سید مصطفیٰ احمد ۔بمنہ، بڈگام
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ تغیر زندگی کی بنیاد اور اساس ہے، جمود موت ہے، جو پانی رواں دواں رہتا ہے،اس میں بدبو پیدا ہونا محال ہے۔ اس کے برعکس خوبصورت دکھنے والی جھیل اگر جمود کا شکار ہوجائے تو اس میں زہریلے بیج پیدا ہونے لگتے ہیں اور موت اس کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ یہی معاملہ تعلیم کا بھی ہے۔ اگر بدلتے وقت کے ساتھ تعلیم کو موزوں بنایا جائے تو اس میں ترقی اور آگے بڑھنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔جب سماجی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ معاشی ترقیاتی چارسو ہو، تو ایسے میں ایک ملک کے تعلیمی نظام کو بھی اپنے اندر چستی، پھرتی، دوراندیشی، برداشت، وغیرہ جیسے اوصاف پیدا کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ جب زندگی سادہ ہوا کرتی تھی، تب سادہ تعلیم سے بھی کام چلتا تھا۔ جب زندگی کے معنی محدود تھے، تب نظام تعلیم بھی اسی قسم کا ہوتا تھا۔اسناد حاصل کرنا اور پھر کسی سرکاری دفاتر میں نوکریاں حاصل کرنا تعلیم کے بنیادی مقاصد تھے۔ لیکن اب ہر طرف سے تبدیلیوں کی لہریں اٹھنے لگی ہیں۔ اب تعلیم کا تصور بالکل بدل گیا ہے۔ اب علم حاصل کرنے کے ذرائع بھی اور علم کی شکل و صورت بھی بدل گئی ہے۔ اب زمانے کے موافق تعلیم حاصل کرنا ایک طالب علم کے لئے بے حد ضروری ہے۔
موجودہ نظام تعلیم پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس میں نقائص کی بھرمار ہے، جس کی وجہ سے تعلیم اب بوجھ زیادہ مگر عبادت کم ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایک طالب علم پر دھیان کم لیکن کتب اور اس سے منسلک امتحانات پر سارا دھیان مرکوز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آگے چل کر اس نظام کے بُرے اثرات پورے سماج پر مرتب ہوتے ہیں۔ پہلے دن سے ہی ایک طالب علم کو امتحان کے بڑے جسم والے بھوت سے ڈرایا جاتا ہے۔ اس بھوت کو پچھاڑنے میں اگر خدانخواستہ کوئی بھول ہوجاتی ہے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے اور موت کو گلے لگانا نہایت ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جو طلبہ اس جِن کو ہرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ان کے لئے پھر زندگی مانو ایک پھولوں کی سیج ہے، جس سے ایسی خوشبو اٹھتی ہے کہ دیکھنے والے کے دل اور دماغ کو معطر کر دیتی ہے۔ اس طرح یہ جِن نسلوں کی نسلوں کو تباہ کرنے میں بنیادی رول ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے نظام تعلیم میں رٹا مارنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ بازار میں بکنے والے نوٹس اور گائڈ کتابیں طلبہ رَٹ لیتے ہیں اور امتحانات کے دوران پرچوں میں چھاپ دیتے ہیں۔ کسی دوسرے کے خیالات کو من و عن امتحانات میں چھاپنا کونسی تعلیم کہلاتی ہے؟ ہاں! یہ خوش آئند قدم ہے کہ ایک طالب علم مختلف کتابوں کا مطالعہ کرکے اپنی سوچ پیدا کرے اور اسی سوچ کے مطابق امتحانات میں سوالات کے جوابات لکھیں۔ کھلی کتاب کا امتحان بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ طلبہ ایک مضمون کو مختلف کتابوں سے پڑھ کر اپنے الفاظ اور اپنی ذہانت کے مطابق قلمبند کریں۔ لیکن اس کے برعکس بازار میں بکنے والے نوٹس کے جوابات کو امتحانات میں ہوبہو لکھنا، پڑھائی کے کسی بھی زمرے میں نہیں آتا ہے۔ مزید برآں ہمارے تعلیمی نظام میں سوالات پوچھنے کا مادہ سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ اساتذہ جو درس و تدریس کا انجام دیتے ہیں، ان کے سامنے طلبہ کو چاہئے کہ وہ passive spectators کی طرح ہاں میں ہاں ملائے۔ طلبہ اپنے اساتذہ سے سوال پوچھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں استاد کی بات پتھر کی لکیر کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بات سے طالب علم کا تھوڑا سا بھی انحراف کرنا ایک بہت بڑا جرم مانا جاتا ہے۔ وہ تعلیم اپنے عروج پر پہنچتی ہے، جس میں critical thinking کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ وہ نظام تعلیم پائیدار ہے جس میں ہر بات کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جائے اور ہر تسلیم شدہ بات کو ماننے سے پہلے سچ کے مختلف مراحل سے گزارا جائے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ واقعی ہمارے تعلیمی نظام میں خاطرخواہ تبدیلیاں رونما ہو، تو ہمیں کچھ بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ ان اصولوں کی برعکس جو بھی اقدامات اٹھائیں جائیں گے، وہ اپنے اندر تباہیوں کا عنصر چھپائے بیٹھے ہیں۔ سب سے پہلا اصول ہے تعلیم برائے زندگی۔ جب تک تعلیم صرف تعلیمی اداروں تک محدود ہے تب تک ہمارے معاشرے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی امید رکھنا سراب کی مانند ہے۔ تعلیم برائےزندگی کے نعرے کو زندگی کے ہر شعبے میں اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوسرا صول ہے بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ تعلیم کو نئے سانچے میں ڈھالنا۔ روایتی اساتذہ کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی افادیت اب ختم ہوچکی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے دور میں well-equipped اساتذہ کی ضرورت ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس اب اصلی اساتذہ کی جگہ لے رہے ہیں۔ Isaac Asimov کی کتاب I,Robot اس کی زندہ مثال ہے۔ وہ نویں جماعت کی انگریزی کتاب میں لکھتے ہیں کہ کیسے کچھ سو سالوں کے بعد روبوٹس اساتذہ کے فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ تو ایسے میں آج کے اساتذہ کو موجودہ زمانے کی باریکیوں سے اپنے آپ کو روشناس کرانا ضروری ہوگیا ہے۔ تیسرا ہے تعلیم برائے ہنر اور نجی سیکٹر۔ اگر تعلیم میں روزگار اور خاص کر ہنر سکھانے کے سامان کا فقدان ہے، تو ایسی تعلیم بالکل ضائع ہے۔ جو تعلیم مہارت پر دھیان دینے سے قاصر ہے تو ایسی تعلیم سے ناخواندہ رہنا ہی بہتر ہے۔ Skill-oriented تعلیم اب اس سرمایہ دارانہ دنیا کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ The market economy کے اس دور میں جس میں ڈیٹا اور پھرتی اتنے قیمتی ہیں جتنے کہ ہوا اور پانی، جینے کے لئے مہارت پر دھیان دینا سب سے ضروری کام ہے۔ آج اس کی عزت کی جاتی ہے جس میں کچھ کرنے کا مادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو موجودہ زمانے کی رو میں بہتا ہے وہی منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے۔ سب سے ضروری اصول ہے طلبہ کی فکر کرنا۔ طلبہ ہی ہمارا مستقبل اور کل سرمایہ ہے۔ ان کو بے جا بوجھ کے تلے دبانا حماقت اور جرم ہے۔ ان کی حقیقی نشوونما کے لئے ہم سب کو ان کی خواہشات کے مطابق ایسا نظام ترتیب دینا چاہیے جس میں وہ خوشی خوشی تعلیم حاصل کر سکے۔ ڈر اور دباؤ جیسی مہلک چیزوں سے پرہیز کرنا ہے۔ ذہنی صحت کے علاوہ ان کے ناپختہ جذبات کی بھی فکر کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔ زندگی کی جنگ کیسی لڑی جاتی ہے، اس کے لیے ان سب کو تیار کرنا ہی سب سے اہم کام ہے۔ تو آئیے اس کام میں سبقت لیتے ہوئے نئی تعلیم کی راہ پر دوڑنا شروع کریں، ابھی منزل دور ہے مگر جانا ضرور ہے۔
syedmustafaahmad9@gmail.co