6سا ل کے وقفہ کے بعد جموںوکشمیر میں بالآخر ایک بار پھر ایک عوامی حکومت کا قیام عمل میں آیا ۔وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی سربراہی میں نئی حکومت نے حلف برداری کے ساتھ ہی اپنا کام کاج شروع کردیاہے۔پہلے ہی دن ایس کے آئی سی سی میں حلف برداری کے بعد عمر عبداللہ نے سیول سیکریٹریٹ سرینگر میں انتظامی سیکریٹریوں کی ایک میٹنگ کی صدارت کی اور اپنی تر جیحات اُن کے سامنے رکھی جبکہ انہوںنے پولیس سربراہ سے بھی ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے اُن پر زور دیا کہ سڑکوں پر اُن کی نقل و حرکت کے دوران اُن کے قافلہ کیلئے کوئی خاص کاریڈور نہ بنایا جائے بلکہ اُنہیں بھی عام لوگوںکی طرح ہی سڑک استعمال کرنے دی جائے ۔انہوںنے کہا کہ وہ عوام کے خادم ہیں اور اُن کی وجہ سے عوام کوکوئی دشواری نہیں ہونی چاہئے۔بحیثیت وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا پہلا دن انتہائی امید افزاء رہا ہے اوراُن کے کنڈکٹ سے عوام میں بہت ساری امیدیں پیدا ہوگئی ہیں اور وہ یہ سوچنے لگے ہیں کہ شاید اس حکومت کا طریقہ کار ماضی کی حکومتوںکے برعکس ہوگا۔بادی النظر میں عمر عبداللہ نے ویسے ہی اشارے دئے کہ لوگ اس سمت میں سوچنے پر مجبور ہوگئے ۔ویسے بھی اگر سچ کہاجائے تو جموںوکشمیر کیلئے یہ قطعی عمومی حالات نہیں ہیں اور نہ ہی عمر عبداللہ نے عمومی حالات میں زمام ِ اقتدار سبھالی ہے بلکہ اُن کیلئے یہ اقتدار کانٹوںکا سیج ہے اور اُنہیں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑے گابلکہ عوام کوہر قدم پر راحت پہنچانے کیلئے کڑوے گھونٹ پیناپڑیں گے لیکن جس طرح کا بھاری منڈیٹ اُنہیں ملا ہے ،اُنہیں یہ گھونٹ پینے پڑیں گے اور عوامی امیدوں اور توقعات پر کھرا اترنا ہی پڑے گا کیونکہ عوام نے بڑی توقعات کے ساتھ اُنہیں ووٹ دیا ہے۔چونکہ لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات میں وسیع توسیع کی گئی ہے اور عملی طور پر منتخب حکومت راج بھون کے رحم و کرم پر ہے تو وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے لئے کام کرنا آسان نہیں ہوگا لیکن اُنہیں عوام کی راحت رسانی کیلئے راہیں تلاش کرنا ہونگیں کیو نکہ عوام نے اس حکومت کے ساتھ بڑی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔سب سے پہلا اور کڑا امتحان عمرعبداللہ کیلئے اپنے چناوی وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔اُنہوںنےاپنے چناوی منشور میں عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ 200یونٹ ماہانہ مفت بجلی دیںگے جبکہ اس کے علاوہ ہر کنبہ کو ماہانہ10کلو مفت راشن ملے گااور ہر کنبہ کو سال میں12گیس سلنڈرمفت ملیں گے۔یہ وہ اعلانات ہیں جن پر اگر عمل کیاجائے تو یقینی طور پر عوام کو بڑی راحت ملے گی لیکن ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہے ۔ظاہر ہے کہ اگر عمر عبداللہ کل ماہانہ 200یونٹ مفت بجلی ہی فراہم کرنے کا اعلان کریں گے تو اُنہیں اس کیلئے لیفٹیننٹ گورنر سے رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ اس میں بے پناہ سرمایہ کا مسئلہ درپیش ہے اور پھر یہ لیفٹیننٹ گورنر کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس کو منظوری دے یا نہیں۔اسی طرح 10کلو گرام ماہانہ مفت راشن کیلئے عمرعبداللہ کو زر کثیر کا انتظام کرنا پڑے گا اور یہ بھی ایل جی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔اسی طرح جموںوکشمیر میںبالعموم اور کشمیر میںبالخصوص جو گھٹن کا ماحول ہے ،اُس کو ختم کرنا بہت بڑ اچیلنج ہوگا کیونکہ امن وقانون اور داخلہ پر منتخب حکومت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ایسے میں عمر عبداللہ کوکچھ ایسا کرنا ہوگا جس سے وہ عوام کو سکون و قرار میسر ہولیکن یہ آسان نہیں ہے کیونکہ و ہ اس معاملہ میں بالکل بے دست وپا ہیں۔اس صورتحال میں لیفٹیننٹ گورنر اور وزارت داخلہ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوامی منڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے عمر عبداللہ کو عوامی راحت رسانی کے کام کرنے میں معاون بنیں تاکہ ایک خوشحال جموںوکشمیر کا خواب شرمندہ تعبیر کیاجاسکے۔اس ضمن میں وزیراعظم نریندر مودی کا ٹویٹ انتہائی اہم ہے جس میں انہوںنے عمر عبداللہ کو نئی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے پر مبارک باد دیتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی کہ جموںوکشمیر کی ترقی کیلئے وہ عمر عبداللہ اور اُن کی ٹیم کے ساتھ قریبی تعاون کریںگے۔بہ الفاظ دیگر مودی نے عمر عبداللہ کو واضح پیغام دیا کہ وہ جموںوکشمیر کی ترقی کیلئے ان کے ہر اُس کام کی حمایت کریںگے جو عوامی فلاح وبہود پر مرکوز ہو۔بہر کیف امید کی جانی چاہئے کہ دلّی اور سرینگر کے درمیان تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پائیں گے کیونکہ عمر عبداللہ حکومت کو اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے کیلئے قدم قدم پر دلّی کی ضرورت پڑے گی اور دلّی سے یہی امید کی جانی چاہئے کہ وہ عمر عبداللہ حکومت کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کی بجائے اُس حکومت کا مکمل تعاون کریں گے تاکہ عمر عبداللہ وہ وعدے پورے کرسکیں جو انہوںنے چنائو کے دوران عوام سے کئے ہیں اور جن وعدوںکو عملی جامہ پہنانے کیلئے عوام نے اُنہیں ووٹ دیا ہے ۔