کیا آپ مجھ سے واقف ہیں؟ اگر نہیں تو میں اپنا ا یک سرسری تعارف پیش کرتی ہوں، اُمید ہے آپ توجہ فرمائیں گے۔میرا جنم آج سے پونے صدی قبل متحدہ ہندوستان میں ہوا، میرے ساتھیوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا۔ قلت وکثرت اگرچہ کوئی معنی نہیں رکھتا تاہم وقتی طور پر ان دونوں کے اثرات قلب وذہن پر پڑتے ہیں مگر جس کی اُمیدیں خدا سے وابستہ ہوں اسے قلت وکثرت سے کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ یہی حال میرا تھا، میرے ساتھ چلنے والوں کی تعداد بہت ہی کم تھی، لیکن کم ہونے کے باوجود اس کم تعداد میں اتنی خداداد صلاحیتیں موجود تھیں کہ آج دنیا حیران و ششدر ہے کہ کس طرح ایک ننھا اور بظاہر کمزور سا پودا اتنا تناور پھل دار درخت بنا۔ بہرحال یہ ان ہی نفوس کی محنت مسلسل اور قوت ایمان تھا جنہیں اللہ تعالٰی کی تائید و نصرت کا خزانہ بھی نصیب ہوا جس کی مدد سے آج یہ تناور درخت بن گیا۔میرا کام اور میری پیدائش کا مقصد پرامن طریقے سے خدا کی زمین پر خدا کی حکمرانی وبادشاہی کا قیام ہے۔ ابتداء سے لے کر تا ایںدم اسی کوشش میں رہا اور انشاء اللہ رہوں گا۔لوگ میرے ساتھ جڑتے رہے ،بچھڑتے رہے، اس جڑنے بکھرنے سے مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا، میرے ساتھی جو مجھ سے جڑے ہی رہے ان کے حوصلے دن بہ دن بلند ہوتے گئے، گرچہ ان پر وقت وقت پر مصیبتیں آئیں لیکن وہ جھکے نہ بکے نہ تھکے، ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔میرے بارے میں کئی طرح کے الٹے سیدھے سوالات کھڑے کئے گئے ، مجھے آزمایا گیا ، مجھے بدنام کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں لیکن اس سب کا حاصل کچھ بھی نہیں۔ مجھے نیست نابود کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن ستھر سال سے دشمن اپنی مکارانہ چالوں میں ناکام ہی رہا۔ میری حالت آج یہ ہے کہ کہیں میری راہ میں مصیبتوں کے پہاڑ کھڑے ہیں، کہیں جانی و مالی نقصان پہنچا نے کی سازشیں ، کہیں بے علم و جاہل اپنوں کی یشہ دوانیاں۔بہرحال میں اور میرے کارکنان آج پورے عالم میں برسر جدوجہد ہیںمگر ’’کام ابھی باقی ہے’’ میں کسی مسلک ، شخصیت، خاندان یا مادی مفادکے محور پر گھومنے والی تحریک نہیں ہوں بلکہ دین حق اسلام میری پاکیزہ تحریک کا نعرہ ،نظریہ اور منزل ہے۔میں اسلام کی شیدائی ، اقامت دین کی پاسدار اور عالمی خلافت کی داعی جماعت ہوں جو فرد سے کر اجتماع تک کی دونوں دنیائیں صالح بنیادوں پر بنانے کے لئے محوسفر ہے ۔ میرا ایمان ہے ؎
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستیوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ