بلال فرقانی
سرینگر//وادی کے نجی تعلیمی ادارے ایک مرتبہ پھر سرخیوں میں ہیں۔کتابوں کی نئی سریز متعارف کرنے، ہر سال نصاب میں من چاہی تبدیلی، مہنگی کتابوں کی فروخت اور محکمہ تعلیم کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے والدین کو لوٹنے کا ایک گھناونا دھندہ پروان چڑھا ہے۔لیکن سب سے افسوناک پہلو یہ ہے کہ چند پرائیویٹ سکول نئی قومی تعلیمی پالیسی سے مکمل طور پر انحراف کررہے ہیں۔حکومت کی جانب سے واضح ہدایات کے باوجود کئی نجی سکول اپنی من مانی پر تْلے ہوئے ہیں۔ 24 اکتوبر 2025 کوجموں و کشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن نے ایک سرکیولر (نمبر F(Acad-C)/Text/Bks/I-X/25) جاری کرتے ہوئے تمام نجی سکولوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ اول سے دسویں تک بورڈ کے مقررہ نصاب اور کتابوں کو ہی استعمال کریں، بصورت دیگر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔سرکیولر میں واضح طور پر کہا گیا ہے’’یہ لازمی ہے کہ بورڈ سے وابستہ تمام نجی سکول بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی منظور شدہ نصابی کتابیں ہی پڑھائیں، بصورتِ دیگر ایسے اداروں کے خلاف ناپسندیدہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔‘‘یعنی کسی بھی سکول کی جانب سے بورڈ کے نصاب سے انحراف ناقابلِ برداشت سمجھا جائے گا۔ بورڈ آف سکول ایجوکیشن کے جاری کردہ سرکیولر کے مطابق، بورڈ کی نصابی کتب سادہ، جامع اور کم خرچہ کے ہیں، جنہیں طلبہ کے ذہنی دباؤ کو کم کرنے اور تعلیم کو ہمہ گیر بنانے کیلئے نئی قومی تعلیمی پالیسی کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ ان میں این سی ای آر ٹی کے مواد کو شامل کیا گیا ہے تاکہ یکساں معیارِ تعلیم کویقینی بنایا جا سکے۔والدین اور تعلیمی ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوراً ایسے سکولوں کے خلاف کارروائی کرے جو نئی قومی تعلیمی پالیسی سے انحراف کر کے طلبہ کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ متعدد سکولوں نے قومی تعلیمی پالیسی اور محکمہ تعلیم کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔متعدد نجی سکولوں نے حالیہ برسوں میں ’کیمبرج اور آکسفورڈسیریز‘ اور دیگر غیر منظور شدہ نجی پبلشروںکی مہنگی کتابیں متعارف کرائی ہیں۔ والدین کا الزام ہے کہ مخصوص کتب فروشوں اور پبلشروںکے ساتھ گٹھ جوڑ قائم کیا گیا ہے اور ہر سال مہنگی کتابوں کا انتخاب اور نصاب کی تبدیلی اسی مفاداتی سلسلے کا حصہ ہے۔ والدین کے مطابق، ان کتابوں کی قیمتیں عام شہری کی پہنچ سے باہر ہیں۔ بعض سکولوں میں 5ویںجماعت کی کتابوں کا ایک سیٹ 7 سے دس ہزار روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔والدین کا کہنا ہے کہ سکول منتظمین ہر سال نصاب بدل کر والدین پر مالی بوجھ ڈال رہے ہیں۔انہوں نے کہا، ’’پچھلے سال خریدی گئی کتابیں اس سال بیکار ہو گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ نصاب بدلنے کا بھی دوسرا دھندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نصاب بدلنے کی وجہ سے کتابوں کے نئے سیٹ خریدنے پڑتے ہیں اور بک سیلر و سکول منتظمین ایک مافیا کے طور پر کام کررہے ہیں تاکہ والدین کو لوٹا جائے۔ حکومت خاموش ہے اور سکولوں کی من مانی بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘کچھ سکولوں نے کتابوں کی جو سریز متعارف کرائی ہے،اسکی ہر ایک کتاب کی قیمت کم از کم 1800اور زیادہ سے زیادہ 2200ہے۔اس بارے میں جب ڈائریکٹر ایجوکیشن نصیر احمد وانی سے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس معاملے کا سنجیدہ نوٹس لیا گیا ہے اور چیف ایجوکیشن افسر سرینگر(نوڈل افسر) کی صدارت میں جائزہ میٹنگ بھی منعقد کی گئی ہے، جس میں اس اہم معاملہ پرغور و خوض بھی کیا گیا۔انکا کہنا تھا کہ مربوط حکمت عملی مرتب کی جارہی ہے تاکہ اس کا تدارک کیا جاسکے۔چیف ایجوکیشن آفیسر سرینگر غلام محی الدین بٹ ، جو محکمہ کے نوڈل آفیسر بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ جائزہ میٹنگ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سرکاری احکامات کی عدم تعمیل کے مرتکبین سکولوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ کے پاس اس سلسلے میں کئی ایسے سکولوں کے بارے میں شکایات موصول ہوئی ہیں، جہاں بچوں کو مختلف سریزکی کتابیں لانے کیلئے کہا گیا ہے، جو بہت قیمتی ہیں اور اور جن کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ بچوں کو مجبور کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور ایسے سکولوں کی نشاندہی کی جارہی ہے جن کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جاے گی۔