اِکز اقبال
جموں و کشمیر میں 2024 کے اسمبلی انتخابات بڑے جوش و خروش اور ہنگامے کے ساتھ ہوئے۔ سیاسی ماحول ماضی کے مقابلے میں زیادہ متحرک تھا اور پھر نتائج بھی ایسے ہی ہنگامہ خیز ‘ دلچسپ اور حیران کن رہے۔ اس سال کے اسمبلی انتخابات بے پناہ اہمیت کے حامل تھے۔ کیونکہ یہ انتخابات ایک دہائی طویل وقفے کے بعد اور 2019 میں آرٹیکل 370 ( جس نے خطے سے اس کی خصوصی آئینی حیثیت چھین لی ) کی منسوخی کے بعد منعقد ہونے والے پہلے انتخابات ہیں ۔ ان انتخابات کے بڑے ہی دلچسپ نتائج سامنے آئے ہیں، جو اتنے ہی سوالات اٹھاتے ہیں جتنے اس کے پاس جوابات ہیں ۔ کیا یہ انتخابی نتائج جموں وکشمیر میں جمہوریت کی واپسی کی راہ ہموار کریں گے؟ کیا یہ انتخابات واقعی کوئی تبدیلی لائیں گے؟ يا پھر آنے والی حکومت علامتی طاقت ہے جبکہ اصل کنٹرول کسی دوسرے کے ہاتھوں میں رہے گی؟
2024 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج بہت حیران کن ہیں ۔ نیشنل کانفرنس (این سی) اور کانگریس اتحاد نے 90 میں سے 49 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے ، جس کی سربراہی عمر عبداللہ نے اپنی دونوں نشستیں جیت کر کی ۔ عوام نے ایک آواز کے ساتھ جواب دیا ، چھوٹی جماعتوں اور پروپیگنڈے کے تحت کھڑے کئےگئے آزاد امیدواروں کو ایک واضح مینڈیٹ کے حق میں مسترد کیا گیا۔ آرٹیکل 370 کی بحالی اور ریاست کا درجہ دوبارہ حاصل کرنا جیسے معاملات زور سے اور واضح طور پر گونجتے رہے۔ بات کشمیر کی اپنی ساخت کی بحالی کی تھی۔
ایک زمانے میں غالب رہنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)کو 2024 کے ان انتخابات میں سنگین زوال دیکھنا پڑا، اس زوال نے پارٹی کو کھوکھلا اور ختم کر کے رکھ دیا ۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی نے 28 نشستیں جیتیں اور اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت اُبھر کر سامنے آئی تھی۔ لیکن تب پی ڈی پی کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنانا بہت بڑی غلطی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے آرٹیکل 370 کی متنازعہ منسوخی کی اور کسی بھی مقامی پارٹی کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت کرنا عوام کے لیے کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیںتھا۔ 2024 کے انتخابات میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں صرف تین نشستیں آئیں۔ پارٹی کی چیئرپرسن محبوبہ مفتی نے الیکشن بھی نہیں لڑا ، جو پارٹی کے کمزوری اور زمینی سطح پر ساخت کھونے کی واضح علامت ہے ۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی بھی نیشنل کانفرنس کے امیدوار سے اپنی نشست ہار گئیں جو کہ اس امر کی واضح دلیل تھی کہ کشمیر کا عوام کسی ایک پارٹی کو واضح مینڈیٹ دینا چاہتے ہیں جو آرٹیکل 370 کی بحالی اور ریاست کا درجہ حاصل کرنے کی بات کرتی ہے اور کسی بھی مخالف نظریہ پارٹی کو سبقت نہیں دینا چاہتےاوراس سلسلے میں ووٹ کی تقسیم نہیں کرنا چاہتے ۔ ایک زمانے میں طاقتور پی ڈی پی اب انتہائی کمزور پارٹی کے طور پر کھڑی ہے ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی بھی پارٹی کا خطے کے مفادات کے خلاف سمجھے جانے والی قوتوں کے ساتھ صف بندی کرنا اُن کی سیاست کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے ۔دریں اثنا بھارتیہ جنتا پارٹی کی جموں و کشمیر کی سیاسی صورتِ حال کو بدلنے کے لئےاُن کی حکمت عملی کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ جموں خطے میں زیادہ تر نشستیں جیتنے کے باوجود آزاد امیدواروں اور چھوٹے علاقائی پراکسی پارٹیوں کے ذریعے وادی میں گھسنے کا ان کا منصوبہ ناکام ہو گیا ۔ کشمیر میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کا آرزوانہ منصوبہ عیاں طور پر ناکام ہو گیا ، کیونکہ رائے دہندگان نے واضح مینڈیٹ کے حق میں ووٹ دے کر باقی ساری شکوک وشبہات سے پُر ‘ بکھرے ہوئے مینڈیٹ کو مسترد کر دیا ۔یہاں تک کہ پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون اور عوامی اتحاد پارٹی کے انجینئر رشید کے سیاسی تجربات بھی عوام کے نظریاتی سوچ کے غلبے کو کم نہیں کر سکے ۔ سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس صرف ہندوارہ حلقہ سے ان کی واحد نشست بہت کم فرق سے جیتنے میں کامیاب رہی۔ الطاف بُخاری کی اپنی پارٹی ، غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک پیپلز آزاد پارٹی (ڈی پی اے پی) اور جماعت اسلامی کوئی بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہوپائے۔ ہندو اکثریتی جموں خطے میں بی جے پی کو اگرچہ اچھی خاصی حمایت ملی، لیکن وادی میں ، پیغام واضح تھا۔ کوئی ووٹوں کا بٹوارہ نہیں ، کوئی پراکسی نہیں-صرف لوگوں کے حقیقی نمائندگی کو موقع ملے گا۔
وادی کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو یکسر مسترد کرنے سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ کئی بڑی علاقائی پارٹیوں اور نئے کھلاڑیوں کا یکساں طور پر زوال ہوا ۔ انجینئر رشید ، جس نے تقریباً دو لاکھ ووٹوں کے ساتھ پارلیمانی نشست جیت کر اسٹیبلشمنٹ اور عوام دونوں کو حیران کردیا تھا ، ان انتخابات میں اپنی کامیابی کو دہرا نہیں سکا ۔ انجینئررشید اور ان کی پارٹی عوامی اتحاد پارٹی ( AIP ) بڑی ہلچل کے باوجود اسمبلی انتخابات میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی اور انجینئررشید کا جیل سے رہائی کے بعد دئیے گئے بیانیے اس بار لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ جماعت اسلامی طویل بائیکاٹ کے بعد سیاسی میدان میں واپس آنے میں کامیاب رہی اور کچھ علاقوں میں اے آئی پی کی حمایت کے باوجود ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکی ۔ ان علاقائی قوتوں کی انتہائی غیر متوقع واپسی شکست پر ختم ہوئی ، جس کا براہ راست فائدہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو ہوا۔کانگریس اگرچہ اتحاد میں ایک جونیئر پارٹنر تھی ، چھ نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی ، جن میں سے پانچ کشمیر سے تھیں ۔ جموں میں ان کی کارکردگی مایوس کن رہی ، کانگریس نے جموں میں 29 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے لیکن وہ صرف ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جموں میں دوسری بڑی قومی پارٹی کا زوال ریاست میں اس کے مستقبل پر سوالات کھڑے کرتا ہے ۔
اب نیشنل کانفرنس۔کانگریس اتحاد حکومت بنانے کے لیے تیار ہے ۔ لیکن جیسے جیسے دھول ٹپکتی جاتی ہے ، کئی سوال ذہن میں آتے ہیں۔ کیا یہ سیاسی تبدیلی جمہوریت کی واپسی کا اشارہ ہے یا یہ صرف کھوکھلی بازگشت ہے؟بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسمبلی میں نئی حکومت کے پاس بہت کم حقیقی طاقت ہوگی اور حقیقی کنٹرول مرکز کے ہاتھوں میں رہے گی۔ نئی حکومت کے لیے آرٹیکل 370 کی بحالی اور جموں وکشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دلانا سب سے بڑا چیلنج رہے گا۔ اگرچہ یہ ابھی ایک دُور کا خواب لگ رہا ہے کیونکہ سچائی یہی ہے کہ مرکز میں حکومت انہی کی ہے جنہوں نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا ہے۔نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کے پاس مینڈیٹ واضح ہے ، لیکن کیا عمر عبداللہ اور ان کا اتحاد اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کر سکتا ہے؟ آرٹیکل 370 کی بحالی کا راستہ قانونی لڑائیوں اور سیاسی مزاحمت سے بھرا ہوا ہے۔اگرچہ وادی میں انتخابات کرانے اور جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرانے کے لیے سپریم کورٹ نے زور دیا تھا۔ لیکن خود مختاری کی بحالی ابھی بھی ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ کیا یہ اتحاد مرکز کی مضبوط دیواروں کو توڑ سکتا ہے ؟ یا پھر عوام کی اُمیدیں ایک بار پھر سیاسی حقیقت کی چٹانوں سے ٹکرا جائیں گی ؟
نئی حکومت بننے والی ہے، دنیا کی نگاہیں کشمیر پر لگی ہوئی ہیں ۔ لوگ اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں ، لیکن کیا ان کی آوازیں سنی جائیں گی ؟ صرف وقت بتائے گا کہ یہ انتخابات بامعنی تبدیلی کی طرف ایک قدم تھے یا ایک طویل ، غیر یقینی سفر کا صرف ایک اور باب؟
(رابطہ۔ 7006857283)
[email protected]