نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے گذشتہ چار سالوں میں پاکستان کی وزیر اعظم بننے کے اپنے عزم کا کئی بار اظہار کیا ہے لیکن پچھلے ماہ ایک برطانوی اخبار نے یہ پیش گوئی کر کے سب کو حیران کردیا کہ یہ باہمت اور ذہین پاکستانی دوشیزہ ایک دن برطانیہ کی وزیر اعظم بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اخباروں کی سرخیوں میں رہنے والی وادی ٔسوات کی 20 سالہ پختون لڑکی اگست کے تیسرے ہفتے میں اس وقت ایک بار پھر دنیا بھر کے میڈیا کے صفحۂ اول کی ز ینت بن گئی جب اس کو اے لیول ( ہائی اسکول) کی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔
اسے کہتے ہیں قدرت کا انصاف ! ملالہ یوسف زئی کو جسے طالبان نے ان کے منع کرنے کے باوجود تعلیم جاری رکھنے کیً جرم میں گولی ماردی تھی ، دنیا کی اعلیٰ ترین دانش کدہ کی طالبہ ہونے کا شرف حاصل ہو گیا ہے۔ مارچ میں ہی اسے آکسفورڈ کی جانب سے آفر لیٹر مل گیا تھا لیکن اس میں یہ شرط شامل تھی کہ اسے اے لیول کے امتحان میں تین اے گریڈ حاصل کرنے ہوں گے۔ خداد داد صلاحیتوں کی مالکہ ملالہ یونیورسٹی کی اس شرط پر بھی پوری اتری اور اسے آکسفورڈ میں اس کے پسندیدہ کالج لیڈی مارگریٹ ہال میں داخلہ مل گیا، حالانکہ یہاں داخلے کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ دسمبر میں جب ملالہ کوداخلے کے سلسلے میں پہلی بار وہاں بلایا گیا تھا تو اس نے یہ اعتراف کیا کہ یہ اس کی زندگی کا ً مشکل ترین انٹرویو ً تھالیکن ملالہ توکچی عمر سے ہی مشکلوں، مصائب بلکہ خطرات سے کھیلتی آئی ہے۔ جب9 ؍اکتوبر 2012کے دن اسکول سے گھر لوٹتے وقت ایک نقاب پوش بندوق برداروں نے اپنے پستول سے اس کے سر میں گولی ماری تھی اس وقت اس کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی۔ گولی اس کی بائیں آنکھ کے ذرا اوپر پیشانی پر لگی اور کاندھے کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔پہلے بلیٹ کے زخم کی تاب نہ لا کر لہولہان ملالہ اوندھے منہ گر پڑی اس لئے حملہ آوروں کی بقیہ دو گولیاں اس کے جسم کے قریب سے ہوکر گذر گئیں۔ اس واقعے کے چند دنوں کے اندر اسے ایک خصوصی طیارے کے ذریعہ انگلینڈ لے جایا گیا اور برمنگھم کے کوئین الیزبیتھ اسپتال میں داخل کیا گیا۔ متعدد آپریشن کے بعد ملالہ نہ صرف صحت یاب ہو گئی بلکہ اپنے پیروں پر کھڑی بھی ہوگئی لیکن اس کو اس اسپتال میں جو زخمی فوجیوں کے علاج میں مہارت رکھتا ہے تین ماہ تک رہنا پڑا۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ اوریہ بات اب بالکل صاف نظر آرہی تھی کہ اللہ رب العزت کا اس بچی پر خاص کرم تھا۔ اگر اس کا زندہ بچنا ایک معجزہ تھا تو اس کے بعد جو بین الاقوامی شہرت اور عزت اسے حاصل ہوئی وہ بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے اسے کسی خاص مقصد کے لئے زندہ رکھا ہے۔ خود ملالہ کو اس بات کا پورا احساس اور اعتراف ہے کہ اسے جو نئی زندگی حاصل ہوئی ہے وہ لاکھوں لوگوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ ملالہ نے رو بصحت ہونے کے بعد اپنی سوانح عمری ’’میں ملالہ ہو ں‘‘ تحریرکی جو ساری دنیا میں بے حد مقبول ہوئی۔ اس میں اس نے لکھا کہ لوگوں کی دعاًؤں سے اسے یہ نئی زندگی اس لئے ملی ہے تاکہ وہ دوسروں کے کام آ سکے۔
2014ء میں جب اسے امن کے لئے نوبل انعام سے نوازا گیا تو اس کی عمر صرف 17؍سال تھی اور اسے دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ شخصیت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 2017 کے اپریل میں اقوام متحدہ نے ملالہ کو سفیرامن Peace of Ambassador مقرر کیا تو وہ بیس سال کی بھی نہیں تھی۔ ملالہ کو اقوم متحدہ کی سب سے کم عمر سفیر امن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کناڈا نے اسے اعززی شہریت بھی دے دی ہے اور اب آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ پاکر اس نے ایک اور سنگ میل بنالیاہے۔ ملالہ نے جس لیڈی مارگریٹ ہال نام کے کالج میں داخلہ لیا ہے وہاں سے برسوں پہلے پاکستان کی ایک اورطالبہ بھی فارغ التحصیل ہوئی تھیں ان کا نام تھا بے نظیر بھٹو جو بعد میں دو با ر اپنے ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ بے نظیر ملالہ کی رول ماڈل ہیں۔
ملالہ نے آکسفورڈ میں اپنے لئے فلسفہ، پالیٹکس اور اکنامکس (PPE )کا نصاب منتخب کیا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارجین کے مطابق یہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی وہ ڈگری ہے جو برطانیہ پر حکمرانی کرتی ہے۔ گارجین نے جو بات اشارتاً کہی وہ ایک دوسرے اخبار نے صاف اور واضح الفاظ میں لکھ دیا۔ انٹرنیشنل بزنس ٹائمز نے تو پوری بات سرخی میں ہی کہ ڈالی۔ اس اخبار کے 17؍ اگست کے شمارے میں ملالہ کے آکسفورڈ میں داخلہ کی رپورٹ شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی۔اخبار کے مطابق ملالہ کے نصاب کے انتخاب سے صاف ظاہر ہے کہ وہ دنیا کے متعدد با اثر ترین لیڈروں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ آکسفورڈ کی یہ ڈگری برطانیہ کی سیاست میں داخلے کا راستہ کھول دیتی ہے۔ایک نہیں انگلینڈ کے کئی وزرائے اعظم جن میں ہیرالڈ ولسن، ایڈورڈ ہیتھ اور ابھی حال میں ڈیوڈ کیمرون شامل ہیں، آکسفورڈ کی اسی ڈگری سے سر فراز ہوئے تھے۔ ( اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ جو بھی آکسفورڈ سے PPE کی ڈگری حاصل کرے گا وہ ایک دن برطانیہ کا وزیر اعظم بن جائے گا یا بن جائے گی)۔ اس وقت لندن شہر کا مئیر صادق خان ہیں جو ایک پاکستانی نژاد شخص شہری ہیں۔ برطانیہ جیسے جمہوری ملک میں اگر مستقبل میں ایک پاکستانی نژاد لڑکی وزیر اعظم منتخب کر لی جاتی ہے تو یہ واقعی ایک انقلابی اور تاریخ ساز واقعہ ہوگا۔
ویسے ملالہ تو لگاتار تاریخ رقم کر رہی ہے۔ اس میں کچھ بات تو ہے ورنہ وہ ترقی کی ان منازل تک اتنی کم عمری میں پہنچنا نا ممکن تھا۔ ملالہ نے بارہ سال کی عمر میں پاکستانی طالبان کو للکارا تھا۔ وادیٔ سوات پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک نہایت خوبصورت ضلع ہے جو قدرتی دلکشی اور رعنائیوں کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ سوات میں اونچے اونچے پہاڑ ہیں، شفاف پانی کی جھیلیں اور چشمے ہیں سبز مرغزار ہیں۔ یہ علاقہ سیر و سیاحت کے لئے جانا جاتا ہے۔ ملالہ کا خاندان سوات کے سب سے بڑے شہر منگورہ میں رہائش پذیر تھا۔ اس کے والد ضیاالدین یوسف زئی جو تعلیم خصوصاً تعلیم نسواں کے بہت پرجوش مبلغ ہیں، وہا ں ایک اسکول چلاتے تھے۔
2009 میں پاکستانی طالبان کا سوات کی وادی میں دبدبہ کافی بڑھ گیا۔ انہوں نے وہاں اپنے من پسند نئے نئے قانون نافذ کردئے اور نئی نئی پابندیاں عائد کردیں۔پاکستانی طالبان نے جب لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی تو زیادہ تر لڑکیاں گھر میں بیٹھ گئیں۔ پی ٹی ٹی جب بندوق کی نوک پر اسکولوں کو بند کروانے لگے تو ملالہ نے جو اس وقت محض بارہ سال کی تھی ،اس کی پرزو ر مخالفت کی۔ اس نے اس چھوٹی سی عمر میں ہی لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت اور فروغ کے لئے مہم چھیڑ دی۔ اس نے تقریر اور تحریر دونوں کو اپنا ہتھیار بنا لیا۔ اس بہادر لڑکی کے چرچے اس کی صغر سنی میں ہی دنیا بھر میں ہونے لگے تھے۔ 2009 میں بی بی سی کی اردو سروس نے اس کی تحریروں کو اپنے ویب سائٹ پر شائع کیا تھا اور’’ نیو یارک ٹائمز ‘‘نے اس پرایک دل کو چھو لینے والی ڈاکیومنٹری فلم بنائی۔
2013 میں’’ ٹائم میگزین ‘‘نے اسے دنیا کی چند سب سے با اثر شخصیات کی فہرست میں جگہ دی اور لگاتار تین سالوں تک اس کا نام اس فہرست میں شامل کیا جاتا رہا۔ اسی سال اسے پہلی بار نوبل انعام برائے امن کے لئے نامزد کیا گیا۔2013 میں ہی اسے یوروپین پارلیمنٹ کی جانب سے آزادی ٔفکر کے لئے خصوصی انعام دیا گیا اور اسی سال اس کی سوانح عمری ’’آئی ایم ملالہ ‘‘ شائع ہوئی اور راتوں رات انٹرنیشنل بیسٹ سیلر بن گئی۔ ملالہ جب رو بصحت ہوگئی تو اسے اور اس کے والدین اور بھائیوں کو برطانیہ میں پناہ اورہائش کی اجازت مل گئی۔ کوئی اور لڑکی ہوتی تو مغرب کی اس فراخدلی کا بھر پور فائدہ اٹھا کر برمنگھم میں آرام کی زندگی بسر کرتی لیکن ملالہ تو انسانیت کی خدمت کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ اس نے تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ملالہ فنڈ کے نام سے ایک فاؤنڈیشن قائم کیا جو ساری دنیا میں اور خاص کر پس ماندہ ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کام کرتا ہے۔ ملالہ دنیا کی پہلی اور واحد شخصیت ہے جسے ایک ہی سال میں نوبل پرائز بھی ملااور World Children's Prize بھی۔ عالمی بچوں کے انعام کے ساتھ اسے 50 ہزار ڈالر بھی ملے لیکن اس نے پوری رقم غزہ میں فلسطینی بچوں کے ان اسکولوں کی تعمیرنو اور مرمت کے لئے دے دی جو اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے برباد یا منہدم ہوگئے تھے۔ ملالہ کے اندر بچپن سے وہ تمام خصوصیات اور اوصاف موجودہیں جو ایک اچھے لیڈر میں ہونی چاہیے۔ وہ باہمت اور نڈرہے، ایماندار اور منکسر المزاج ہے۔ وہ فیصلہ کرنے کی قوت رکھتی ہے اور کمٹمنٹ سے نہیں گھبراتی ہے۔ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے اوسان بحال رکھتی ہے۔ خود اعتمادی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے او وہ اپنے کاز کے لئے کچھ بھی کر گذرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔ ملالہ فن خطابت سے بھی واقف ہے اور وہ جب بولتی ہے تو ایک عالم ہمہ تن گوش ہو کر سنتا ہے۔ رو بصحت ہونے کے محض چند ماہ بعد 12؍ جولائی 2013 میں اقوام متحدہ میں تعلیم پر ایک خصوصی سیشن منعقد کیا گیا۔ اپنی نوعیت کے اس پہلے اور منفرد پروگرام میں دنیا بھر سے مندوبین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمع ہوئے۔ ملالہ کو یہاں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں گولی کھانے کے بعد وہ پہلی بار دنیا کے سامنے تقریر کرنے کے لئے کھڑی ہو ئی اور اپنی جذباتی مگر مدلل تقریر سے ملالہ نے سامعین کا دل جیت لیا۔ اس نے دنیا میں مساوات، امن اور تعلیم کی اہمیت اور ضرورت پراتنے پر اثر طریقے سے اپنی بات رکھی کہ جنرل اسمبلی میں بیٹھے دنیا بھر کے لیڈروں نے بار با ر کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔اور تو اور اقوام متحدہ نے ملالہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے 12؍ جولائی کے دن کو ملالہ ڈے قرار دے دیا۔ قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس دلیر لڑکی کی تاریخ پیدائش 12 جولائی 1997 ہے۔اس تقریر کے چند ٹکڑے نقل کر رہا ہوں جن سے ملالہ کی قائدانہ صلاحیتوں کا کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے:
’’ دہشت گردوں نے سوچا تھاکہ وہ میرے مقاصد کو بدل دیں گے اور عزائم کو ختم کردیں گے۔ لیکن میری زندگی میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں بدلا کہ میری کمزوری، ڈر اور مایوسی کی موت ہوگئی اورطاقت اور ہمت پیدا ہوگئی۔میں وہی ملالہ ہوں اور میرے عزائم بھی وہی ہیں اور خواب بھی وہی۔
ً بھائیو اور بہنو! ہمیں روشنی کی اہمیت تب سمجھ میں آتی ہے جب ہمیں تاریکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمیں اپنی آواز کی اہمیت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب ہمیں خاموش کردیا جاتا ہے۔اسی طرح سوات میں ہمیں قلم اور کتابوں کی اہمیت کا اندازہ تب ہو ا جب ہم نے بندوق دیکھے۔انتہا پسند قلم اور کتابوں سے خائف ہیں۔ تعلیم کی طاقت انہیں خوف زدہ کردیتی ہے۔وہ عورتوں سے بھی خوف زدہ ہیں۔ عورتوں کی آواز سے انہیں ڈر لگتا ہے۔میں دنیا کی تمام حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ دنیا کے ہر ایک بچے کے لئے مفت اور لازمی تعلیم کا انتظام کریں۔ میں تمام حکومتوں سے یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ دہشت گردی اور تشدد کے خلاف لڑیں۔ میں ترقی یافتہ ممالک سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لئے تعاون کریں۔۔۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ لاکھوں لوگ دنیا میں مفلسی، جہالت اور ناانصافی کا شکار ہیں۔۔اس لئے ہم اپنے قلم اور کتابیں ہاتھوں میں اٹھا لیں ،یہ جہالت ، غربت اور دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ میں ہمارے سب سے طاقتور ہتھیار ہیں‘‘۔