلاف لوگوں کاشدیداحتجاج
پیر پنچال
انڈر 17کھیل مقابلوں میں شاندار کارکردگی | ہائرسیکنڈری اسکول منڈی نے کامیاب کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی
پیر پنچال
نوشہرہ سب ڈویژن میں پانی کی شدید قلت،لوگ محکمہ کیخلاف سراپا احتجاج شیر مکڑی کے لوگوں نے ایگزیکٹیو انجینئر کے سامنے شکایت درج کروائی
پیر پنچال

Related

کالمگوشہ خواتین

ڈیجیٹل دورمیں بچوں کی بھرپور نگہداشت اہم فکروادراک

May 28, 2025
کالمگوشہ خواتین

خوشی کے حصول کے لئے خود شناسی لازمی فکروفہم

May 28, 2025
کالمگوشہ خواتین

ماں کی ممتا کا متبادل موبائل نہیں ہو سکتا غور طلب

May 28, 2025
کالمگوشہ خواتین

عورت قوم کی مضبوط بنیاد ! | پائیدار معاشرے کے تعمیر کی معمار فہم و فراست

May 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?