’’میں آج تمہیں اس بوتل کو ہاتھ لگا نے نہیں دوں گی۔بہت صبر کرچکی ہوں میں۔برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔تمھاری اس حرکت کا ان بچّوں پر کیا اثر پڑے گا۔تم اسے شراب سمجھتے ہو۔میں اسے تیزاب سمجھتی ہوں۔یہ شراب تمھارے وجود کو اندر ہی اندر جلا رہی ہے‘‘
سفینہ بیگم کا یہ پُر جوش احتجاجی روّیہ دیکھ کر سیف الدّین کسی حد تک سہم سا گیا۔تین سال سے اسے سیگریٹ اور شراب نوشی کی لت پڑ چکی تھی۔ایک اچھے سرکاری عہدےپہ تعینات تھا۔رشوت خوری سے اس کا ضمیر مردہ ہوچکا تھا اور اس کے احساس کا پنچھی نہ جانے کس جانب اُڑان بھر کے کہیں دور چلا گیا تھا ۔سفینہ بیگم ایک سلیقہ شعار اور پُر بہار بیوی کی حیثیت سے اپنے دو پھول جیسےبچّوں اور پورے گھر آنگن کو سنبھالے ہوئے تھی۔عورت ذات تو دھرتی کے مانند ہوتی ہے۔سارے دُکھ درد،سارے ظلم وستم اورناانصافیاں ایک حد تک ہی برداشت کرتی ہے لیکن جب اس کے وجود میں غم وغصّے کی جوالا مکھی پھٹ کے باہر آجاتی ہے تو تب وہ خود کو جلانے کے ساتھ ساتھ ہر چیز کو صحم دیتی ہے۔سفینہ بیگم نے دانت کچکچاتے ہوئے اپنے شوہر سیف الدّین کے ہاتھ سے شراب کی بوتل ایک ہی جھٹکے سے چھین لی اور کمرے کی کھڑکی سے باہر سڑک پہ پھینک دی۔بوتل کے ٹوٹنے اور شیشے کی کرچیاں بکھرنے کی آواز سیف الدّین کے کانوں سے ٹکڑائی تو اس نے کہا
’’سفینہ!۔۔۔ تُم نے یہ اچھا نہیں کیا۔میں یہ بوتل دُکاندار کو واپس بھی دے سکتا تھا۔پانچ سو روپے کی بوتل تم نے جلدبازی میں توڑدی! تم جوش میں ہوش سے کام نہیں لیتی ہو‘‘
سفینہ بیگم نے جواب دیا
’’میں نے جوکچھ کیا ہے،اچھا کیا ہے اور ہوش وحواس میں کیا ہے‘‘
سیف الدّین نے کسی حد تک عاجزی اختیار کی اور اپنی مجبوری اور بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا
’’سفینہ!۔۔مجھے پینے کاشوق نہیں ،پیتا ہوں غم بھلانے کو۔دفتر میں فائلیں دیکھتے دیکھتے تھک جاتا ہوں۔کئی مسائل دل ودماغ پہ سوار رہتے ہیں ۔سوچ اور فکر کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔میں شراب پینے کا عادی نہیں ہوں۔ہفتے دس دن کے بعد اگر شراب کو شربت سمجھ کے پیتا ہوں تو اس میں تمھیں کیا بُرائی نظر آتی ہے‘‘
سفینہ بیگم کا لہجہ اور تلخ ہوگیا وہ بولی
’’میری تُم کو یہ آخری وارننگ ہے۔آج کے بعد اگر مجھے تُم اس حال میں نظر آئے تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔کان کھول کر سن لونا یا تو میں اپنی جان گنواوں گی یا تمھاری جان لے لوں گی‘‘
میاں بیوی کی تکرار شائد کچھ اور طول پکڑتی کہ اتنے میںسیف الدّین کے شیش محل جیسے مکان کے صدر دروازے پر اللہ والوں کی ایک ٹولی نے دستک دی۔پانچ آدمیوں پہ مشتمل یہ ٹولی جن میں ایک امیر،ایک متکلم ،ایک رہبر کے علاوہ دو آدمی اور تھے ۔زباں پہ اللہ کا ذکر اور دل میں آخرت کی فکر لیے سیف الدّین کے مکان کے باہر کھڑے اس کا انتظار کررہے تھے۔سیف الدّین نے دستک سُنی تو نوکر کو گیٹ پہ بھیجا۔نوکر نے واپس آکر بڑے مودبانہ انداز میں اسے کہا
’’میرے آقا!۔۔ باہر گیٹ پہ چند آدمی آپ سے ملاقات کے متمنّی ہیں ۔باہر تشریف لے جائیے‘‘
اس نے متعجب انداز میں اسے پوچھا
’’کون ہیں؟۔۔۔کیوں آئے ہیں؟‘‘یہ کہتے ہوئے وہ گیٹ پہ آیا۔اس کی نظر جونہی ان اللہ والوں پر پڑی تو اس کے دل میں ان کے نُورانی اور پُر سکون چہرے دیکھ کے حیرت اور رشک کی اک ترنگ سی اُٹھی۔
’’السّلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ‘‘امیر جماعت فرقان احمد نے دعا وسلام کے بعد سیف الدّین سے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھائے۔اس نے سلام کا جواب دیا۔امیر جماعت نے خود ہی دعوت حق دینا شروع کی۔تمام ساتھی ان کی طرف متوجہ ہوئے۔انھوں نے فرمایا
’’میرے بھائی سیف الدّین صاحب!۔۔ایک دن ہم سب کو اس دنیا سے جانا ہے،پھر واپس یہاں نہیں آنا ہے۔اس کائنات اور خالق کائنات پہ غور وتدبُر کرنے کی ضرورت ہے۔ہم اس دنیا میں کہاں سے آئے ہیں ؟کیوں آئے ہیں؟اور آخر کار کہاں جانا ہے؟اسی سلسلے میں آپ کی بستی میں جماعت آئی ہے۔مغرب نماز کے بعد آپ کی نورانی مسجد میںایمان کی بات ہوگی۔آپ تشریف لائیں۔انشااللہ آخر پہ دعا ہوگی‘‘
امیر جماعت کی پُر تاثیر باتیںسن کر سیف الدّین کا دل نرم پڑگیا۔اس کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا
’’جی میں مغرب نماز پہ نورانی مسجد میں ضرورحاضر ہوجاوں گا‘‘
مغرب نماز پہ نورانی مسجدنمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔سیف الدّین بھی ہاتھ منہ دھو کے مسجد میں پہنچ گیا۔امام صاحب نے جونہی تین رکعت فرض نماز پڑھانے کے بعدسلام پھیرا تو جماعت کا ایک خوش شکیل ساتھی فوراً اُٹھ کھڑا ہوا اور باآواز بلند یہ اعلان کرنے لگا
’’بزرگو! بھائیو! اور دوستو!میری ،آپ کی اور تمام دنیا میں بسنے والے لوگوں کی کامیابی اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں رکھی ہے۔اس لیے نماز کے بعد تشریف رکھیں انشااللہ دین وایمان کی بات ہوگی‘‘
سُنت ونوافل سے فارغ ہونے کے بعدکچھ مقتدی اُٹھ کر باہر اپنے گھروں کو چلے گئے لیکن زیادہ تر بیٹھے رہے۔مفتی فرقان احمد امیر جماعت منبر کے قریب کھڑے ہوگئے اور مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے
’’بھائیو! اور بزرگو!۔۔منبر کے قریب آجائیں اور مل مل کے بیٹھیں۔جب ہم اللہ کے گھر میں ایک دوسرے کے قریب بیٹھیں گے تو ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت پیدا ہوگی۔اللہ کے پیارے نبیﷺ جب صحابہ کو خطاب فرماتے توصحابہ ایک دوسرے کے اتنے قریب بیٹھتے تھے کہ اگر ان پہ چادر ڈال دی جاتی تو اس میں جھول پیدا نہ ہوتا ‘‘پھر وہ کھڑے کھڑے خطاب فرمانے لگے۔انھوں نے بڑے عالمانہ انداز میں انسان،مقصد حیات،حقیقت کائنات،قرآن وحدیث کا آفاقی پیغام،جنت کے حسیں مناظر اورجہنم کی لرزہ خیز اذیتوں کا ذکر فرمایا۔تمام سامعین ہمہ تن گوش مفتی فرقان احمد کی عالمانہ باتیں سن رہے تھے۔دین ودنیا کی حقیقت سب پہ منکشف ہورہی تھی۔آخر پہ مفتی فرقان احمد نے فرمایا
’’بھائیو! بُزرگو! اور میرے ساتھیو! یہ جان ،مال اور وقت اللہ کی امانت ہے۔ہمارا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ دنیا کا کوئی بہت بڑا عہدہ،ڈگری یا کسی پیشے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے جان ،مال اور وقت لگتا ہے۔اسی طرح دین اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے بھی جان ،مال اوروقت چاہیے۔اس لیے بشاشت سے کھڑے ہوکر چار مہینے اور چلّے کے لیے اپنے اپنے ناموں کا اظہار فرمائیں۔انشااللہ ہماری دنیا اور آخرت کی زندگی سنور جائے گی۔اگر دین ہماری زندگیوں میں نہیں ہے تو ہم سب سے زیادہ مفلس اور بدنصیب ہیں‘‘
مفتی فرقان احمد کی سحر انگیزاور حقیقت پہ مبنی باتیں جن کا تعلق محض قرآن وحدیث سے تھا،سن کر سیف الدّین کے دل ودماغ میں ایمان کی حرارت پیدا ہوگئی۔وہ سب سے پہلے اُٹھ کھڑاہوا اور چالیس دن کے لیے اپنا نام لکھوایا ۔دوسرے اہل ایمان بھی نام لکھوانے لگے۔اس طرح سے چلّے کی ایک مختصر سی جماعت تیار ہوگئی۔تاریخ طے کردی گئی۔راہ خدا میں جانے والے تمام ساتھیوں کویہ ہدایت دی گئی کہ وہ چار دن کے بعداسی نورانی مسجد میں اپنا سامان سفر لے کر پہنچ جائیں۔آخر پہ دعا کی گئی۔
نماز عشا ادا کرنے کے بعد جب سیف الدّین اپنے گھر پہنچا تو اس کے ہاتھ میں تسبیح اور سر پہ ٹوپی دیکھ کے سفینہ بیگم کو پہلے تو حیرت ہوئی اور پھر مسکان سے اس کے لب کُشا ہوئے۔پھر اس نے کہا
’’بہت دیر کردی حضور آتے آتے۔کہاں تھے ابھی تک؟‘‘
سیف الدّین کا انداز گفتگو اب بالکل بدلا ہوا تھا۔مزاج میں وہ اکڑ پھوں نہیں رہی تھی جو پہلے تھی۔اس نے ڈوبتی اُبھرتی ہوئی آواز میں بیوی کو جواب دیا
’’سفینہ!۔۔۔تُم بہت اچھی ہو۔میں بُرا تھا بلکہ بُرائی کی دلدل میں دھنس چکا تھا ۔میں نے آج تک اللہ کے حقوق کو ضائع کیا ہے۔ایک باغی اور سرکش بن کر میں نے زندگی گزاری ہے۔اب میں راہ راست پہ آگیا ہوں ۔ایک نیک کام کا ارادہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔کیا مجھے وہ نیک کام کرنے کی اجازت دو گی؟‘‘
سفینہ بیگم نے حیرت سے پوچھا
’’نیک کام کرنے کا ارادہ۔۔۔!میں آپ کونیک کام کرنے سے ہرگز نہیں روک سکتی ۔کیا نیک کام کرنا چاہتے ہیں آپ؟‘‘
’’سفینہ! میں چالیس دن کے لیے اللہ کے راستے میں جارہا ہوں ،تاکہ میں مکمل طور پر دائرہ اسلام میں آجاوں۔مجھے قرآن وحدیث کے مطابق زندگی بسر کرنے کا سلیقہ آجائے۔نفس امّارہ نے مجھے بُرائی کی دلدل میں د ھنسادیا تھا‘‘
سفینہ بیگم خوش ہوگئی۔کہنے لگی
’’ہاں اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔بُزرگوں کا کہنا ہے کہ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔بہتر ہے آپ چالیس دن کے لیے اللہ کے راستے میں نکل جائیں۔میں سب کچھ آپ کے بغیر سنبھال لوں گی‘‘
متفقہ رائے قائم ہونے کے بعد دوسرے ہی دن سیف الدّین نے اپنے متعلقہ آفیسر کے نام چالیس دن چھٹی کی عرضی لکھی اور گھر چلا آیا ۔دودن میں اس نے گھریلو ضروریات کی ہر چیز خرید کے رکھ دی۔سفینہ بیگم نے خوشی خوشی اس کا سامان سفر باندھااور چوتھے دن وہ بیوی بچّوں سے رخصت ہوکر نورانی مسجد میں آگیا۔تیرہ آدمیوں کی جماعت تھی۔امیر جماعت حافظ کلام اللہ ہونے کے علاوہ بہت بڑے عالم دین تھے۔جماعت کارُخ شہر نما دیہات کی طرف طے ہوا۔مختلف خاندان اور علاقوں کے لوگ اللہ کی راہ میں ایک امیر کی امارت میں آچکے تھے۔پہلے ہی دن تمام ساتھیوں کو یہ ہدایت دی گئی کہ امیر کی اطاعت اور مشورے کی پابندی نہایت ضروری ہے ۔ان دوامور کے بغیر نفس قابو میں نہیں رہے گا۔سیف الدّین اب ایک نورانی ماحول میں آچکا تھا ۔پانچ وقت کی باجماعت نمازوں کی پابندی،دن میں دو بار ڈھائی گھنٹے قرآن وحدیث کی تعلیم،چھ صفات کا مذاکرہ،کھانے ،پینے، سونے،جاگنے یہاں تک کہ بیت الخلا میں داخل ہونے اور باہر آنے کے آداب اور مسنون دعاوں کا اہتمام ۔فجر اور عصر کے بعد تین تسبیحات کی پابندی،ہر وقت قبر وحشر کا تذکرہ،دعوت حق کے آداب ،گشت کے فضائل وآداب اور پھر مغرب کی نماز کے بعد دین کی بات۔غرضیکہ سیف الدّین کے شب وروز ایک طرح کے فرشتوں کے ماحول میں گزررہے تھے۔رات کو اسے تہجد میںاپنے گناہوں کو یاد کرکے رونا آتا۔وضو،غسل،کھانے ،پینے ،سونے جاگنے کا مسنون طریقہ اسے پہلے معلوم نہیں تھا۔یہاں تک کہ کلمہ اور نماز سے بھی محروم تھا۔لیکن اب اسے دس سورتیں زبانی یاد ہوگئی تھیں ۔مجاہدے اور مجادلے سے اب اس کا نفس گزررہا تھا۔پیٹھ پہ اپنا پیٹھو اٹھائے دیہات میں کبھی کبھی پیدل چلنا پڑتا اور کبھی اسے خدمت میں ساتھیوں کے لیے کھانا پکانا اور برتن دھونے پڑتے۔اس کے غرور وتکبّر اور انانیت نے دم توڑدیا تھا۔اس کے بدلے اب اس میں عاجزی وانکساری اور خوف آخرت سے چہرے پہ ایک عجیب قسم کی نُورانیت آگئی تھی۔اسے اب سکون قلب میسر تھا۔اللہ نے اس پہ اپنی رحمت کا سایہ ڈال دیا تھا۔
چلّہ پورا ہونے میں ابھی دس دن باقی تھے کہ ایک روز امیر جماعت نے سیف الدّین کو گائوں کے مکھیاسے خصوصی ملاقات کے لیے بھیجا۔اس کے ساتھ دو ساتھی اور مقامی رہبر بھی تھا۔مکھیا کانام راج محمد تھا ۔جب مقامی رہبر کی رہبری میں سیف الدّین اور اس کے ساتھی مکھیا راج محمد کے حویلی نما مکان کے پاس پہنچے تو وہ گھر کے لان میں کرسی پہ بیٹھا حقّہ پی رہا تھا۔رہبر نے گیٹ پہ لگی بیل کا بٹن دبایا تو اس کی آواز پہ مکھیااٹھا اور گیٹ کھول دیا۔سیف الدّین نے کہا
’’السّلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘‘
’’وعلیکم السّلام‘‘مکھیا نے سلام کا جواب دیا۔
رسمی طور پر خیر خیریت معلوم کرنے کے بعدسیف الدّین نے کہا
’’محترم المقام! اللہ نے آپ کو نوازاہے۔آپ کانام نامی کافی مشہور اور معتبر ہے۔آپ نہ صرف اپنے گاوں پہ راج کررہے ہیں بلکہ پورے علاقہ کے دیہات میں ایک بہت بڑے مکھیا ہونے کی حیثیت سے آپ کا خاصا دبدبہ بھی ہے۔آپ سے ہماری ملاقات دین اسلام کی نسبت سے ہورہی ہے۔آپ کی جان،مال اور وقت اگر دنیا کے ساتھ ساتھ دین کی خدمت میں بھی صرف ہوتواس دیہات میں جتنی بھی بُرائیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔اس لیے ہماری آپ سے مودبانہ التجا ہے کہ قرآن وحدیث کے عین مطابق زندگی کا سفر طے کرنے کے لیے آپ اپنا وقت فارغ کریںاور چالیس دن کے لیے ہمارے ساتھ ایک روحانی ماحول میں رہیں۔انشااللہ اس پورے علاقے میں آپ کی وجہ سے دینداری کاایک اچھا ماحول پیدا ہوگا‘‘
راج محمد مکھیا نے سیف الدّین کی باتیں سننے کے بعداس کے پورے سراپا پہ نظر دوڑائی۔پھر اپنی لمبی مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے کہنے لگا
’’آپ کون ہیں؟‘‘
سیف الدّین نے جواب دیا’’ہم اللہ کے بندے اور محمدﷺ کے اُمتی ہیں‘‘
راج محمد نے کہا
’’میرا مطلب ہے آپ دیوبندی ہیں یا بریلوی؟‘‘
سیف الدّ ین نے جواب دیا
’’میں ہوشیار پوری ہوں‘‘
راج محمد چونک اٹھا۔حیرت سے پوچھنے لگا
’’وہ کیا مطلب؟‘‘
سیف الدّٰین نے وضاحت سے سمجھانا شروع کیا
’’میرے محترم المقام! میں پنجاب کے ایک علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوا ہوں ۔میرے ماں باپ اور خاندان کے لوگ وہاں رہ رہے ہیں ۔اس لیے میں ہوشیار پوری ہوں‘‘
راج محمد خاموش کھڑا رہا ۔اس سے کوئی بھی سوال وجواب نہیں بن پڑا ۔یوں معلوم ہورہا تھا کہ جیسے اسے زندگی میں پہلی بارلفظ بر یلوی اور دیوبندی کی سمجھ آگئی ہو۔
رابطہ: اسسٹنٹ پروفیسر شعبئہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
9419336120