نئی نسل اور ومدارس کی تعلیم و تربیت غورطلب

مولانا حافظ پیر شبیر احمد

علم خواہ دینی ہو یا دنیوی انسان کو عالی مرتبت بناتا ہے، علم کی اہمیت وحی الہٰی کے آغاز سے مسلم ہے،علیم و حکیم پروردگار نے انبیاء و رُسل کو علم کی شمع جلانے،نور ہدایت کو عام کرنےاور جہالت کی ظلمت کو کافور کرنے کے لیے معلمین انسانیت بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔علم کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ علم ایک نور اور جہالت ایک تاریکی ہے،علم وہ شٔے ہے جسے نہ چُرایا جاسکتا ہے،نہ چھینا جا سکتا ہے،اور نہ ہی آگ علم کو جلا سکتی ہے،نہ دریا ڈبو سکتا ہے نہ سمندر غرق کرسکتا ہے اور نہ ہی اِسے کیڑے کھا سکتے ہیں۔ علم ہی کے بارے میں حضرت علیؓ کا ارشاد گرامی ہے۔علم باقی رہنے والا جوہر ہے جو کبھی فنا اور ختم نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ انبیاء کی میراث ہے۔علم دین کی اہمیت و فضیلت مسلم ہے ،قرآن و حدیث کے صفحات علم دین کی فضیلت سے بھرے پڑے ہیں، علم جہاں نعمت خداوندی ہے وہیں رحمت ِربّانی بھی ہے، جہاں ذریعہ برکت ہے تو وہیں باعث نجات اور وجہِ سربلندی ہے،اصل علم تو علم ِ دین ہے،یہی علم دین انسان کو گمراہی سے ہدایت تک پہنچاتا ہے، تاریکی کے قعر مذلت سے نکال کر نور ہدایت سے روشناس کرتا ہے،اسی علم دین سے وابستگی نے قومِ مسلم کو ہرمحاذ پر کامیاب کیا،اسی علم دین سے رشتہ و تعلق نے مسلم اُمہ کو عظیم مناصب اور کامیابی کی بلند منازل پر فائز کیا،اسی علم دین سے وابستگی کی بنیاد پر کبھی ساری دنیا میں تہذیبِ اسلامی کا سویرا تھا،مغرب کی گمراہ کن تہذیب وادیِ ضلالت میں غرقاب تھی۔ان سب فضائل کے باوجود بھی آج معاشرہ علم دین سے کوسوں دور ہوتا جارہا ہے اور دن بہ دن دینی علوم سے دوری میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے کہ ایک بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود صحیح کلمہ پڑھنا نہیں جانتا ہے، طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتا ہے، قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں پڑھ پاتا، اسلام کے بنیادی عقائد اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے، اس کا بھی علم نہیں رکھتا۔ کیا شہر، کیا گاؤں اور دیہات ہر جگہ بقدر ِضرورت دینی تعلیم کا فقدان ہےاور افسوس صد افسوس یہ ہے کہ مسلم معاشرہ دینی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت ہی کو سرے نظر انداز کررہا ہے اور سارا زور صرف اور صرف عصری علوم کو حاصل کرنے پر لگا رہا ہے۔اعلیٰ نوکری اور عمدہ جاب کے چکر میں دین و شریعت کی پاسداری کا لحاظ بھلا بیٹھا ہےاور خراب ماحول میں رہ کر ہمار ی نوجوان نسل نشہ کی عادی ہورہی ہے۔ دُنیوی تعلیم کا حصول شریعت میں منع نہیں ہے لیکن شریعت کو پس پشت ڈال دینا اور دینی تعلیم سے یکسر غافل ہوکر زندگی گذارنا دنیا میں بھی نقصان دہ اور آخرت میں بھی موجب عتاب ہے،حالانکہ دین کا اتنا علم سیکھنا کہ جس کے ذریعہ انسان شریعت کے مطابق اپنی زندگی گذار سکے۔موجودہ وقت فتنہ کا ہے ، فتنہ سے نئی نسل کی حفاظت وقت کی بڑی ضرورت ہے ، اس لئے ایسے وقت میں دینی تعلیم و تربیت کی ضرورت بہت زیادہ ہے ، اس لئے یہ ضروری ہے کہ جو بچے اسکول میں پڑھتے ہیں ،ان کے لئے صبح اور شام کے وقت ایک گھنٹہ دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے اور ان کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف کرایا جائے ،اس کے لئے مدارس اور مکاتب کے نظام کو مضبوط کیا جائے اور جو مدارس یا مکاتب میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ،اُن کے لئے ضرورت کے مطابق عصری تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ اس طرح نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے ذریعہ حفاظت ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ اگر ہم نے اپنی نئی نسل کی حفاظت نہیںکی تو ہماری تعلیمی اور معاشی ترقی بے معنی ہو کر رہ جائے گی اور پھر پچھتانا پڑے گا ۔ مسلم قوم کی تباہی میں جہاں اغیار کی سازشیں رہیں وہیں ہماری کوتاہیوں کا بھی عمل دخل رہا، ہمارا زوال ہماری غفلت کا ہی نتیجہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ہم علم دین سے روگردانی کے بجائے اسکی اہمیت،ضرورت اور افادیت کو نہ صرف تسلیم کریںبلکہ اس سے منقطع رشتہ استوار کریں، علم دین کے حصول میں اپنے آپ کو اپنی اولاد کو اپنے خاندان کو تیار کریں، اگر ہم آج اس سے روگردانی کریں گے تو شاید آنے والی نسلوں کا دین اسلام اور شریعت محمدی پر باقی رہنا مشکل ہوجائے گا ۔ ارتدار کے اس طوفان بلاخیز میں ایمان کا باقی رہنا کافی مشکل ہے۔ اللہ پاک علم دین کی صحیح قدردانی کی توفیق عطا فرمائے اور مادیت کے اس خطرناک دور میں علم دین کے شمع کو ہر تاریک گھر میں پہنچائے۔ آمین
[email protected]