2014میںسابق حکومت کے دور میں ریاست بھر میں نئے انتظامی یونٹوں (تحصیلوں ، بلاکوں اور نیابتوں ) کا اس غرض سے قیام عمل میں لایاگیا تاکہ لوگوں کو مقامی سطح پر ہی خدمات میسر کی جاسکیں تاہم چار سال بیت جانے کے باوجود بھی کہیں ان نئے یونٹوں میں افرادی قوت کی شدید قلت پائی جارہی ہے تو کہیں یہ یونٹ قائم ہی نہیں ہوسکے اور کہیں ان کے قیام کی جگہ پر تنازعات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ،جنہیں حل نہیں کیا گیا ہے۔ فی الوقت ریاست میںان نئے یونٹوں میں پچاس فیصد سے زائد اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں جن میں افسران سے لیکر درجہ چہارم تک کی اسامیاں شامل ہیں ۔گزشتہ روزاسمبلی کے ایوان زیریں میں ایک سوال کے جواب میں فراہم کی گئی سرکاری تفصیلات کے مطابق صوبہ جموں میں کل منظور شدہ 1740اسامیوں میں سے 957خالی پڑی ہیںجبکہ کشمیرصوبہ میں 1380اسامیوں میں سے 625خالی ہیں۔جموں صوبہ میں سب ڈویژنل مجسٹریٹکی 1، تحصیلداروں کی 08، نائب تحصیلداروں کی 30، جونیئر اسکیل سٹینو کی 24، گرداور/ریڈر کی 83، ڈبلیو بی این کی 68، اکاؤٹس اسسٹنٹوں کی 26، پٹواریوں کی139، جونیئر اسسٹنٹوں کی 173، ڈرائیوروں کی51، اردلی کی191، پروسیس سرور67اور چوکیداروںکی96اسامیاں خالی ہیں۔اسی طرح کشمیر صوبہ میں ایس ڈی ایم کی 05، تحصیلدار وںکی 03، نائب تحصیلدار کی 53، جی قیو کی 51، پٹواریوںکی60، جونیئر سٹینو کی 17، اکاؤنٹ اسسٹنٹ کی 17، جونیئر اسسٹنٹ کی 108، ڈرائیوروں کی 42، ڈبلیو بی این کی 34، اردلیوں کی 136،پروسیس سرور کی45اور چوکیدار کی 54اسامیاں خالی پڑی ہیں ۔متذکرہ بالااعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام کو مقامی سطح پر ہی سہولیا ت اور خدمات کی فراہمی کے حکومتی دعوے سراب ہیں اوراس کے کہنے اور کرنے میں واضح تضاد پایاجارہاہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نئے انتظامی یونٹوں میں سے بیشتر ریاست کے دور دراز اور پہاڑی اضلاع میں قائم کئے گئے جہاںکے لوگوں کوتحصیل یا بلاک سطح پر پہنچنے کیلئے میلو ں سفر کرناپڑتاتھا اور کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں سے تحصیل صدر مقام اتنے دور ہیں کہ صبح نکل کر شام کو گھر واپس پہنچنا بھی مشکل ہوتاہے ۔کئی مقامات پر تو یہ انتظامی یونٹ ہوا میں ہی ہیں جبکہ کچھ جگہوں پر ابھی تک قیام کی جگہ پر تنازعات چل رہے ہیں ۔تب تک دور دراز علاقوں کے لوگوں کو مقامی سطح پر سہولیات فراہم نہیں ہوسکیںگی،جب تک کہ ان انتظامی اکائیوںکو پوری طرح سے فعال نہ بنالیاجائے، جس کیلئے یہ ضروری ہے کہ خالی پڑی تمام اسامیوں کوفی الفور پُر کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ اس طرح نہ صرف یہ اکائیاں کام کرنا شروع کریںگی بلکہ لگ بھگ ڈیڑھ ہزار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی میّسرہوںگے ۔اگر ان انتظامی اکائیوں کے تئیں اسی طرح سے غیر سنجیدگی سے کام لیاگیاتو پھر مڑواہ ، واڑون ، نیل ، پوگل پرستان ، لورن ، بالاکوٹ ، بدھل جیسے دور افتادہ علاقوں کے لوگوں کی زندگیوں میںکسی قسم کے بدلائو کی توقع رکھنا عبث ہےاور ان کا بیشتر وقت انتظامی امورکیلئے تگ ودو میں بیت جانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ا ن انتظامی اکائیوں میں افرادی قوت کی کمی کو پورا کیاجائے اور انہیں فعال بنانے کیلئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں ۔