ایس معشوق احمد
1۔میں شاعر تو نہیں :
صاحبو ! معشوق عاشق نہیں ہوسکتا۔گر میں عاشق ہوتا تو عین ممکن ہے میں شاعر بھی ہوتا۔میں شاعر تو نہیں اس کا مجھے افسوس ہے کہ شاعر عشق نہ بھی کرے پھر بھی خیالی وصال سے لطف اور تمام عشقیہ کیفیات کو بیان کرکے حظ اٹھاتا ہے۔مجھے کوئی ڈھنگ کا کام نہ آیا نہ عشق کیا اور نہ ہی شاعری کی ۔فیض کی طرح میں یہ دعوی بھی نہیں کرسکتا کہ کچھ عشق کیا کچھ کام کیا اور پھر دونوں کو ادھورا چھوڑا دیا۔ میں شاعر تو نہیں پڑھ کر بہتوں کو گانا یاد آیا ہوگا کہ ’’میں شاعر تو نہیں،مگر اے حسیں،جب سے دیکھا میں نے تجھ کو،مجھ کوشاعری آگئی‘‘۔یہ اقرار کرلینا ایمانداری ہے کہ میں نے کسی حسیں کو نہیں دیکھا اور نہ مجھے شاعری ہی آئی ۔مرزا کہتے ہیں کہ ریاضی کے سوالات ، گرائمر کے کمالات ، عورت کے خیالات اور شاعری کے فاعلات ہماری سمجھ میں کبھی نہیں آئے۔
یہ اس حسین اور خوش گوار دور کا ذکر ہے جب مجھے بھی مشاعروں اور محفلوں میں مدعو کیا جاتا تھا اور میں خوشی خوشی اپنی بے وزن غزلوں سے باوزن سامعین کو محظوظ کرتا تھا۔مجھے یاد ہے ذرا ذرا کہ میں ابتداء میں ہی یہ اقبال جرم کر لیتا تھا کہ میں شاعر نہیں ہوں جس سے دو فائدے ہوتے۔ایک کہ میں جو بھی سناتا غور سے سن لیا جاتا اور دوسری اہم بات کہ ہر شعر پر مجھے داد ملتی۔مرزا کہتے ہیں کہ شاعر کو داد نہ ملے تو اسے محفل مشاعرہ قبرستان اور سامعین بہرستان کے باشندے لگتے ہیں۔
جب میرے کلام پر پکڑ ہوئی اور اسے بے بحر قرار دیا گیا تو اپنی ناک بچانے کے لیے میں نے یہ ترکیب نکالی اور مشہور کر دیا کہ میں شاعر تو نہیں۔ جب طوفان تھما تو پھر سے بے وزن غزلیں اور خیالی محبوب سے ملاقاتوں کا حال لکھنے لگا۔میں شاعر تو نہیں لیکن آج بھی کبھی کبھار شاعری ویسے ہی کرلیتا ہوں جیسے کسی کاہل کو غیرت کا کیڑا کاٹے اور وہ چند روز محنت و مشقت کرنے لگ جائے۔شاعری کرنا میری مجبوری ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ امیر آدمی اور شاعر پر حسینائیں ایسے مرتی ہیں جیسے وبا میں غریب آدمی اور سردیوں میں مچھر مرتے ہیں۔مجھے دو ہی مشغلے محبوب ہیں شاعری کرنا اور شاعرات سے یک طرفہ عشق کرنا۔عشق میں تو مجھے کامیابی نہ ملی اور نہ شاعری ہی راس آئی کہ بغیر بحر کے شاعری کرنا طوفان میں وہ ناؤ چلانے کے مترادف ہے جس میں سو چھید ہو۔ویسے بھی میں کند ذہن ہوں اور میری طرح بہت سے شاعر ہیں جو شاعر تو نہیں لیکن جب کبھی کوئی ناقد ان کے لکھے پر اعتراض کرتا ہے یا غزل کی خامیوں پر خامہ فرسائی کرتا ہے تو میری طرح انہوں نے بھی یہ فارمولہ یاد رکھ ہے کہ میں شاعر تو نہیں۔
2 ۔شادی سے پہلے :یہ ان حسین دنوں کا ذکر ہے جب بچولیا ہمارے گھر کے چکر اور ہم حسیناؤں کے اردگرد پروانے کی مانند چکر لگایا کرتے تھے۔ہمارے یہ چکر بے سود ہی رہے کہ پروانہ جان تو دیتا ہے لیکن شمع کے ساتھ حسین پل گزارنے سے قاصر ہی رہتا ہے۔ہم الگ ہی ایک عدد محبوبہ کی تلاش میں تھے ،گھر والے سگھڑ بہو اور بچولیا امیر گھرانہ ڈھونڈ رہا تھا جہاں اسے خوب خرچہ پانی ملے۔ایک بات یقینی تھی کہ پریشان ہم ہی تھے کبھی تلاش میں ، کبھی سوالات سے اور کبھی ملاقاتوں سے جو ہم بچولیا کے ساتھ روز ہی کیا کرتے تھے اور جن کی بدولت لوگوں کی نگاہوں میں ہم مشتبہ ہوچکے تھے۔طرح طرح کی باتیں ہمارے کان بھی سنتے تھے ۔کوئی کہتا کہ ماڈرن زمانہ ہے کون بے وقوف اور اندھی اس شکل کو روز دیکھ دیکھ مرنے کو تیار ہوجائے گی ،کوئی طعنہ دیتا کہ کنوارا ہی مرے گا اور کسی کسی سے ہم نے یہ مفید مشورہ بھی سنا کہ آوارہ کو بیٹی کون دے گا، اس سے بہتر ہے تم کوئی ڈھنگ کا کام کرو تاکہ باپ کو بہتر یہ لگے کہ وہ بیٹی کو دریا میں پھینکنے کے بجائے تمہارے پلے باندھ دے۔ ایک روز سخت گرم دوپہر میں آدھ ننگا بچولیا جس نے گرمی کی وجہ سے ٹوپی تک اتار دی تھی ہم سے ملنے آیا اور باآواز بلند سوال کیا شادی کرو گے؟ ۔ہم نے بھی اتنی زور سے ہاں کہا جیسے وہ بہرا تھا۔بچولیا نے ہمیں ایسے دیکھا جیسے سنسار کوئی زیور خریدتے وقت اسے گہرائی سے دیکھتا ہے۔جب جی بھر دیکھ چکے تو بولے پڑھے لکھے ہو؟
مرزا میرے پاس بیٹھے تھے سوال سن کر بیدار ہوئے اور میرے بدلے جواب دیا کہ صاحب دن بھر تو پڑا رہتا ہے اور جہاں تک لکھنے کا سوال ہے کسی حسینہ کو دیکھ لے تو ہاتھ خود بخود قلم کی طرف بڑھتا ہے اور کاغذ کی پرچی پر اپنا فون نمبر بڑے سلیقے سے صاف اور روشن حروف میں لکھ کر پرچی اس کی طرف پھینک دیتا ہے۔
میرے کارناموں کی تفصیل سننے کے بعد بچولیا نے اپنا گنجا سر کھجایا اور پھر اپنا منہ کبھی نہ دکھایا۔
آفتیں ،مصیبتیں ، حادثات ہی اچانک وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ موت اور شادی بھی ناگہاں ہے۔ کچھ مدت کے بعد اچانک ہی ہم جال میں معصوم پرندے کی طرح پھڑ پھڑانے لگے۔
صاحبو ! شادی سے پہلے ہمارے لاکھوں ارمان تھے اور سینکڑوں تمنائیں۔ہمیں کیا خبر تھی کہ جس قیامت کا ہم تذکرہ سن رہے ہیں وہ واقعی بھیانک ہوگی۔شادی سے پہلے ہم بادشاہ تھے اور ہماری سلطنت میں فقط ہمارے حکم کا سکہ چلتا تھا، ہم شیر تھے اور ہر طرف ہماری بہادری کے چرچے تھے ، ہم اپنی مرضی کے مالک تھے اور ہمیں اپنی مرضی سے سونے ، جاگنے ، اٹھنے ، بیٹھنے کی آزادی حاصل تھی ، ہم صحت افزاء مقامات کی سیر کرتے تھے ، ہم ناچتے گاتے تھے ، ہم آزاد تھے اور آزادی کا مطلب اور قدر یا قیدی کو ہوگی یا شادی شدہ کو۔صاحبو ! ہم جو بھی تھے شادی سے پہلے تھے ۔شادی کے بعد ہم بھی ویسے ہی ہوئے جیسا تمہارا حال ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ بھید اور مصیبت کا تذکرہ کرنے سے شامت آتی ہے۔ اس لیے خاموشی ہزار نعمت ہے۔
رابطہ ۔8493981240