دکانوں کے تھڑوں پر ، ماتمی مجلسوں اور شادی بیاہ کی تقریبات پر لوگ اکثر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اب کیا ہونے والا ہے؟تحریک مزاحمت کے حامی جواب دیتے ہیں کہ بھارت جلد ہی ہتھیار ڈالنے والا ہے ۔نیشنل کانفرنس ، کانگریس اور قومی دھارے سے جڑے لوگ بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہتے ہیں کہ فیصلہ تو بہرحال ہونا ہی ہے ۔مولوی صاحبان میں سے اگر کوئی مجلس میں موجود ہو تو تفصیل کے ساتھ اسلام کے غالب ہونے کی نوید سناکر پژمردہ چہروں کی رونق بحال کرتاہے ۔کافی دیر تک جاری رہنے والی بات چیت کا محور اُمیدوں پر قائم ہوتاہے اور آخر پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح مبین کے وعدے پر اتفاق رائے قائم ہوتا ہے ۔ کبھی کسی مجلس میں بحث نہیں ہوتی ہے صرف گفتگو ہوتی ہے اور یہ گفتگو سوالوں اورجوابوں کے جھمیلوں میں کھو کر ختم ہوجاتی ہے ۔
بحث کیلئے ہمارے چاروں طرف موضوعات پھیلے ہوئے ہیں لیکن ہم کسی موضوع پر بحث نہیں کرتے کیونکہ بحث کے لئے ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کی قوت پہلی شرط ہے مگر ہم ایک دوسرے کو سننے کی قوت اور صلاحیت سے ہمیشہ محروم رہے ہیں ۔ برداشت کی قوت صرف ان لوگوں کے اندر ہوتی ہے جن کی اپنی کوئی پختہ سوچ ہو اور اس کی صداقت پر انہیں مکمل اعتبار ہو ۔ ہماری سوچ کسی علم ، کسی تحقیق ، کسی فلسفے اورکسی زمینی حقیقت پر نہیں صرف عقیدوں پر قائم ہوتی ہے اور ہمارا کوئی عقیدہ راسخ نہیں رہا ہے ۔زمانے کی ہر لہر ، ہر مقبول نعرہ ، ہر جذباتی رویہ اور عروج پانے والی شخصیتیں ہمارے عقیدوں کے آستانے رہے ہیں ۔ہماری سیاست عقیدہ ہے ہمارا نظریہ عقیدہ ہے اور ہماری فکر عقیدے کی ہی خمیر پر قائم ہے۔جس وقت درختوں کے پتو ں پر شیخ محمد عبداللہ کا نام لکھے جانے کا دعویٰ کیا گیا اُس وقت بھی عقیدہ ہی ہماری سیاست تھی اور جب شیر بکرا ٹکراو ہماری سڑکوں پر ہوتا تھا ہم عقیدوں کی ہی لڑائی لڑ رہے تھے ۔ نہ کسی بکرے نے کبھی سوچا کہ شیر کیوں غلط ہیں اور ہم کیوں صحیح ہیں اور نہ کسی شیر نے سوچا کہ وہ کیوں صحیح ہے اور بکرا کیوں غلط ہے اور جب ڈبل فاروق اتحاد ہوا تو ہم میں سے ایک بھی فرد نے اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کیا کہ شیر بکرا لڑائی کی بنیاد کیا تھی اور صلح کی بنیاد کیا ہے ۔ لڑائی کیوں تھی اور اس لڑائی میں جن لوگوں نے اپنے بچے کھودئیے اور جن لوگوں نے اپنی بیویوں کو صرف اس لئے طلاق دئے کہ میکے والے دوسرے عقیدے سے تعلق رکھتے تھے اتنی بڑی قربانیوں کا کونسا ثمر پاگئے ۔
جب مقبول بٹ کو تہار جیل میں پھانسی پر لٹکایا گیا ہم دوسرے عقیدوں میں مبتلا تھے اس لئے اس سانحے کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔چونکہ ہمارا کوئی عقیدہ کسی عقلی اورعلمی بنیاد پر قائم نہیں تھا، اس لئے وقت کی گردشوں نے عقاید کو تبدیل کردیا ۔ بندوق کی آمد ایک غیر متوقع اور نئی لہر تھی جو اتنی زور دار تھی کہ ہمارے دلوں کے اندر عقیدوں کے پرانے آستانے ٹوٹ گئے اور ان کی جگہ نئے آستانے تعمیر ہوئے ۔ ہندوستان کی وعدہ خلافیوں ، دغابازیوں اور سیاسی چالباازیوں نے بندوق کیلئے زرخیز زمین تیار کی تھی ۔اس لئے ہم نے بندوق کو سجدہ کیا ۔ اسے سرکی آنکھوں پر بٹھایا اور عسکریت پسندوں کو ہیرو بنا کر ان پر سب کچھ نچھاور کردیا ۔ ہم نے ایسا نہ پاکستان کی محبت میں کیا نہ اسلام کی محبت میں کیونکہ بندوق لبریشن فرنٹ لیکر آئی اور لبریشن فرنٹ نہ الحاق پاکستان کی حامی تھی اور نہ ہی نظام شریعت نافذکرنا اس کا نعرہ تھا ۔آزاد اور خود مختار کشمیر ہمارا خواب اور ہمارا عقیدہ بن چکا تھا اس لئے جس مقبول بٹ کو ہم نے دھتکارا تھا اب وہ ہمارا سپر ہیروتھا ۔ہمارے دانشور ، ہمارے صحافی ، ہمارے قلمکار ، ہمارے ڈاکٹر ، ہمارے علماء ، ہمارے وکلاء ، ہمارے جواں ، ہمارے بزرگ سب اس نئے عقیدے کے پیروکاربن گئے ۔اس بات پرکون دھیان دیتا کہ بندوق کہاں سے آئی۔ کیوں آئی ؟ اس کے بطن سے کیا کچھ پھوٹ سکتا ہے ؟بہت جلد ایک لبریشن فرنٹ کے بطن سے عسکری تنظیموں کی جھڑی پھوٹ گئی ۔ہر دینی اور سیاسی تنظیم کا ایک عسکری بازو نمودار ہوا ۔تمام کے تمام دین پسند میدان میں کود گئے ۔ عسکری تنظیموں کی گنتی بھی مشکل ہی سے ہوپاتی تھی ۔طوفان کی تیزی کے ساتھ حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ۔
میر واعظ مولوی محمد فاروق کا قتل ہوا ۔ علیحدگی پسندوں کا ایک سیاسی محاذ حریت کانفرنس کے نام سے قائم ہوا جس کے پہلے چیرمین میر واعظ مولوی محمد فاروق کے صاحبزادے عمر فاروق بنے ۔ حزب المجاہدین کے نام سے اس عسکری تنظیم کا وجود عمل میں آیا جس کے ساتھ زیادہ تر جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے لوگ وابستہ تھے، اسی لئے اسے جماعت اسلامی کا عسکری بازو کہا جاتا تھا۔گروہی تصادموں میں بہت سے لوگ مارے گئے اور لبریشن فرنٹ کی قوت اور طاقت ختم ہونے لگی، اس کی جگہ حزب المجاہدین فرنٹ لائن عسکری تنظیم بنی اور آزادی کے ساتھ اسلام کے نعرے بلند ہونے لگے ۔سید علی گیلانی کا سیاسی قد و قامت بلندیاں چھونے لگا ۔ سرینگر میں جس گیلانی صاحب کی تقریر سننے کے لئے مشکل سے سینکڑوں افراد کا مجمع جمع ہوتاتھا اب اُن کی تقریر سننے کے لئے لوگ ٹوٹ پڑنے لگے ۔گیلانی صاحب نے تحریک کا مقصد شریعت کا نظام نافذ کرنا قرار دیا ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس وقت عسکری اور مزاحمتی سیاست کا نیا دور عروج حاصل کرنے کی طرف گامزن تھا اسی وقت نئی دلی کو ریاست جموں و کشمیر میں مکمل طور سے ٹوٹی ہوئی سیاسی اور انتظامی گرفت بحال ہونے کے آثار نظر آئے اور اس نے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرڈالا ۔مشکل سے پانچ فی صد لوگوں نے ووٹ ڈالے، لیکن اس انتخاب نے نیشنل کانفرنس کا اقتدار ایک بار پھر قائم کیا ۔بھارتی قومی دھارے کی سیاست کو ایک نئی زندگی ملی ۔
اس کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے قومی دھارے کی ایک نئی مقامی سیاسی تنظیم بنی جو مختصر عرصے میں سیاسی مطلع پر چھاگئی اور اقتدار کی دہلیز تک پہنچی۔
اب جبکہ ریاست پر بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت ہے ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے نکل کر مستقبل کے معمار بندوق ہاتھوں میں اُٹھارہے ہیں ۔ فورسز آپریشن آل آوٹ جاری رکھے ہوئے ہے اور جب جنگجووں اور فورسز کا آمنا سامنا ہوتا ہے، عوام ڈھال بن کر بیچ میں آجاتے ہیں۔ہلاکتیں ہوتی ہیں اور پیلٹ آنکھوں کی روشنی سے لوگوں کو محروم کردیتا ہے ۔ عقیدے لاتعداد عقیدوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ،لیکن بھارت کے خلاف نفرت تمام عقیدوں کی مشترکہ وراثت کے طور پر درمیان میں ایستادہ ہے ۔اُدھر کنٹرول لائن پر بھارت اور پاکستان کی فوجیں ایک دوسرے پر گولہ باری میں مصروف ہیں اور سفارتی سطح پر بھی شدید کشمکش جاری ہے ۔
یہ کہانی تقریباً تیس سال کے عرصے پر محیط ہے ۔تیس سال میں ایک نسل بوڑھی ہوجاتی ہے اور ایک نسل جواں ہوتی ہے اور ایک نئی نسل آنکھیں کھولتی ہے ۔جو لوگ سوچنے کی بری عادت میں مبتلا ہیں وہ سوچ رہے ہیں کہ تین دہائیوں کے اس عرصے میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کشمیر میںجو کچھ ہورہا ہے اس میں بھارت کا بھی ہاتھ ہے اور پاکستان کا بھی ۔ دونوں ملک کشمیر کی زمین پر اپنی انا کی جنگ لڑرہے ہیں اور دونوں بری طرح سے اس جنگ میں شکست کھاچکے ہیں ۔تیس سال تک کشمیر کی لڑائی میں سب کچھ داو ٔپر لگانے کے باوجود پاکستان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا ہے، اس کے سوائے کہ اسے اس بات کا اطمینان ہے کہ کشمیری اس کی جنگ کا حصہ بن چکے ہیں ۔بھارت بھی اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کے باوجود کچھ بھی حاصل نہیں کرپایا ہے ،بلکہ اِن تین دہائیوں میں کشمیر اس سے اور زیادہ دُور ہوچکا ہے ۔ عسکریت بھی عوامی تائید و حمایت کے باوجود کہیں پاؤں ٹھہرانے سے بھی مجبور ہے اور سیاسی قیادت ہڑتالی سیاست سے آگے نہ کچھ سوچ سکی اور نہ کرسکی ۔نیشنل کانفرنس بھی ناکامیوں اور نامرادیوں کی ایک تاریخ مرتب کررہی ہے اور اب پی ڈی پی بھی شکست کی دہلیز پر ہے۔
مجموعی طور پر مسئلہ کشمیر سے جڑا ہر فریق شکست خوردہ ہے ۔کسی کے ہاتھ کوئی حصولیابی نہیںاور کسی کے پاس اُمید کی بھی کوئی کرن نہیں ۔پاکستان بھی ہاری ہوئی جنگ لڑرہا ہے اور بھارت بھی ۔ عسکری محاذ بھی شکست خوردگی کے احساس سے دوچار ہے اور مزاحمتی قیادت بھی ۔عوام کے عقیدے ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ رہے ہیںاور انہیں نئے بت ، نئے دیوتا اور نئے آستانے کی تلاش ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کبھی آئی ایس آئی ایس میں یہ نیا دیوتا نظر آتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیرجیسے ماحول میں بی جے پی دفاتر قائم ہورہے ہیں اورنوجوان اس جماعت میں بھی شامل ہورہے ہیں ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تضادات انسانوں میں سخت ردعمل پیدا کرکے انہیں کہیں سے کہیں دھکیل دیتے ہیں ۔
جن لوگوں نے مذہب اور سیاست کو ایک قرار دیا ۔ جن لوگوں نے مسئلہ کشمیر کی جدوجہد کو دین کی سربلندی کی جدوجہد کہا ۔جنہوں نے شریعت کے نظام کا نفاذ جدوجہد کی منزل قرار دیا ، آج وہی لوگ آئی ایس آئی ایس کے جھنڈے دیکھ کر چلا رہے ہیں کہ ہماری جدوجہد کا کوئی بین الاقوامی ایجنڈا نہیں ہے ۔دین کی سربلندی کی جدوجہد بجائے خود بین الاقوامی ایجنڈا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اسی سوچ نے کشمیر کو مسلکی گروہوں کی آماجگاہ بنادیا تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ دنیا میں اس وقت مسلمان ہر جگہ مسلکی گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور نیل کے ساحل سے لیکر کاشغر کی خاک تک مسلکی کشمکش اور جھگڑے خونریزیوں کی داستانیں رقم کررہے ہیں ۔سب کے پاس دین کی سربلندی کا ہی نعرہ ہے اور ہم نے کشمیر کی سوچ اورجذبے کو یہی نعرہ دے کراِن جدید رقابتوں میں گھسیٹ دیا ۔اب ہمارے پاس کوئی ایسا راستہ نہیں جو ہمیں اس اندھیارے سے نکال سکے، اس لئے ہم بھی پریشاں ہیں ہمارے دانشور ، ہمارے قائد اور ہمارے نوجوان بھی ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)